ایک ہفتے سے اخبارات میں کولکاتا کے’ آر جی کر کالج‘ میں پیش آنے والا واقعہ چھایا ہوا تھا۔ اسی درمیان بدلا پور کا افسوسناک سانحہ پیش آگیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس موضوع پر غیر اُردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے؟
EPAPER
Updated: August 25, 2024, 3:46 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
ایک ہفتے سے اخبارات میں کولکاتا کے’ آر جی کر کالج‘ میں پیش آنے والا واقعہ چھایا ہوا تھا۔ اسی درمیان بدلا پور کا افسوسناک سانحہ پیش آگیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس موضوع پر غیر اُردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے؟
یہ محض جنسی درندگی کی حد تک محدود نہیں
مراٹھی اخبار’سکال‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’جب بدلاپور واقعہ کے اثرات ریاست اور ملک بھر میں دکھائی دینے لگے اور عوامی احتجاج شدید رخ اختیار کرگیا تب پولیس اور حکومت نیند سے بیدار ہوئی۔ بدلاپور کا واقعہ محض جنسی درندگی کی حد تک محدود نہیں بلکہ والدین کے ذہنوں میں وہ خوف اور پریشانی ہے کہ ان کی معصوم بچیاں اب اسکول میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس واقعہ کے بعد پولیس، اسکول انتظامیہ اور سیاست دانوں کا رویہ ناقابل معافی ہے۔ زیادتی اور تشدد کے واقعات کے بعد پولیس کی بنیادی اور اخلاقی ذمہ داری متاثرہ اور خاندان کو مدد فراہم کرنا ہوتا ہے۔ انہیں شکایت درج کرانے کیلئے گھنٹوں انتظار کروانا بھی اتنا ہی سنگین سماجی جرم ہے جتنا کہ آبرو ریزی۔ اسکول انتظامیہ کو متاثرہ لڑکیوں کی مدد کیلئے ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت تھی لیکن اس کے برعکس اُس نے پورے معاملے کو ہی دبانے کی مذموم کوشش کی۔ اگر شہری اس شرمناک واقعہ کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے تو ریاست اور ملک بھر میں احتجاج نہیں ہوتا۔ یہ حکومت اور عوامی نمائندوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ زیادتی کے ملزم کے خلاف فوری کارروائی کرتے اور ساتھ ہی پولیس اور اسکول انتظامیہ کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئےشہریوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے۔ وامن مہاترے نامی سابق میئر نے بدلاپور واقعہ کی رپورٹنگ کرنے والی ایک خاتون رپورٹر کے ساتھ حد درجہ بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔ وامن مہاترے جیسے لوگ معاشرے کے ایک بڑے طبقے میں پھیلی بے چینی کو نہیں دیکھتے، وہ اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ اپنی عزت بچاتے ہوئے وہ ننھی اور چھوٹی کلیوں کو اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:ہنڈن برگ کے سنسنی خیز انکشاف سے’ سیبی‘ کی سربراہ کی مشکلات میں اضافہ
حکومت کے جھوٹے دعوؤں کی قلعی اُترگئی ہے
مراٹھی اخبار ’سامنا‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’بدلاپور کے ایک اسکول میں دو بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی سے ناراض سر پرست اور عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ سوال ناراض عوام کا نہیں بلکہ ان حکمرانوں کا ہے جو عوام کے سڑکوں پر آنے کے بعد ایکشن موڈ میں آتے ہیں۔ اس واقعہ نے نہ صرف انسانیت سوز چہرے کو بے نقاب کیا بلکہ ریاستی حکومت کےخواتین کے تحفظ کے جھوٹے دعوؤں کی بھی قلعی اتار دی ہے۔ حکومت’لاڈلی بہن اسکیم‘ کا کریڈٹ لے رہی ہے اور بہنوں کو پیسے بانٹ رہی ہےلیکن خواتین کے تحفظ پر پوری طرح سے خاموش ہے۔ اگر آپ کی ریاست میں تین چار سال کی معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں اور درندے دندناتے پھر رہے ہیں تو آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ خواتین کے ساتھ ہمدردی کا نام نہاد دعویٰ کریں۔ بدلاپور واقعہ نے پولیس کی نااہلی اور بے عملی کا پول بھی کھول دیا ہے۔ زیادتی کا شکار بچیوں کے والدین کو ۱۲؍ گھنٹے تک پولیس اسٹیشن میں بٹھا کر رکھا گیا۔ یہ تاخیر کیوں کی گئی؟یہ کس کیلئے اور کس کے کہنے پر کیا گیا؟ ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ جس تعلیمی ادارے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے، اس کے ٹرسٹی بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیا صرف اسلئے مقدمہ درج کرنے میں تاخیر کی گئی۔ اب وزیر داخلہ دیویندر فرنویس کہہ رہے ہیں کہ اگر تاخیر ہوئی ہے تو ہم کارروائی کریں گے۔ پونے کے ہٹ اینڈ رن کیس میں بھی پولیس نے اسی طرح کی تاخیر کی تھی۔ بعد ازاں شدید ردعمل کے بعد ایکشن لیاگیا۔ جب تک اپوزیشن آواز بلند نہیں کرتا تب تک حکومت نیند سے بیدار نہیں ہوتی اور پھر کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن ہر معاملے میں سیاست کرتی ہے۔ بدلاپور میں احتجاج اور غصے کی آگ بھڑک اٹھی، ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ اس میں نہ کوئی اپوزیشن پارٹی شامل تھی اور نہ ہی کسی لیڈر نے اپیل کی تھی۔ اگر اس میں کسی کو سیاست نظر آتی ہے تو یہ حکمراں طبقہ کی ذہنیت کا قصور ہے۔ ‘‘
بدلاپور کا واقعہ مہاراشٹر کے وقار پر ایک بدنما داغ ہے
ہندی روز نامہ’نو بھارت‘ ۲۲؍ اگست کے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’بدلاپور کا معاملہ ترقی یافتہ کہلائے جانے والے مہاراشٹر کے وقار پر ایک بدنما داغ ہے۔ اس انسانیت سوز واقعہ کا خیال بھی ذہن میں آتا ہے تو جسم کانپ اٹھتا ہے۔ سوچئے!ان دو معصوم طالبات پر کیا گزری ہوگی جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا؟اسکول انتظامیہ کو سب کچھ معلوم ہونے کے بعد بھی لیپا پوتی کی جاتی رہی۔ پولیس کو اطلاع ملنے کے بعد بھی ۱۰؍ سے ۱۲؍ گھنٹے تھانے میں بٹھا کر ذہنی اذیت سے دوچار کیا جاتا رہا۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے ضلع میں یہ گھناونا واقعہ پیش آتا ہےمگر وہ بھی اسلئے خاموش ہیں کیونکہ اس وقت پورا ملک بنگال کی ایک خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل پر سیاست کرکے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ کوئی حساسیت، کوئی سنجیدگی نہیں۔ کولکاتا کی بیٹی ہو یا بدلاپور کی، اگر ملک کی کسی بھی بیٹی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو اسے سیاست کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ کیا وزیر اعلیٰ اور ان کے وزراء کو صرف کابینی اجلاس منعقد کرنے کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ، جیسے اعلانات محض دل فریب نعرہ بن کر رہ گئے ہیں۔ اب ہر خاندان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ بیٹیوں کو تعلیم دینےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ موجودہ ماحول کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بیٹیاں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ پہلے بیٹیاں کھوکھ میں ماری جاتی تھیں، اب اسکول اور کالجوں میں۔ ‘‘
پولیس کا رویہ جرائم کی پردہ پوشی نہیں ہونی چاہئے
انگریزی روز نامہ’ دی فری پریس جنرل‘نے ۲۳؍ اگست کے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’ایک بچے کیلئے محفوظ ترین جگہ گھر اور اسکول ہونے چاہئیں لیکن افسوس، صورتحال اس کے برعکس ہوتی جارہی ہے۔ کووڈ کے سبب لگنے والے لاک ڈاؤن کے دوران ہونے والی تحقیقات سے واضح ہوا کہ بچے بالخصوص لڑکیاں اپنے ہی خاندان کے افراد کے جنسی حملوں کا شکار بنیں۔ مہاراشٹر کے بدلاپور میں جو سانحہ پیش آیا وہ انتہائی شرمناک ہے۔ اسکول کے صفائی ملازم نے۲؍معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ اس کے بعد پولیس کو فوراً حرکت میں آنا چاہئے تھا۔ ملزم اور اسکول کے دیگر حکام کی گرفتاری عمل میں آنی چاہئے تھی لیکن پولیس نے ایسا کرنے کے بجائے قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے کو ترجیح دی۔ جب متاثرہ طالبات کےوالدین اور دیگر افراد نے پولیس کے رویے کے خلاف پرتشدد احتجاج کیا اور ریلوے ٹریک پر بیٹھ گئے تب کہیں جاکر پولیس کارروائی کرنے پر مجبور ہوئی۔ ہائی کورٹ نے اس واقعہ کا از خود نوٹس لیا اور اپوزیشن نے بند کا اعلان کیا۔ ریاستی حکومت محض اس سے مطمئن ہے کہ اس نے ملزم کو گرفتار کیا، اسکول انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی اور ریاست بھر کے تمام اسکولوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانےکا فرمان جاری کردیا۔ حکومت کا الزام ہے کہ سیاسی رنجش کے سبب اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا لیکن اسے دیکھنا چاہئے کہ ہائی کورٹ نے بھی حکومت اور پولیس کی کارروائی پر سخت الفاظ میں سرزنش کی ہے۔ افسوس کہ اس طرح کے معاملات میں حکام کا رویہ پردہ پوشی ہی کا ہوتا ہے۔ ‘‘