یہ چھتیس گڑھ کا ایک گائوں ہے۔ یہاں کھیتوں میں لہلہا رہی دھان کی فصل اور جوتے ہوئے کھیت کی مٹی سے سوندھی سوندھی خوشبو آرہی ہے۔
EPAPER
Updated: September 30, 2024, 3:08 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
یہ چھتیس گڑھ کا ایک گائوں ہے۔ یہاں کھیتوں میں لہلہا رہی دھان کی فصل اور جوتے ہوئے کھیت کی مٹی سے سوندھی سوندھی خوشبو آرہی ہے۔
یہ چھتیس گڑھ کا ایک گائوں ہے۔ یہاں کھیتوں میں لہلہا رہی دھان کی فصل اور جوتے ہوئے کھیت کی مٹی سے سوندھی سوندھی خوشبو آرہی ہے۔ پیپل کی پتیوں پر، آم کی چھال پراور امرود کی ٹہنیوں کے درمیان جالوں میں اوس(شبنم) کے قطرے جمنے لگے ہیں۔ یہاں رات کوہونے والی بارش اور صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سردی کا احساس دلارہی ہے۔ کھیتوں کی میڑ پر اُگنے والی گھاس بارش کے پانی سے دُھل کر چمک رہی ہے۔ دھان کی بالیاں ایسے نظر آرہی ہیں جیسے کسی دوشیزہ کی چوٹی میں موتیاں جڑی ہوں۔
کھیتوں کی طرف جانے والا کچا راستہ، اس پر چل کر ایک الگ قسم کا سکون محسوس ہو رہا تھا اور دل میں یہ خیال آرہا تھا کہ بس اس راستے پررُکے بغیر چلتے رہیں۔ کچے راستے کے دونوں جانب اُگی بڑی بڑی جھاڑیاں جس کے درمیان مزدور اور کسانوں کے چلنے سے ایک صاف راستہ بن گیا تھا۔ آگے بڑھ کر دیکھا... خالی پڑے کھیتوں میں اُگی ہری ہری گھاس، اُسے چرنے والی بکریوں کے ریوڑ اور انہیں چرانے والے بچے سڑک کے کنارے کھیلنے میں مست تھے کہ اسی دوران کسی نے آواز دی اور ایک بچہ کھیل چھوڑ کربکری کے پیچھے دوڑ پڑتا ہے۔ دراصل کھیتوں کی گھاس چرتے چرتے شاید اس بکری کا پیٹ بھر گیا تھا، اسلئے منھ کا ذائقہ بدلنے کیلئے وہ دھان کی کچی بالیوں کو اپنا نوالہ بنا نے لگی تھی۔ بچہ تیزی سے بکری کے پاس پہنچتا ہے اور ہاتھ میں لئے چھڑی کو زور سے کھینچا لیکن بکری کے جسم پر بہت دھیرے سےمارا بلکہ ہلکا سا بس چھوا دیا اور وہ اچھل کر واپس اپنی جگہ پر آگئی۔ مویشی پالنے والے کسان اور ان کے بچے اپنے جانوروں سے گھر کے ایک فرد کی طرح محبت کرتے ہیں۔ لاکھ غصہ آئے لیکن وہ اسے پی جاتے ہیں، اپنے جانوروں پر غصہ نہیں اُتارتے۔
دھان کے کھیت کے پاس خالی پڑے ایک بڑے حصے میں گھاس اُگی تھی جسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے زمین پر کوئی سبز چادر بچھی ہو۔ وہیں پاس میں ایک معمر آدمی مویشی چرا رہے تھے۔ مویشی پرور ی کرنے والےکسان کہتے ہیں کہ ایسے کھلے میدانوں کی گھاس دودھ دینے والے جانوروں کیلئے کسی دوا سے کم نہیں ہوتی کیونکہ ان گھاسوں میں کچھ گھاسیں ایسی ہوتی ہیں جو مویشیوں کیلئے غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں۔ انہیں چرنے سے مویشیوں میں دودھ دینے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ گھر پر باندھ کر چاہے جتنا بھوسا، کھلی، برسیم اور چری انہیں کھلا دیں لیکن یوں میدان میں چرنے کا جو فائدہ ہے وہ گھر پر باندھ کر کھلانے سے کبھی نہیں مل سکتا ہے۔ مویشی چررہےتھے اور وہ بزرگ تکیہ کے طور پر سر کے نیچے رکھے چپل اور گمچھا بچھائے پیر کے اوپر پیر رکھے بارش سے بھیگی ٹھنڈی زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ پاس میں مویشیوں کو ہانکنے والا ڈنڈا رکھا تھا اور اونچی آواز میں وہ کوئی چھتیس گڑھی گیت گا رہے تھے۔ اس دوران چلنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے موسم کو خوشگوار بنا دیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:اندھیرے میں اگر کتا بھی دوڑاتا تو لوگ بھیڑیا سمجھ کر بھاگتے تھے
دھان کے کھیت میں کام کرنے والے روی کو جب معلوم ہوا کہ راقم کا تعلق یوپی سے ہے تو وہ کہنے لگے کہ آپ کے یہاں تو دھان کی روپائی ہوتی ہےلیکن ہمارے یہاں اسے بویا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھان کے کھیت کی جُتائی جتنی گہری کی جاتی ہے، بیج بونے پر پیداوار بھی اتنی اچھی ہوتی ہے۔ دھان کی کھیتی کا یہ طریقہ ہمارے بزرگوں کے زمانے سے چلا رآرہا ہے جو آج کے تکنیکی دور میں بھی کامیاب ہے۔ اس سال بارش اچھی ہوئی ہے تو دھان کی فصل بھی گزشتہ سال کے مقابلے کافی بہتر ہے لیکن رواں سال فصل کو پتنگوں ، کیڑے مکوڑوں نے نقصان پہنچا یا ہے۔ کچھ سال قبل یہاں دھان کے کھیتوں پر ٹڈیوں کا حملہ ہوا تھا، دیکھتے دیکھتے ٹڈیوں کے جھنڈ نےفصلوں کو چٹ کر لیا تھا۔ اُس سال تیار فصل کا بڑا حصہ برباد ہو گیا تھا۔ رواں سال دُرگ ضلع کےاس گائوں کا عام راستہ بارش کی نذر ہو گیا ہے۔ چنانچہ کسان کھیت تک نہیں پہنچ پا رہےہیں۔ فصلوں کی دیکھ بھال نہ ہونے سے بڑے نقصان کا خطرہ ہے۔ کسان اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ وقت پر راستہ نہیں بنا توکھیتوں میں ٹریکٹر اور ہارویسٹر کا پہنچنا بھی مشکل ہو جائےگا۔
چند قدموں کی دوری پر نظر آنے والا تالاب بارش کے پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں رنگ برنگے پھول کھلے تھے۔ تالاب کے اوپر بگلے اور ہنس اپنی خوراک کیلئے منڈلا رہے تھے۔ پھولوں کے درمیان اٹکھیلیاں کرنے والے بگلے بیحد خوبصورت نظر آرہےتھے۔
کھیت پیچھے چھوٹا اب جنگل کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا۔ سنسان جنگل میں سناٹے کو پرندوں کی چہچہاہٹ تو ڑ رہی تھی۔ تاحد نگاہ ایک قطار میں کھڑے درخت سبز مخملی چُنری اوڑھے کچھ ایسے لگ رہے تھے جیسے صف باندھے خدا کی عبادت میں مصروف ہوں۔ یہ منظر دل کو چھو لینے والا تھا۔ کچھ دیر ان درختوں کے سائے اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائوں کے درمیان گزارنے کے بعد جنگل سے نکل کر ایک بار پھر شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔