پکےبرآمدے کے ایک حصے میں ایک کپڑے پر چکی رکھی ہوئی تھی۔ اس کے کنارے کنارے ارہر کے بیج تھے۔ یہ ایک گھر کے برآمدے کا منظر ہے۔
EPAPER
Updated: June 16, 2024, 12:59 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
پکےبرآمدے کے ایک حصے میں ایک کپڑے پر چکی رکھی ہوئی تھی۔ اس کے کنارے کنارے ارہر کے بیج تھے۔ یہ ایک گھر کے برآمدے کا منظر ہے۔
پکےبرآمدے کے ایک حصے میں ایک کپڑے پر چکی رکھی ہوئی تھی۔ اس کے کنارے کنارے ارہر کے بیج تھے۔ یہ ایک گھر کے برآمدے کا منظر ہے۔ اب ایسے مناظرشاذو نا در ہی دکھائی دیتےہیں۔ دراصل چکی اور جاتا کا دور ختم ہوچکا ہے لیکن ارہر کی وجہ سے آج بھی چکی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے اس کالم نگار نے ارہر کے مختلف مراحل کا ذکر کیا تھا۔ اُس کالم میں ارہر کے ڈھونے تک کے سفر پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اِس کالم میں ارہر کا بیج دال میں کیسے بدلتا ہے؟ اس پر گفتگو کی جائے گی۔
سب سے پہلے ارہر کے پودے سے بیج الگ کیا جاتا ہے۔ اس کام کیلئے ارہر پودے کو کسی پٹرے (لکڑی کے تخت) پر پیٹا جاتا ہے، جب ارہر پیٹی جاتی ہے تو مخصوص آواز نکلتی ہے، جسے سن کر لوگ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ فلاں کے گھر ارہر پیٹی جارہی ہے۔ یہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد ارہر کے بیج کو چھموٹے (کچرے) سے الگ کیا جاتا ہے۔ بیج الگ ہونے کے بعد اسے سکھایا جاتا ہے، پھر پانی میں بھگویا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے چکی کے پاٹوں کے بیچ میں ڈال کر دال نکالی جاتی ہے۔ اس دورمیں ایک بڑی تعداد مل سے دال نکالتی ہے لیکن جن گاؤں والوں نے دال نکالنے کے روایتی طریقے کو چھوڑا نہیں ہے، ان سے بہت سی چیزیں چھوٹ جاتی ہیں۔ جیسے پہلے ارہر کی صفائی کیلئے اسے ’رورا‘ جاتا تھا۔ اس عمل میں ایک سوپ میں بیج رکھ کر دھیرے دھیرے خراب ارہر کا بیج نیچے گرایا جاتا ہے جبکہ اچھا بیج سوپ ہی میں رہ جاتا ہے۔ اب بھی بڑی بوڑھیاں اس کام میں ماہر ہیں لیکن نئی نسل کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ارہر رورنے کے بارے میں کچھ جانتی ہی نہیں۔ بڑی بوڑھیاں اس کا شکوہ بھی کرتی ہیں اور نئی نسل کو ارہر رورنا سکھانا چاہتی ہیں اوریہ فن ان تک منتقل کرنا چاہتی۔ وہ کہتی ہے، ’’ بہنی لوگن سکھ لجا، ایکے بعد کوایکل نہ سکھائی۔ ‘‘(بیٹیو! سیکھ لو، اس کے بعد کوئی یہ سب نہیں سکھائےگا۔ )
ان کی بار بار التجا پر جب نئی نسل اس میں دلچسپی نہیں لیتی تو وہ بار بار افسو س کا اظہارکرتی ہیں اور کہتی ہیں، ’’لاگے تھے، ہم لوگ کے بعد کوای کل جھنجھٹ کونہ پالی۔ ‘‘( لگتا ہےکہ ہمارے بعد کوئی ان بکھیڑوں میں نہیں پڑے گا۔ )
یہ بھی پڑھئے: گاؤں والے جیپ اور کمانڈر ہی سے ہاٹ بازار اور کورٹ کچہری جاتے تھے
یہ کہہ کروہ بہت غور سے سوپ میں دیکھنے لگتی ہیں اور ایک ایک دانے کو انتہائی نفاست کے ساتھ رورتی ہیں۔ پہلے وہ گھر میں بیک وقت کئی لڑکیوں، بچیوں اوربڑی بوڑھیوں کے ساتھ یہ کام کرتی تھیں۔ اس دوران سب ہنستی بولتی تھیں، ایک دوسروں کو چھیڑتی تھیں۔ زیادہ سے زیادہ ارہر رورنے کا مقابلہ کرتی تھیں، بر آمدے اور دالان میں صبح شام تک لگن لگی رہتی تھیں۔ ارہر کے گردو غبار اڑتے تھے۔ اس وقت بڑی بوڑھیوں کے ساتھ لڑکیاں بھی ار ہر رورتی تھیں۔ وقفے وقفے سے ہاتھ روک کر گڑ کی بھیلی کھا کر پانی بھی پیتی تھیں۔ اس طرح کچھ پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ کام آسانی سے ہوجاتا تھا۔ اس دور میں جو بڑی بوڑھیاں ہیں، وہ یہ کام اکیلے اکیلے کرتی ہیں۔ وہ پرانے دور کو یاد کرکے جذباتی ہوجاتی ہیں اور پھر خاموشی سے اپنے کام میں مگن ہوجاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں یہ ہنر اپنے بعد کی نسل میں منتقل کرنے کی شدید خواہش ہے مگر ان کی یہ خواہش ادھوری رہ جائے گی، اس کاملال ان کے چہرے پر صاف نظر آتا ہے۔
پوروانچل میں ارہر کو دال بنانے میں سب اہم کردار خاتون خانہ ہی کا ہوتا ہے۔ مرد ارہر ڈھونے تک ہی ساتھ رہتے ہیں۔ اس کے بعد سارے کام خواتین ہی کرتی ہیں۔ بتاتے ہیں کہ پہلے ارہر سے دال بنانے کا مرحلہ طویل ہوجاتا تھا۔ بعض دفعہ ارہر کٹنے کے ایک ماہ کے بعد بھی دال نکالنے کا مرحلہ طے نہیں ہوتا تھا۔ ارہر پیٹنے اور چھموٹے سے اسے الگ کرنے اوررورنے کے بعد اسے کورا بھی جاتا تھا، یعنی ارہر کے بیج کو ریت میں بھو نا جاتا تھا۔ ایک لڑکی بتاتی ہے کہ جب ہم چھوٹے تھے تو ہماری امی ارہر کے موسم میں بڑا ساکڑھاؤ (کڑھائی) نکالتی تھیں، اینٹ جوڑ کر چولہا بناتی تھیں۔ پھر اسی پر ار ہر کورتی تھیں۔
کورنے سے ارہر سوندھی ہوجاتی تھی۔ اس کا چھلکا جلد ی چھوٹتا ہے اور آسانی سے دال نکل آتی تھی۔ اب یہ سب ختم ہوگیا ہے، صرف چکی باقی رہ گئی ہے۔ اسی میں پسائی ہوتی ہے۔ پھر اسے ’اوکھلی‘ میں ڈالا جاتا ہے، اس کی پہروے ( موسل) سے اچھی طرح کٹائی ہوتی ہے اور اس کے بعد پھر صفائی ہوتی ہے۔ اس طرح اتنےمراحل سے گزرنے کے بعد دال نکلتی ہے۔
بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں چکی کے ساتھ جاتے کا بھی رواج تھا۔ اسی کی مدد سے روٹی بنانے کیلئے آٹا تیا رکیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں گھرگھر میں جاتے ہوتے تھے، اسی پر روزانہ گیہوں پیسا جاتا تھا۔ جاتے کا آٹا آج کے آٹے کی طرح باریک نہیں ہوتا تھا۔ گھر کی بڑی بوڑھیاں رات کے آخری پہر میں بیدار ہوجاتی تھیں اور جاتے پر گیہوں پیستی تھیں، اس طرح اس دن کی روٹی پکانے کا انتظام ہوتا تھا۔ جاتے کا آٹا تغذیہ سے بھرپور ہوتا تھا، اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوتی تھی، خالص ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آٹا کھانے والے تندرست رہتے تھے۔ شاذونادر ہی بیمار پڑتے تھے۔