• Sat, 08 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں: دسمبر کی ایک شام: گیہوں کی سنچائی، ساگ کھوٹنے کی کلا ،آتی جاتی ہنسی

Updated: January 07, 2024, 1:39 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

ساگوان کے لمبے لمبے درخت ہوا کے اشارے پر رقص کررہے تھے۔سڑک کے دونوں طرف کے کھیتوں میں چہل پہل تھی۔

While irrigating, sometimes hand, sometimes shovel, sometimes hoe are needed, there is no time to think. Photo: INN
سنچائی کرتے وقت کبھی ہاتھ ، کبھی پھاوڑا کبھی کدال کی ضرورت ہوتی ہے، سوچنے کی مہلت نہیں ہوتی ہے۔ تصویر : آئی این این

دس دسمبر کی شام تھی، سوا چار بجے تھے، چاروں طرف دھوپ کھلی ہوئی تھی، دھوپ میں حرارت بالکل نہیں تھی، سرد ہواؤں نے سورج کی کرنوں کو بے اثر کردیا تھا، اس کی گرمی کو نگل لیا تھا۔ آم کےباغ خالی خالی تھے، دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ بس پتوں کے سرسراہٹ سنائی دیتی تھی۔ ساگوان کے لمبے لمبے درخت ہوا کے اشارے پر رقص کررہے تھے۔سڑک کے دونوں طرف کے کھیتوں میں چہل پہل تھی۔ آلو اور سرسوں کے کھیت میں گاؤں کی ایک معمر خاتون نظر آرہی تھیں ، ان کی ساڑی کے پلو میں سرسوں کے ساگ رکھے ہوئے تھے، اوپر سے جھانک رہے تھے۔وہ اس عمر میں بھی پوری توانائی کے ساتھ کھیت میں گھوم گھوم کر ساگ کھوٹ رہی تھیں ۔’کھوٹنے‘ کے دوران ہاتھ کی انگلیوں کی مدد سے ساگ کے پودے کو دبایا جاتاہے۔ اس طرح اس کے اوپر کا حصہ الگ ہو جاتا ہے، ہاتھ میں آجاتا ہے۔کہتے ہیں کہ ساگ کھوٹنا بھی ایک کلا ہے،کوئی اناڑی ساگ کھوٹنے کی کوشش کرتا ہے تواکثر پودا ہی اکھاڑ دیتاہے۔پھر وہ اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کاانتظام کرتا ہے، نظر بچاکر جڑتوڑتا ہے ، اسے ٹھکانے لگاتا ہے اور اوپر کا حصہ تھیلی میں رکھ لیتا ہے۔ ساگ کھوٹنے کا کوئی تربیتی کورس نہیں ہوتا ہے ،کوئی کسی کو کچھ سکھاتا نہیں ہے ، کھیت میں  جاتے جاتے اس کا ماہر ہوجاتا ہے۔ 
 ساگ کھوٹنے والی خاتون رہ رہ کر ادھر ادھر دیکھ بھی لیتی تھیں۔ خاص طور پر سورج کی طرف دیکھتی تھیں۔ اس طرح شاید وہ وقت کا اندازہ لگاتی رہی ہوں گی۔ گاؤں میں اب بھی کچھ لوگ ایسے بچے ہیں جوسورج، چاند اور تاروں ہی سے وقت کا اندازہ لگاتے ہیں۔شہر سے گاؤں گھڑی بہت تاخیر سے پہنچی۔ ایک زمانے تک وقت سمجھنے کا یہی طریقہ تھا۔ اس روایتی طریقے میں  ۲۴؍ گھنٹے نہیں ہوتے تھے ، کچھ مرحلے ہوتے تھے ، زیادہ سےزیادہ دس مرحلے ہوتے تھے۔ 
 قریب میں چڑیاں بھی چہچہا رہی تھیں ۔کوے بھی کائیں کائیں کررہے تھے۔ گولر کی موٹی موٹی شاخوں پر پرندے بیٹھے ہوئے تھے۔ کھیت کے کنارے ایک جگہ سفید سفید بکریاں چررہی تھیں۔ ان کا مالک ڈنڈا لئے کھڑا تھا، کیونکہ بالکل سامنے گیہوں کا کھیت تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے :گاؤں کی باتیں:گھنے کہرے میں ہر جگہ خاموش تھی، درو دیوار پر پرندوں کی محفل سجی ہوئی تھی

 ایک نوجوان گیہوں کے کھیت کی سنچائی کررہاتھا، پہلی سنچائی تھی، اس لئے کھیت کی مٹی زیادہ پانی سوکھ رہی تھی، یعنی جذب کررہی تھی۔گرمیوں کی طرح مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو دور دور تک پھیلی نہیں تھی، پھر بھی تھوڑی بہت پتہ چل رہی تھی۔ سردی بہت زیادہ نہیں تھی لیکن بہت کم بھی نہیں  تھی تھی، اس سردی میں نوجوان کے جسم پر عام دنوں والا لباس تھا، ہاف ٹی شرٹ تھی،وہ پائینچے بھی چڑھائے ہوئے تھا، یعنی ہاتھ کی طرح پاؤں بھی کھلے ہوئے تھے، پھر بھی اسے سردی کا ذرا بھی احساس نہیں تھا، وہ پوری مستعدی سے سنچائی کر رہاتھا۔ اس کی نظر پانی کی دھار پر تھی۔ جہاں سے پانی پھوٹتا تھا، وہ اسے فوراً بند کر دیتا تھا۔
 سنچائی والا پانی کم من مانی نہیں کرتاہے، جہاں تہاں سے راستہ بنالیتاہے، مینڈ کاٹ کر بہنے لگتا ہے، اسی لئےگیہوں کے کھیت کی تنہا سنچائی کی جاسکتی ہے،آلو کے کھیت کی سنچائی کسی ایک شخص کے بس کی بات نہیں۔’ڈڑہی‘ (مینڈ) خراب ہوجاتی ہے۔اکیلے آلو بھرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدھا پانی لیا جاتا ہے اورآدھا پانی کہیں اور لے جایا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں آدھا پانی آلو میں لے جاتے ہیں ، آدھا پانی لہسن یا پیاز میں کٹا دیتےہیں ، یعنی پانی کا رخ تبدیل کردیا جاتا ہے۔
چلئے پھر اسی کھیت میں چلتے ہیں ۔سنچائی کے وقت پانی پوری رفتار سے آرہا تھا، اسی لئے نوجوان پلک نہیں جھپکارہا تھا، اس کے ہاتھ میں ہر وقت پھاوڑا رہتا تھا لیکن جب وہ مینڈ باندھنے لگتا تو پھاوڑا وہیں رکھ دیتا تھا، اس طرح بار بار اسے اٹھاتا اور رکھتا تھا۔ سنچائی کرتے وقت کبھی ہاتھ ، کبھی پھاوڑا کبھی کدال کی ضرورت ہوتی ہے، سوچنے کی مہلت نہیں ہوتی ہے۔ فوری طور پر کوئی بھی اوزار استعمال کرنا ہوتا ہے۔ یہ نوجوان تجربہ کار تھا، کسی سپورٹ کے بغیر اپنے کام میں مصروف تھا، آس پاس کوئی نہیں تھا، کوئی کوئی کھیت کے باہر سے کھڑے کھڑے اسے مشورہ دیتا تھا ،’’ بابو گھر چلے جو، بہنے بھر ے، ٹھنڈی لگ جائے، سرا بہے تھے۔‘‘(بابو گھر چلے جاؤ،کل بھرنا، شیت لہر چل رہی ہے۔)نوجوان ان مشوروں پر اقرار اور انکار نہیں کرتاتھا، بس مسکرا کر رہ جاتاتھا۔کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ چہرے پر مسکراہٹ وجود میں آنے سے پہلے دم توڑ دیتی تھی۔ مسکراہٹ جھلک دکھاکر غائب ہوجاتی تھی،مسکراہٹ پھیلنے سے پہلے ہی پانی پھوٹ جاتا تھا، اس وقت کھلا کھلا چہرہ اچانک اڑااڑا چہرہ بن جاتا تھا، وہ بھاگتے ہوئےپانی بند کرنے کیلئے جاتاتھا۔ پانی روکنے کے بعد مطمئن ہوجاتا تھا، پھروہی سلام کلام اور آتی جاتی مسکراہٹوں کا سلسلہ جاری ہوجاتا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK