• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شدید گرمی اور بارش کے روٹھ جانے سے اب تک مکئی اور اَرہر کی بوائی نہیں ہوئی ہے

Updated: July 10, 2024, 3:44 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

اگست کے مہینے کا قصہ ہے۔ تین سال پہلے کا ذکر ہے۔ گاؤں  کے کھیت کھلیان ہر یالی کی چاد ر اوڑ ھ چکے تھے، ہر طر ف شادابی تھی۔

In July and August after the rains, the village looks green like this. Photo: INN
بارش ہونے کے بعد جولائی اوراگست میں گاؤں میں کچھ اس طرح ہریالی کا منظرہوتا ہے۔ تصویر : آئی این این

اگست کے مہینے کا قصہ ہے۔ تین سال پہلے کا ذکر ہے۔ گاؤں  کے کھیت کھلیان ہر یالی کی چاد ر اوڑ ھ چکے تھے، ہر طر ف شادابی تھی۔ مکئی کے پودے لہلہارہے تھے۔ ارہر کے پودے بھی برسات کے موسم کی خنک ہواؤں کے ساتھ جھوم رہے تھے۔ دھان کی فصل بھی تیار ہورہی تھی۔ اس کے پودوں  کی شادابی بڑھتی جا رہی تھی۔ ان کا رنگ سیاہی مائل ہورہا تھا جسے دیکھ کر کسان پھولے نہیں  سما رہے تھے۔ اس وقت کھیت سے لے کر گاؤں تک خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ ہر کوئی مسرور تھا، ہنسی مذاق ہو رہا تھا، دیہاتی تہذیب وثقافت کے ترجمان گیت گائے جارہے تھے۔ فصلوں کو دیکھ کرگاؤں والے اپنے میں نہیں تھے۔ 
یہ ایک گاؤں کا منظر ہے۔ ان سب سے ہر گاؤں کی شناخت ہوتی ہے۔ کل تک ہر جگہ ایسا ہی ہوتاتھا، گاؤں  میں ایسے مناظر عام تھے۔ اگست میں  لوگ اپنی فصل دیکھ کر خوشی سے جھومتے تھے۔ گرمی کا ذرا بھی احساس نہیں  ہو تا تھا لیکن اس سال یہ سب خواب جیسا ہوگیا ہے، دیکھئے اس بار اگست میں  کیا منظر ہوتا ہے؟ کیونکہ ابھی تک خشکی کی صورتحال ہے۔ چاروں طرف دھول اڑ رہی ہے۔ اکثر کھیتوں کی جتائی بھی نہیں ہوئی ہے، بوائی تو دور کی بات ہے۔ جون کامہینہ گزر گیا ہے، پوروانچل کے ایک بڑے حصے میں  کھل کر بارش نہیں  ہورہی ہے جس سے کسان سب سے زیادہ پر یشان ہیں۔ مکئی اور ارہر کے ساتھ ساتھ دھان کی روپائی میں بھی تاخیر ہورہی ہے۔ گزشتہ کالموں میں اس کا ذکر کیا جاچکا ہے کہ امسال گاؤں دیہاتوں میں گرمی نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ اس سال گاؤں والوں نے اتنی گرمی جھیلی ہے کہ اسے لفظوں میں  بیان نہیں  کیا جاسکتا۔ پنکھے اور کولر کی ہوا بھی بے اثر ثابت ہورہی ہے۔ ہر وقت پسینہ بہتا رہتا ہے۔ گاؤں والوں کا بس یہی کہنا ہے کہ ایسی گرمی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ہر کو ئی بے چین ہے، نڈھال ہے۔ سب مل کر بارش کی دعائیں  کر رہےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بارش نہیں ہوگی تو دھان کا جو ہوگا ہوگا ہی ... مکئی اور ارہر کی بھی بوائی نہیں  ہوسکے گی یا بہت لیٹ ہو جائےگی۔ اسی طرح ہینڈ پمپ میں  پانی بھی نہیں آئے گا۔ ٹیوب ویل سےسنچائی میں بھی دشواری ہوگی۔ آج سے ۲۰؍ سال پہلے سال بھر اتنی بارش ہوجاتی تھی کہ پوروانچل میں کبھی ہینڈ پمپ دھوکہ نہیں  دیتا تھا۔ دھان کی روپائی کے وقت ٹیوب ویل بھی بھر پور پانی دیتا تھا۔ مئی اور جون کی گرمی میں  بھی ایک بار ہینڈ پمپ چھونے پر لوٹا ( اسٹیل کا برتن) بھر جاتاتھا۔ کہیں   پانی چھوڑنے کی شکایت نہیں ہوتی ہے۔ ادھر کوئی دس سال سے گرمی کےابتدائی حصے یعنی اپریل ہی میں  پانی چھوڑنے کی شکایت عام ہوگئی ہے، اس کیلئے گاؤں والوں نے پانی حاصل کرنے کے جدید طریقے اپنائے ہیں لیکن یہ طریقہ کب تک چلے گا؟ اس بارے میں  ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ 

یہ بھی پڑھئے: پرانے زمانے میں چارپائی کی محفلوں میں کسی کو سونے کا موقع نہیں ملتا تھا

اسی طرح پہلے بارش کی وجہ سے بوائی میں  بھی اتنی تاخیر نہیں  ہوتی تھی۔ اس سے پہلے تک جیسے تیسے جون کے مہینے میں  مکئی اور ارہر کی بوائی ہوجاتی تھی۔ کبھی کبھار بیچ میں  بارش رک جاتی تھی جس سے وقتی طور پر فصل متاثر ہوتی تھی، چند دن کے وقفے سے بارش ہوہی جاتی تھی۔ گاؤں والوں  کا کہنا ہے کہ پہلے بار ش اپنے وقت پر شروع ہوجاتی تھی، جب کبھی بیچ بیچ میں روٹھ جاتی تھی توایسی صورت میں سب اپنے اپنے مذ ہب کے اعتبار سے بارش کی دعائیں کرتے تھے۔ اس بار کا قصہ ہی الگ ہے کہ اکا دکا جگہوں پر اور کم کم ہی بارش ہو ئی ہے لیکن موسلادھار بارش ابھی تک ہوہی نہیں رہی ہےجس سےکسان بے حدمایوس ہیں۔ 
 ادھر اس بار بار ش کے روٹھنے سے گاؤں والوں کو بارش کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے اور اب اپنی ہر محفل میں اسی پر بحث کر رہے ہیں۔ اب گاؤں کی چوپالوں  کا  موضوع بحث یہی ہے۔ پرانے لوگ تمام ریکارڈ کھنگالنے کے بعد یہی کہہ رہے ہیں  کہ ایسی گرمی کبھی نہیں پڑی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ خشک سالی تک کی نوبت آئی لیکن کبھی گرمی نے اتنا غضب نہیں  ڈھایا۔ منڈئی والے چائے کی ہوٹلوں  اور دیگر محفلوں میں گاؤں والے اپنے اطراف میں  کہاں  کہاں بار ش ہوئی ہے؟اس کی نشاند ہی کرتے ہیں  ، وہ  بتاتےہیں کہ آج فلاں فلاں گاؤں میں بارش ہوئی ہے۔ صرف اپنے گاؤں  اور اس کے آس پاس کے دوچار گاؤں  میں  بار ش نہیں  ہوئی ہے۔ دیکھئے اپنے یہاں کھل کر کب بارش ہوتی ہے؟ 
اس پر دو چار لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ گناہ اتنے ہوگئے ہیں، بارش کیسے ہوگی ؟ اس کی دوچار لوگ تائید بھی کرتے ہیں۔ کچھ گاؤں  والے اسی بہانے گاؤں والوں کوماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں بتا دیتے ہیں اور تسلی دینے کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ یہ صرف اپنے گاؤں کا مسئلہ نہیں ہے۔ پوری دنیا پر یشان ہے، کہیں  بارش ہوتی ہے تو اتنی ہوتی ہے کہ اسے طوفانی بارش قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح گرمی بھی بے انتہا پڑ رہی ہے، سب پریشان ہیں۔ موسم کی مارسب جھیل رہے ہیں۔ اس کا کوئی حل ابھی تک نہیں  نکلا۔ پرانے لوگ بتاتےہیں کہ پہلے زمانے میں ضعیف الاعتقادی بہت تھی۔ بارش نہیں ہوتی تھی تو گاؤں والے کچھ بھی کرتے تھے، ٹونے ٹوٹکے زیادہ کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہوتا ہے، ان دنوں لوگ صرف بارش کی دعائیں کررہے ہیں۔   

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK