• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اور پھر جو گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے... وہ اندھیرا چھانے تک جاری رہتا ہے

Updated: October 14, 2024, 6:18 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

بارش کا موسم تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے میدانوں سے لے کر کھیتوں کے مینڈوں تک جیسے سبز چادر بچھ گئی ہے۔

The goat herders in the village have to take care that the cattle do not stray into the fields and destroy the crops. Photo: INN
گاؤں میں بکریاں چرانے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ مویشی کہیں کھیتوں میں نہ اُترجائیں اور فصل نہ بربادکردیں۔ تصویر : آئی این این

بارش کا موسم تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے میدانوں سے لے کر کھیتوں کے مینڈوں تک جیسے سبز چادر بچھ گئی ہے۔ اب گھسیارن اور گھسیارے سروں پر بڑی سی کھانچی رکھے، جو ارہر کے رہٹھا (پیڑ ) سےتیار ہوتی ہےاور ہاتھ میں ہنسیا لئے کھیتوں کے کنارےاور میدانوں میں گھاس کاٹتے نظر آتے ہیں۔ گروپ کی شکل میں گھسیارن اپنے مویشیوں کیلئے ہرے چارے کا انتظام کرنے گھر سے کافی دور نکل جاتی ہیں۔ جن کے پاس قابل کاشت زرعی زمین ہے وہ اپنے لئے اناج اور اپنے مویشیوں کے لئے سبز چارہ جیسے سردیوں میں برسیم، گرمیوں میں چری، برسات میں باجرہ یا سانوا بوتے ہیں اور پھر ان کی کٹائی کرکے بھوسا اور چونی، چوکر ملا کر کھلاتےہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جن کے پاس زرعی زمین کم ہے، وہ صرف غلہ اگاتے ہیں اور گھسیاری کرکے جانوروں کے لئے سبزچارے کا انتظام کرتے ہیں۔ 
  دوپہر تک گھر کے تمام کاموں سے فارغ ہو کر گاؤں کی بہوئیں، بیٹیاں اور کچھ بزرگ خواتین ہاتھ میں  ہنسیا، کھانچی اور گنے کی نوکیلی پتیوں سے ہاتھوں کو محفوظ رکھنے کیلئے فُل آستین کی شرٹ پہنے ہوئے ہاتھ میں رسی لئے گروپ کے ساتھ گھاس چھیلنے نکل پڑتی ہیں۔ ساتھ میں رسی اس لئے رکھتی ہیں کہ گھاس سے جب ان کی کھانچی (باسکٹ) بھر جائے تو باقی گھاس کو اس رسی سے باندھ کرگھر لایا جائے۔ گنے کے کھیت کے مینڈ پر اُگی گھاس کو کاٹ کاٹ کر جمع کرتی ہیں۔ اس کام کےدوران جتنی زور کے ساتھ ہنسیا چلتا ہے اتنی ہی تیز ان کی زبان بھی چلتی ہے۔ اس دوران گائوں کے کتنے ہی مسئلے زیر بحث آتے ہیں، اس کا تفصیلی ذکر یہاں  ممکن نہیں۔ جب گھاس کاٹتے کاٹتے وہ تھک جاتی ہیں تو تھوڑی دیر مینڈ پر بیٹھ کر آرام کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:قطار میں درخت ایسے لگ رہے تھے جیسے صف باندھے خدا کی عبادت میں مصروف ہوں

اس دوران وہ گھر سے ساتھ لائے ہوئے پتھر سے ہنسیا کی دھار تیز کرنے کیلئے اس پر رگڑتی ہیں۔ پھر وہ تازہ دم ہوکر تیز ہنسیا کے ساتھ ایک بار پھر اپنا کام شروع کرتی ہیں ۔ اس باراپنے مویشیوں کو دونوں وقت کھلانے بھر کی گھاس کاٹ کر ہی باہر نکلتی ہیں۔ گھاس سے کھانچی (بڑی باسکٹ) بھر جانے کے بعد گھاس کے بقیہ حصے کو بڑے ہی سلیقے سے رسی سے باندھتی ہیں۔ شرٹ کو کئی پرت میں تہہ کرتی ہیں جب وہ موٹا ہو جا تا ہے تو اس کو سر پر رکھ لیتی ہیں تاکہ سر پر رکھی کھانچی سے کوئی تکلیف نہ ہو۔ کام مکمل کرنے کے بعد گھسیارن کا یہ گروپ آپس میں باتیں کرتےہنستے گپ شپ کرتے گھر کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی گھر سے کسی کا شوہر یا کسی کا بیٹا یا بیٹی ان کی مدد کیلئے آجاتا ہے اور وہ اپنے سر پر رکھ کر گھاس لے جاتا ہے۔ موسم باراں کے اختتام کے ساتھ ہی کھیتوں کے آس پاس اور میدانوں میں اُگی ہوئی گھاس بڑی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اسے ہنسیا سے کاٹا جاتا ہے۔ اسی طرح گرمی کے موسم میں گھاس کم ہو جاتی ہے۔ تیز دھوپ کے سبب سوکھ بھی جاتی ہے اور جہاں کہیں گھاس ہوتی بھی ہے وہ کافی چھوٹی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ کاٹی نہیں جاسکتی ہے تو ان چھوٹی گھاسوں کو کھرپی سے چھیلا جاتا ہے۔ رسی سے باندھنے یا کھانچی میں رکھنے کے بجائےاسے بوری میں بھر کر لے جایا جاتاہے۔ کھرپی سے چھیلی گئی گھاس میں مٹی بھی رہتی ہے اسے گھر لاکر ’گھس پٹنا‘ سے پیٹا جاتا ہے اور جس سےاس کی مٹی نکل جاتی ہے۔ پھر وہ گھاس مویشیوں کے چارے کے کام آتی ہے۔ 
 جب کھیتوں میں دھان تیار ہو جاتا ہے تو اس کے مالک سے اجازت لے کر گھاس کی ضرورت کے مطابق دھان کاٹ کر کھیت کے مالک کے گھر لایا جاتا ہے۔ یہاں اسے رَگڑکر دھان کو ڈنٹھل سے الگ کیا جاتا ہے، اس کے بعد بھی جو دھان اس میں لگا رہ جاتا ہے اسے ڈنڈے سے پیٹ کر نکال لیا جاتا ہے اور دھان کھیت کے مالک کو دے دیا جاتا ہے اور اس کے ڈنٹھل کو مویشیوں کے چارے کیلئے گھسیارن اپنے گھر لے جاتی ہیں ۔ ان ہرے ڈنٹھل والے تیار دھان کے کاٹنے کو یوپی کے اودھ کے حصے میں ’شہادہ‘ کہتے ہیں۔ 
 ایک قصہ جو بزرگوں سے سنتے آئے ہیں ...آپ بھی سن لیں ... انگریزوں کے زمانے کی بات ہے۔ ایک صاحب فوج سے سبکدوش ہوکر گائوں آئے تھے۔ کچھ دنوں بعد اُسی گائوں میں ان کے فوجی افسر کا دورہ ہوا۔ وہ پتہ پوچھتے ہوئے ان کے گھر پہنچا۔ اتفاق سے سبکدوش فوجی گھر پر موجود نہیں تھے۔ وہ کھیت میں گھوڑے کیلئے گھاس چھیلنے گئے تھے۔ افسر نے ان کو بلوایا۔ گھر پہنچنے پر اُن سے پنشن کے کاغذات منگوائے۔ انہوں نے خوشی خوشی کاغذات لاکر افسر کے سامنے رکھا، انہیں لگا کہ شاید رقم میں اضافہ ہوگا، لیکن انگریز افسر نے ان کی پنشن یہ کہتے ہوئے بند کر دی کہ آپ کو پنشن کی شکل میں ایک خطیر رقم گھاس چھیلنے کیلئے نہیں  دی جارہی ہے بلکہ گھر پر آرام سے زندگی گزارنے کیلئے دی گئی تھی۔ 
 گھسیارنیں اپنے کام میں مست اور خوش مزاج ہوتی ہیں۔ لوگوں کو ان کے بارے میں یہ کہتے سنا گیا ہے...دھرتی کی کھلکھلاہٹ... رنگ برنگی تتلیوں سی...سبزہ زاروں پر اُڑتی پھرتی ...مویشیوں کی پالہنار... پیاری نیاری گھسیارنیں ...شام کو گھر جاتے وقت راستے میں کچھ خواتین ان کے انتظار میں رہتی ہیں۔ جہاں کسی نے انہیں آواز دی، بس وہیں پر گھاس کا گٹھر پھینکا، نل پر ہاتھ پیر دُھلا، ایک دوسرے کی خیریت معلوم کی اور پھر جو گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے... وہ اندھیرا چھانے تک جاری رہتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK