• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

حادثےکی صورت میں ملنے والی رقم کو فقہاء نےحکومتی تعاون قرار دیتے ہوئے اس کے لینےکو جائز قرار دیا ہے

Updated: August 31, 2024, 4:21 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱) حادثےکی صورت میں ملنےوالی رقم کوفقہاء نےحکومتی تعاون قرار دیتے ہوئےجائز قرار دیا (۲) ایئرپورٹ اور نماز (۳) قبرستان میں لگائے گئے پیڑ کا تختہ(۴)پانی صاف کرنے کے بعد استعمال کرنا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

سڑک حادثہ میں، جو کلیم ملتا ہے سرکار کی طرف سے، ان پیسوں کو لینا کیسا ہے، نیز فی نفسہٖ کلیم لینا اور اس کو حاصل کرنے کے لئے کیس کرنا جیسا کہ عام طور پر ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کے ورثاء کرتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ تفصیلی جواب مطلوب ہے۔ مرغوب احمد، میوات
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: اسلام میں سود کی حرمت نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ قرآن کریم کی آیات کے علاوہ بکثرت روایات صحیحہ بھی اس کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں لہٰذا انشورنس جو خالص سودی معاملہ ہے اس کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ پالیسی ہولڈر اگر ایکسیڈنٹ میں فوت ہوجائے تو جو رقم اس نے جمع کی ہو گی اس کے ورثاء کا اسی پر حق ہے، باقی جو سود کی شکل میں ملے اس کا مساکین پر صدقہ واجب ہوگا۔ لیکن یہاں سوال اس کے متعلق نہیں ہے اس لئے اس پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ اگر مرنے والا خود مفلس اور اس کے بچوں کی کفالت کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو اس صورت میں بجائے تصدق علی الفقراء کے ان نادار یتیم بچوں کی ضروریات میں بھی یہ رقم خرچ ہوسکتی ہے۔ یہاں اصل سوال اس رقم کے متعلق ہے جو کسی ایکسیڈنٹ کی صورت میں حکومتوں کی طرف سے ملتی ہے تو واضح رہے کہ فقہاء نے اسے دیت اور حکومتی تعاون قرار دیتے ہوئے اس کے لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

یہ بھی پڑھئے:فتاوے: زوجین کے درمیان اختلاف، نومولود اور نماز ِجنازہ

ایئرپورٹ اور نماز
 اگر کوئی ایئرپورٹ کسی شہر کی سرحد کے اندر ہو مگر اس کے آس پاس کوئی آبادی نہیں ہو تو کیا وہ شہر والے اگر سفر کریں گے تو اس ایئرپورٹ پر قصر کریں گے؟ افتخار احمد، لکھنؤ
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: ایئررپورٹ عام طور سے زمین کے بڑے رقبے پر محیط ہوتا ہے جس میں یاتو ایئرپورٹ کے دفاتر ہوتے ہیں یا بہت بڑا علاقہ جہازوں کی آمد ورفت کے لئے مختص ہوتا ہے، یہ بہت بڑا حصہ بظاہر خالی دکھائی دیتا ہے لیکن شہری حدود کے اندر ہونے کی صورت میں عام طور سے ہر طرف شہری آبادی بھی ہوتی ہے، اس صورت حال میں ایئرپورٹ کا رقبہ کتنا ہی وسیع و عریض کیوں نہ ہو بہر صورت وہ شہری حدود کا حصہ ہی مانا جائیگا اس لئے جو ایئرپورٹ شہری حدود کے اندر واقع ہیں وہ شہر ہی کا حصہ ہیں اس لئے اس شہر کے مسافر اگر یہاں چار رکعت والی فرض نماز پڑھیں گے تو ان پر اتمام یعنی پوری چار رکعتیں پڑھنا لازم ہوگا وہ یہاں قصر نہیں کریں گے البتہ دوسرے شہروں کے مسافرجو شرعی اصول کے مطابق بھی مسافر ہوں وہ یہاں رک کر نماز ادا کریں تو قصر کریں گے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
قبرستان میں لگائے گئے پیڑ کا تختہ
 گاؤں کے لوگوں نے مشورہ کیا کہ قبرستان میں پیڑ لگائے جائیں، پھر گاؤں میں جو بھی میت ہوگی اس پیڑ کو کاٹ کر تختے تیار کئے جائیں گے۔ کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟ جاوید، اترا کھنڈ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: قبرستان کی زمین عام طور سے وقف ہوتی ہے۔ خاندانی قبرستان ہو تو اس کی حیثیت بھی وقف ہی کی ہوتی ہے، فرق یہ ہے کہ عامۃ المسلمین کے بجائے یہ کسی خاص قوم یا خاندان کے لئے وقف ہے۔ جو حصہ میتوں کی تدفین کے لئے خاص ہے اس کے علاوہ جو حصہ زمین خالی ہو شرعاً وہ بھی اراضی ٔ موقوفہ میں داخل ہے۔ ایک روایت کے مطابق قبروں پر جو سبزہ یا سبز پودے ہوتے ہیں وہ چونکہ اللہ کی تسبیح وتمجید کرتے رہتے ہیں جس سے متوفین کو نفع بھی متصور ہے اس لئے علماء نے ان کے اکھاڑنے کو اچھا نہیں سمجھا لیکن یہاں سوال پودوں کے بجائے بڑے درختوں کے متعلق ہے۔ ظاہر ہے یہ قبروں سے ہٹ کر کہیں خالی زمین ہی پر لگا ئے جا سکیں گے جو قبرستان ہی کیلئے وقف ہے۔ قبرستان کی زمین پر لگائے جانے والے درختوں کے متعلق جو احکام ہیں ان سے قطع نظر صورت مسئولہ میں یہ درخت سب کی مرضی اور اتفاق رائے سے لگائے جائینگے اور غرض بھی تمام بستی والوں کو درپیش ضرورت کا ممکنہ حل ہے اس لئے سوال میں جس صورت حال کا ذکر ہے اسکے پیش نظر اس میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
پانی صاف کرنے کے بعد استعمال کرنا 
  گٹر کے پانی کو بالکل صاف و شفاف ایسا کردیا جائے کہ پینے کے لائق بنا دیا جائے ( رنگ، بو اور ذاائقہ تینوں بدل جائے )تو کیا وہ طاہر مطہر ہوجائے گا نیز کیا اس کو پیا جاسکتا ہے؟ عبد اللہ، ممبئی 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: خالص نجس یا نجاست آمیز پانی جیسے نجاست کی گٹر وغیرہ، اگر اسے کسی طرح فلٹر کرکے نجاست کا رنگ اور مزہ وبو دور بھی کردیا جائے تب بھی نجاست کے اجزاء بدستور موجود رہیں گے، اسکی نجاست دور کرنے کا عمل بہت طوالت طلب ہے جو ان فلٹر مشینوں میں مفقود ہے۔ علماء نے اس پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے صاف طور سے لکھا ہے کہ رنگ، مزہ اور بو کے دور ہوجانے کے باوجود نجاست برقرار رہتی ہے اس لئے اس طرح شفاف بنا دینے کے بعد بھی اس پانی کا کھانے پینے میں استعمال درست نہیں ، البتہ فصل کی سینچائی اور بوقت ضرورت جانورں کی پیاس بجھانے کے لئے اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسی جگہ ہو کہ انسانی پیاس بجھانے کے لئے بھی پانی دستیاب نہیں تو ایسی صورت حال میں اگر ہلاکت کا قوی اندیشہ نہ ہو تو وقتی اور عارضی طور سے انسانی جان بچانے کیلئے بھی اس سے کام لیا جاسکتا ہے لیکن صرف ضرورت کی حد تک تاکہ جان بچ جائے، ایسے مقامات پر پاک پانی کے حصول کی کوشش کی جانی چاہئے۔ اس کے لئے بھی انسانی وسائل موجود ہیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ مجوزہ فلٹر پانی نہ طاہر ہے نہ مطہر۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK