گاؤں میں ایک جگہ چھت کے نیچے لوگ جمع تھے، دوپہر کا وقت تھا، قدرتی ہوا بالکل نہیں چل رہی تھی۔ پنکھے کی ہوا چل رہی تھی، پھر بھی سکون نہیں تھا، بہت زیادہ گرمی تھی، کچھ پسینے سے تر بتر ہوگئےتھے۔ کچھ نہانے کی تیاری کررہے تھے۔
EPAPER
Updated: June 23, 2024, 1:22 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
گاؤں میں ایک جگہ چھت کے نیچے لوگ جمع تھے، دوپہر کا وقت تھا، قدرتی ہوا بالکل نہیں چل رہی تھی۔ پنکھے کی ہوا چل رہی تھی، پھر بھی سکون نہیں تھا، بہت زیادہ گرمی تھی، کچھ پسینے سے تر بتر ہوگئےتھے۔ کچھ نہانے کی تیاری کررہے تھے۔
گاؤں میں ایک جگہ چھت کے نیچے لوگ جمع تھے، دوپہر کا وقت تھا، قدرتی ہوا بالکل نہیں چل رہی تھی۔ پنکھے کی ہوا چل رہی تھی، پھر بھی سکون نہیں تھا، بہت زیادہ گرمی تھی، کچھ پسینے سے تر بتر ہوگئےتھے۔ کچھ نہانے کی تیاری کررہے تھے۔ وہ بھی ہینڈ پمپ کے پانی سے، کیونکہ ہینڈ پمپ کا پانی ٹھنڈا ہوتا ہے، اسی سے گرمی کا اثر کچھ حد تک کم ہوتا ہے۔ گرمی سے بے حال گاؤں والوں کی اس محفل میں گرمی ہی زیر بحث تھی۔ لوگ اس محفل میں بیٹھ کر پرانے دور کی گرمیوں کو یاد کرنے لگے، جب آنگن کی کچی زمین سے سکون ملتا تھا، کچے گھر قدرتی طور پر ٹھنڈے رہتے تھے۔ اس وقت گرمی کا کم کم احساس ہوتا تھا۔
ایک نوجوان نے اپنے بچپن کا قصہ چھیڑ دیا۔ اس کا کہنا تھا، ’’ پہلے اتنی گرمی نہیں لگتی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت آنگن میں نیم کے درخت ہوتے تھے۔ ایک حصے میں مہندی ہوتی تھی، امرود ہوتا تھا، لیمو کا درخت ہوتا تھا، جامن کا بھی ہوتاتھا۔ بیر کا بھی درخت لہلہاتا تھا اور بھی پیڑ پودے ہوتے تھے جو آگ برساتے سورج کے سامنے ڈھال بن جاتے تھے، اس کی گرمی کو زمین میں اُترنے ہی نہیں دیتے تھے۔ خود دھوپ جھیلتے تھے اور اپنے نیچے بیٹھنے والوں کو سکون دیتے تھے۔ گرم لہروں سے بچاتے تھے۔ اس طرح گرمی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ اس زمانے میں بھی برسات میں ’دیر سویر‘ ہوجاتی تھی مگر لوگ اتنے پریشان نہیں ہوتے تھے جتنے آج ہو جاتے ہیں، آج تو بجلی بھی آتی ہے، انورٹر بھی ہے اور بھی دوسرے ذرائع ہیں جن کی مدد سے پنکھا اور کولر چلتا ہے، اس کے باوجود حبس ہوتا ہے۔ پنکھے کے نیچے بھی گرمی سے راحت نہیں ملتی ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: ’جاتے‘ کازمانہ ختم ہوگیا ہے لیکن ارہر کی وجہ سے ’چکی‘ ابھی باقی ہے
اس نوجوان کا مزید کہناتھا، ’’ اب کچے گھر ختم ہو گئے ہیں، آنگن کی زمین بھی پکی ہوگئی ہے۔ پیڑ پودے تو آنگن سے کیا آبادی سے بھی غائب ہو گئے ہیں ؟ ایسے میں اسی طرح کی گرمی ہو گی۔ اسی طرح جینا دوبھر ہوجائے گا۔ ابھی غنیمت یہ ہے کہ آبادی کے قریب کھیت ہیں، جب یہ کھیت ختم ہو جائیں گے، ان کھیتوں میں گھر بن جائیں گے تو اور گرمی بڑھے گی۔ شہر کی طرح گاؤں میں بھی گھنی آبادی ہوجائے گی۔ اس وقت کی گرمی سے بچنے کیلئے ہمیں درخت لگانا چاہئے۔ درخت بڑی حد تک گرمی سے بچائیں گے۔ ‘‘
ایک معمر شخص نے نوجوان کی تائید کی اور وہ اپنے دور کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے، ’’ درختوں کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا، اس کا اعتراف ہر شخص کررہا ہے، پوری دنیا میں درخت لگانے کی مہم چل رہی ہے لیکن گاؤں والے ہی اس سے بے خبر ہوگئے ہیں، درخت نہیں لگا رہے ہیں اوراس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ ہمارے دور میں گرمی سے بچنے کیلئے اور بھی ترکیب اپنائی جاتی تھی۔ لوگ شام تین بجے ہی سے اپنے دروازے کے باہر پانی کا چھڑکاؤ کرتے تھے، آنگن میں بھی پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تھا، ریٹھے(ارہر کے پودے) سے اس کی صفائی کی جاتی تھی، جھاڑو دیا جاتا تھا۔ ایسے ماحول میں جو چارپائیاں بچھائی جاتی تھیں، ان پر گاؤں والے بیٹھتے تھے، یہاں گرمی کا گزر تک نہیں ہوتا تھا، ہوائیں چلتی رہتی تھیں۔ یہ محفل عشاء کی نماز کے بعد بھی جمی رہتی تھی لیکن گاؤں والے زیادہ دیر نہیں جاگتے تھے۔ کچھ یہیں مچھر دانی لگا کر سوجاتے تھے اور پاس پڑوس والے اپنے ٹھکانوں میں سونے کیلئے چلے جاتے تھے۔ ‘‘
اس دور میں گرمی سے بچنے کیلئے اکا دکا گاؤں والے یہ ترکیب استعمال کرتے ہیں لیکن اب اس طرح کے فرحت بخش ہوا کے جھونکے نہیں چلتے ہیں۔ سائنسداں اسے ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن گاؤں کے بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ گاؤں کی کچی زمین اور کچی دیواریں ختم ہونے لگیں تو یہ ہوائیں بھی بے اثر ہوگئیں۔ آنگن کا وجود ختم ہونے لگا ہے، نتیجتاًجو ہوا چلتی ہے، اس تنگ جگہ میں آکر اس کا بھی دم گھٹنے لگتا ہے اور وہ فرحت بخشنے میں ناکام ہوجاتی ہے۔
ایک زمانے میں گرمیوں کی دوپہر میں درختوں کے نیچے چارپائی بچھا کر بیٹھنے اور محفل سجانے کا رواج تھا۔ اس دور میں حقہ بڑے بوڑھوں کی محفل کا لازمی حصہ ہوتاتھا۔ حقے کی گڑ گڑ کے ساتھ بیلوں، مویشیوں اور کھیتی کسانی کے موضوعات چھڑ تے تھے۔ اس محفل میں آس پاس کے دو چار گاؤں کی خبریں پیش کی جاتی تھیں اور ان پر تبصرے کئے جاتے تھے۔ باتوں کی گرمی کے سامنے آسمان سے بر سنے والی گرمی والی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی تھی، گھنٹوں یہ محفل سجی رہتی تھی۔ گڑ اور دہی کے شربت کا دور بھی چلتا تھا۔ یہ محفل سجانے میں نوجوان اور بچے پیش پیش رہتے تھے۔ ان کے درمیان دوارہ( دروازہ) چمکانے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ یعنی ہر گھر کے بچے چاہتے تھے کہ ان کا دروازہ سب زیادہ صاف رہے۔ اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ صاف کرنےمیں نوجوان اور بچے ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کی کو شش کرتے تھے۔ اس دور کی گرمی میں پرانے لوگ درختوں کو سب سے زیادہ یاد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جھلسادینےوالی درخت کاٹنے اور انہیں نہ لگانے کی سزا ہے۔