• Sat, 08 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں:گھنے کہرے میں ہر جگہ خاموش تھی، درو دیوار پر پرندوں کی محفل سجی ہوئی تھی

Updated: December 31, 2023, 3:54 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

گزشتہ سال کی۲۱؍ دسمبر کی صبح تھی، گھنا کہرا چھایا ہوا تھا۔ اتنا گھنا تھا کہ شام تک سورج نکلنے کے کوئی آثار نہیں  تھے۔

Streams are visible on the roof walls in the thick fog. Photo: INN
گھنے کہرےمیں چھت کی دیواروں پر پر ندے نظر آرہےہیں۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ سال کی۲۱؍ دسمبر کی صبح تھی، گھنا کہرا چھایا ہوا تھا۔ اتنا گھنا تھا کہ شام تک سورج نکلنے کے کوئی آثار نہیں  تھے۔ گاؤں  والے گھروں  میں  قید ہوگئے تھے۔ اکثر گھروں  میں  الاؤ جل رہے تھے لیکن کسی کے آنگن، صحن ، دالان اور دوارے سے الاؤ کا دھواں  اٹھتا ہوا دکھائی نہیں  دیتا تھا،دراصل یہ دھواں  بھی کہرے نے نگل لیاتھا، کہرے کا پیٹ اتنا بڑا ہے کہ وہ سورج کو بھی کھاگیاتو پھر دھواں وواں  کی کیا بساط ہے؟ صبح ساڑھے ۹؍ بجے تک سناٹا چھایاہوا تھا۔  پگڈنڈیاں  ویران تھیں ، دور دور تک کوئی نظر نہیں  آرہا تھا۔ بچے گھروں سے نکلے نہیں  تھے، کھیل کے میدان خالی خالی تھے۔ سردی بھی غضب کی تھی، خون جمادینے والی تھی۔ گھر کی بڑی بوڑھیوں نے فرمان سنادیا تھا کہ کوئی بچہ باہر نہیں نکلےگا،آج کوئی کھیلنے نہیں جائےگا۔ دیکھ رہے ہیں کہ اتنی ٹھنڈی میں باہر کوئی اندہ ہے نہ بندہ۔گوروچوا(مویشی ) بھی نہیں ہیں ، کوئی جانور بھی نہیں ،کتے بھی نہیں ہیں۔
اس سناٹے میں اچانک پک اپ سے سبزی بیچنے والا مائیک پر اعلان کرنے لگا۔ اس کی آواز دور دور تک سنائی دے رہی تھی۔ سبزی بیچنے والا کہہ رہا تھا ،’’ لو  آلو سوروپے میں  اتنے کلو،ہری مٹرسو روپے میں  اتنے کلو ......‘‘ وہ لاؤڈ اسپیکر پر لگاتار بولے جارہا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: ’اُترن‘ بجو کا کانصیب، مینڈک کا جوس اور’منہ نوچوا‘ سےخوف کا زمانہ

سبزی والے کی آواز سن کر یہ کالم نگار رضائی سے  باہر نکلا اور  چھت پر چڑھ گیا۔ چھت کا فرش تر بتر تھی،ایسا لگ رہا تھا کہ بارش ہوئی ہے۔کہرا بھی ہلکی ہلکی پھوار کی طرح تھا ، اس کی کچھ بوندیں  شال اور مفلر پر جم گئی تھیں ۔ اس کالم نگار  نے وہاں  دیکھا کہ اس سردی میں  چھت  کے ہر حصے میں  قطار سے چڑیاں  بیٹھی ہوئی تھیں ،ایک بھی دیوار خال نہیں  تھی، چڑیاں  مسلسل چہچہار ہی تھیں ، اچھل کود رہی تھیں ، اپنی دھن میں مست تھیں۔ سبزی بیچنے والی کی آواز پر چڑیوں  کی چہچہاہٹ حاوی تھی۔  اس ٹھنڈ میں  آس پاس کے درختوں  اور پودوں پر بھی روز سے کہیں زیادہ پرندے تھے۔کچھ پرندے سردی میں  ٹھٹھرے ہوئے تھے۔ اپنی گردن جھکائے ہوئے تھے، سمٹے سمٹے سے تھے۔
 ایک زمانے کے بعد اتنے پرندے ایک ساتھ دیکھنے کا اتفاق ہواتھا۔اس سے پتہ چلا کہ اب پرندوں  کو انسانوں  سے وحشت ہونے لگی ہے،اسی لئے تو پرندوں  نے اپنی محفل اس وقت سجائی جب انسانوں  کی محفلیں  اجڑی ہوئی تھیں ،ایسے دن کا انتخاب کیا جب کسی انسان کی آواز سنائی نہیں  دے رہی تھی، سب بسترمیں  دبکے ہوئے تھے۔ کوئی آپادھاپی نہیں  تھی ، کسی کے آمدورفت کے سلسلے نہیں  تھے، بائیک اور کار کے ہارن خاموش تھے،کپڑادھونے اورکھانا پکانے وغیرہ کی سرگرمیاں بالکل ٹھپ تھیں ،کھیتوں میں  ٹریکٹر نہیں  چل رہے تھے،ٹیوب ویل کا شور بھی نہیں تھا۔ اب پتہ نہیں  پرندوں  کو شور سے وحشت ہوتی ہےیاوہ انسانوں  سے بیزار ہو گئے ہیں ؟ اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پرندوں  اور انسانوں  میں  گہری دوستی تھی،گوریاں کچے آنگن میں بچوں کے ساتھ پھدکتی تھیں ،جس چارپائی پر گیہوں  یا دھان پھیلایا جاتا تھا، بار بار ہنکانے کے باوجود وہاں آجاتی تھیں  اور اپنے حصے کا رزق چونچ میں دبا کر پھر سے اڑ جاتی تھیں ۔ اسی طرح امرود اور مہندی کے درختوں  پر توچرخیوں کا بسیرا  ہوتاتھا،ان کا گروپ مسلسل چہچہاتا تھا، ایک پل کیلئے بھی خاموش نہیں  رہتا تھا۔اتنا شور کرتا تھا کہ کان پک جاتے تھے۔ بلبل بھی آجاتا تھا،اپنے گیت سناتا تھا، کوئل بھی کسی اونچے درخت پر بیٹھ کر کوکتی تھی،کانوں میں رس گھولتی تھی۔ مینا اور فاختہ کہاں  پیچھے رہتے تھے؟ وہ بھی انسانی بستی کے کسی درخت پر گھڑی دو گھڑی لئے بیٹھ جاتے تھے۔لل منیا بھی ڈال ڈال پھدکتی تھی، ٹانگوں  میں  کوئی تنکا دبائے پھرتی رہتی تھی ،وہ آشیانہ بنانے کی فکر میں گھلتی تھی۔ برسات کے موسم میں میاں  مٹھو بھی آجاتے تھے، کسی درخت کی شاخ پر چھپ چھپ کر بولتے رہتے تھے۔ بچے انہیں تلاش کرتے تھے مگر وہ اپنے رنگ کا فائدہ اٹھا کر ہری پتیوں میں کہیں  دبکے رہتے تھے۔ 
کھپریل پر کوےبیٹھے رہتے تھے، کائیں کائیں  سے باز نہیں  آتے تھے،خالی رہتے تو ادھر سے ادھر ہوتے تھے۔ تھکے تھکے اور بے زار نظر آتے تھے  لیکن کہیں سے کوئی لجھڑ(گوشت بنانے کے بعد بچے ہوئے ٹکڑے)  پھینک دیتا تو کوؤں  کی سرگرم ہوجاتے تھے ۔ متحرک ہوجاتے تھے ، ان کے درمیان چیل بھی آجاتی تھی۔پھر کوؤں میں گھمسان رن پڑتا تھا اور چیل ایک ہی بار اترتی تھی۔اپنے حصے کا لجھڑ لے کر یہ جاوہ جا ہوجاتی تھی، پل بھر میں  آسمان سے باتیں کرنے لگتی تھی۔ کوے دیکھتے ہی رہ جاتے تھے ، اس چھینا چھپٹی میں اتنا شور ہوتا تھا کہ دوپہر میں  بھی آنکھ جھپانا (سونا)دشوار ہوجاتاتھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK