شام کا وقت تھا۔ شادی کی تقریب ختم ہوچکی تھی۔ کھانے کی دیگیں اٹھا لی گئی تھیں۔ جس میدان میں کھانا بنا ہوا تھا ، وہا ں کوئلے کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور اینٹ کی بھٹیاں خالی سی خالی سی تھیں۔
EPAPER
Updated: July 15, 2024, 3:44 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
شام کا وقت تھا۔ شادی کی تقریب ختم ہوچکی تھی۔ کھانے کی دیگیں اٹھا لی گئی تھیں۔ جس میدان میں کھانا بنا ہوا تھا ، وہا ں کوئلے کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور اینٹ کی بھٹیاں خالی سی خالی سی تھیں۔
شام کا وقت تھا۔ شادی کی تقریب ختم ہوچکی تھی۔ کھانے کی دیگیں اٹھا لی گئی تھیں۔ جس میدان میں کھانا بنا ہوا تھا ، وہا ں کوئلے کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور اینٹ کی بھٹیاں خالی سی خالی سی تھیں۔ ان کے سامنے برتن مانجھنے کی تیاری کی جارہی تھی۔ ہر شادی میں اسی طرح صبح کا منظر کچھ اور ہوتا ہے، شام کا منظر کچھ اور ہوتا ہے۔
اس سے پہلے تک منظر کچھ اور تھا۔ ہر طرف گہماگہمی تھی، چہل پہل تھی۔ رونق تھی، ہر کوئی دوڑ بھا گ رہا تھا۔ گاؤں میں شادی کی ایک تقریب تھی، سیکڑوں افراد جمع تھے، کھانے کے ٹیبل سج رہے تھے، ان پر انواع و اقسام کے پکوان رکھے ہوئے تھے، نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بڑے بوڑھے بھی بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ دوڑ دوڑ کر ٹیبل سجا رہے تھے۔ آنے والے مہمانوں کی ضیافت کا انتظام کر رہے تھے۔ کوئی پلاسٹک کی پلیٹ رکھ رہا تھا تو کوئی پلاسٹک کے گلاس لے کر آرہا تھا۔ اسی طرح کھانے کی اشیاء بھی الگ الگ پلیٹوں میں رکھی جارہی تھی۔ ایک پلیٹ میں چکن چلی کا پکوان تھا، ایک میں مرغ فرائی تھا، روٹیاں دو طرح کی تھیں، ایک سادہ روٹی تھی، سفید سفید، ایک شیرمال تھی، اس کا رنگ روغنی تھا۔ اسی لئے کچھ لوگ شیرمال کو روغنی بھی کہتے ہیں۔ چاول بھی دو طرح کے تھے۔ ایک میٹھا چاول تھا، ایک زیرہ رائس تھا۔ میٹھے میں لوکی کا حلوہ تھا اور فیرنی تھی۔ اسی طرح سالن میں ایک بیف کا سالن تھا، ایک بکرے کا سالن تھا، ایک چکن بھی تھا۔ پورا دسترخوان بھر اہو ا تھا۔ کاغذ کی پلیٹوں میں سے کچھ میں سلاد تھا۔ کچھ میں سیب اور کیلے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رکھے ہوئے تھے۔ اسی طرح مشروب بھی تھے۔ اب گاؤں دیہات کی شادیوں میں بھی اسی طرح کا دسترخوان سجا یا جاتا تھا۔ پورا دسترخوان بھرا رہتا تھا۔ کھانے والے کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کھا ئیں اور کیا چھوڑیں ؟
یہ بھی پڑھئے: شدید گرمی اور بارش کے روٹھ جانے سے اب تک مکئی اور اَرہر کی بوائی نہیں ہوئی ہے
پرانے زمانے کے شادی کے دسترخوان بہت الگ ہوتے تھے۔ پیتل کی دیگ میں سالن بنتا تھا جس کی مہک دور دور تک پھیل جا تی تھی۔ دھیمی دھیمی آنچ پر پکنے والا یہ سالن انتہائی لذیذ ہوتا تھا، اس کے ساتھ تندوری روٹی ہوتی تھی اور چاول ہوتا تھا۔ یہی پکوان گاؤں والوں کیلئے بھی ہوتا تھا اور مہمانوں کیلئے بھی۔ اس وقت پیتل کی دیگ میں بنا ہوا سالن پرئی (مٹی ) میں رکھ کرپیش کیا جاتا تھا۔ گاؤں والے تند وری روٹی اور اس سالن کو نان گوش ( نان گوشت ) کہتے تھے۔ اس کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا تھا، اس کا ذائقہ منفر د ہوتا تھا۔
جب صبح صبح پیتل کی دیگ میں سالن پکتا تھا تو دو چار گاؤں والوں کو پتہ چل جاتا تھا کہ آج فلاں گاؤں میں شادی ہے۔ اسی کی مہک سونگھ کر مانگنے والے بھی بڑی تعداد میں جمع ہو جا تے تھے۔ پوروانچل میں شادی میں مانگنے والوں میں نٹ برادری کے لوگ پیش پیش رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جہاں بھی جاتے ہیں ، خالی ہاتھ نہیں لوٹتے، کچھ نہ کچھ لے کر ہی وہاں سے ہلتے ہیں۔ ان کے مانگنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ یہ گڑ گڑا کر مانگتے ہیں۔ جب انہیں کچھ ملنے کی امید نہیں ہوتی ہے تو و ہ کہتے ہیں ، ’’ ارے بھیا چاچا، اکے روٹیا دے دا ‘‘( ارے بھیا! چچا! ایک ہی روٹی دے دیجئے۔ ) ایک روٹی ملنے کے بعد وہ کہتے ہیں، ’’ تنی بے سلنوا دے چاچا‘‘( تھوڑا سا سالن بھی دیجئے چچا)۔ سالن مل جاتا ہے تو یہ کوشش کرکے چاول اور میٹھی روٹی ( شیرمال) بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ نٹ قوم کے لوگ پوروانچل کی شادیوں میں بن بلا ئے مہمان کی طرح پہنچ جاتے ہیں اور ان کے بغیر کوئی بھی شادی ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ اب اس قوم میں کچھ بیداری آئی ہے۔ یہ لوگ تعلیم بھی حاصل کرنے لگے ہیں ، اس کا تھوڑا بہت اثر ہوا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں اب ان کے خاندان کی بہو بیٹیاں شادیوں میں نہیں آتی ہیں۔ ایک زمانے میں شادی کے دن ا ن کی پوری بستی اس گاؤں میں پہنچ جاتی تھی جہاں شادی ہوتی تھی، یہاں تک کہ بہت چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان میں شامل ہوتے تھے۔ سب روٹی کا ایک ٹکڑا ٹکڑا جمع کر تے تھے۔ یہ کالم نگار تین سال پہلے ایک شادی میں شریک تھا۔ ممبئی سے بھی کچھ لوگ شادی میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ وہ کھانے کے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہیں نٹوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، پرتکلف دعوت تھی۔ انواع واقسام کے پکوان بنے ہوئے تھے۔ شامیانے کے پیچھے سے ایک نٹ کے خاندان نے کھانا مانگا۔ ٹیبل پربیٹھےممبئی کے مہمانوں کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا۔ اسے نٹوں کے گلے پڑنے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، کم سن تھا۔ اس نے مچھلی کی فرائی بوٹی نٹ کے خاندان کو دے دی۔ ایک بوٹی ملتے ہی نٹوں کے کئی خاندان آگئےاور سب گڑگڑا کر مانگنے لگے۔ اس کے بعد ہی ممبئی سےآئے ہوئے مہمانوں کو پتہ چلا کہ نٹوں کو ایک بوٹی دینے کا انجام کیا ہو تا ہے؟