ہمارے یہاں شادی اور گھر کی کسی دوسری تقریب میں نائی (حجام) کا رول بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی یہ اہمیت اب کم ہوتی جارہی ہے۔
EPAPER
Updated: July 21, 2024, 5:38 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
ہمارے یہاں شادی اور گھر کی کسی دوسری تقریب میں نائی (حجام) کا رول بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی یہ اہمیت اب کم ہوتی جارہی ہے۔
ہمارے یہاں شادی اور گھر کی کسی دوسری تقریب میں نائی (حجام) کا رول بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی یہ اہمیت اب کم ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ایام میں ان کے بغیر شادی کی تکمیل کا تصور ممکن نہیں تھا۔ گائوں میں کاشتکار کے نائی، دھوبی، بڑھئی(لوہار)، درزی، کمہار اور برئی(پان فروخت کرنے والے) طے ہوا کرتے تھے۔ اب بھی ہیں لیکن اب ان کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے کیونکہ نئی نسل اب روزگار کےسلسلے میں پردیسوں میں بس گئی ہے۔ نائی اب گائوں میں گھوم گھوم کر نہیں بلکہ ’ہیئر کٹنگ سیلون‘ میں بال کاٹتے ہیں۔ اسی طرح اب ہر ہفتے دھوبی آپ کے کپڑے لینے نہیں آتا بلکہ اس نے بھی اپنی دکان کھول رکھی ہے۔ اسی طرح بڑھئی (لوہار)، کمہار اور برئی اب گائوں کا چکر کم ہی لگاتے ہیں ، یا یوں کہیں کہ چکر لگانے والے جو باقی رہ گئے ہیں ، وہ آخری نسل ہے۔ پہلے بڑھئی ہفتے میں نہیں تو مہینے میں ایک بار گائوں کا چکر ضرور لگاتے تھے اور گھروں میں ٹوٹی ہوئی چارپائی، تخت دیگر اشیاء کی مرمت کرتے تھے۔ جب گائوں میں کوئی نیا مکان تعمیر ہوتا، اس میں لکڑی کا سارا کام وہ بہت ہی معمولی خرچ پر کردیتے تھے۔
بڑھئی کا ذکر ہوا تو ایک دم سے میری نظروں کےسامنے رام اوتار کاکا کا چہرا گھوم گیا۔ لمبی داڑھی، ماتھے پر تلک صاف ستھرا لباس پہنے وہ اپنے کام میں مست رہتے تھے۔ پوجا کئے بغیر وہ کام شروع نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی لوگ صبح کام لے کر ان کے پاس جلدی پہنچ جاتے تھے تو بس یہی سوال کرتے تھے اوتار کاکا پوجا پاٹھ سےفارغ ہوئے یا نہیں ، لگتا آج انتظار کرنا پڑے گا... آج ذرا پوجا جلدی مکمل کر لیجئے۔ وہ کوئی جواب نہیں دیتے، خاموشی سے سنتے اوردھیان سے پوجا کے بعد ہی کام شروع کرتےتھے۔ ان کا کام صاف ستھرا اور اچھا ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی شادیوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے، نٹ اَب بھی مانگنے آتے ہیں
ہفتے مہینے میں جب وہ گائوں کا چکر لگاتے تو ہم بچے لکڑی لئے ان کے پیچھے پیچھے لگے رہتے کاکا ذرا ایک بیٹ بنا دیجئے، کرکٹ کھیلنا ہے...وہ چپ رہتے، بار بار کہنے پر وہ جھنجھلا کر بولتے تمہارا بیٹ زیادہ ضروری ہے یا نمبر دار کی چارپائی، ہفتے بھر سےوہ زمین پر سو رہے ہیں ... کئی دنوں سے بلاوا بھیجا تھا، ہماری طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی، اب آئے ہیں تو پہلا کام انہیں کا ہوگا، بعد میں یہ بیٹ سیٹ لے کر آنا...تم لوگوں کو ہر وقت کھیل کود کی سوجھتی ہے، اسکول نہیں گئے ہو نا... ابھی ہم تمہارے ماسٹر سے شکایت کریں گے، راستے میں اسکول پہنچ کر...ادھر ہم گائوں میں پہنچیں نہیں کہ لکڑی لئے پہنچ جائیں گے بیٹ بنا دو بیٹ بنا دو...گاوسکر بننا ہے۔ پڑھ لکھ لا بیٹا بیٹ ویٹ کے چکر ما نہ پڑا، نہیں زندگی بھر لکڑی کی شکل میں ہل لئے گھومِہا کھیتوں میں لے کر کوئی پوچھی نہ...جوتا نصیب نہ ہوئی پیر ما موٹی موٹی بیوائی پڑ جائی تب سمجھ ما آئی ...لیکن وہ شام تک واپس جاتے جاتے ہم لوگوں کا بیٹ بنا دیتے ... یا کبھی وقت کم ہوا تو لکڑی لے جاکر گھر سے بنا کر واپس لاکر دیتے تھے۔
بِپت بڑھئی ہمارے ننہال کے تھے لیکن ان کا کوئی پتہ ٹھکانا نہیں رہتا تھا...وہ ایک جگہ نہیں ٹھہرتے تھے۔ آس پاس کے کئی کئی گائوں میں چکر لگا کر کام کرتے تھے... ان کی دماغی حالت ٹھیک نہیں رہتی، اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے اور کسی کے خیال میں ہر وقت گم رہتےتھے... لیکن ان کے کام پر اس کا اثر نہیں تھا، آپ کو ان کے کام میں کوئی کمی نہیں ملے گی۔ ان کے بارے میں لوگ بتاتے ہیں کہ ان کی یہ حالت بیوی کے چھوڑ کر چلے جانےکے بعد ہوئی ہے... اکثر ان کو کام کرتےہوئے دیکھا گیا ہے کہ جیسے وہ کسی سے باتیں کررہے ہوں۔ وہ جہاں بھی کام کرتے، اس گھر سے راشن لے کر اپنے ہاتھ سے کھاناپکا کر کھاتے تھے۔ آپ لاکھ کوشش کریں کہ ہم انہیں پکا پکایا کھلا دیں لیکن وہ لینے سے انکار کر دیتے تھے... گائوں کے بچے انہیں اکثر یہ کہہ کر چڑھاتے ہیں ....بِپت رے بِپت کراہی ناہیں دھیکت.... مہری ناہیں ٹکت اس جملے میں طعنہ ہے۔ (نہ بِپت کی کڑاہی گرم ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی بیوی ٹک پاتی ہے)یہ فقرہ سن کر بِپت آگ بگولہ ہو جاتےتھے ... بچوں کو دوڑا لیتے، یہ فقرہ کسنے والا اگر غلطی سے ان کی پکڑ میں آگیا تو اس کی خیر نہیں ہوتی تھی۔ جاڑا ہو یا گرمی ایک کپڑا وہ مہینوں تک پہنے نظر آتےتھے۔ آج فون کرنے پر معلوم ہوا کہ چھ ماہ قبل وہ اپنی کٹیا میں سوئے تو پھر سوئے ہی رہے۔ وہ چاہے جہاں رہتےوہ اپنی کٹیا پر واپس ضرور لوٹتے تھے...اگر کئی دنوں تک وہ کٹیا سے باہر نہ نکلتے تو لوگ ان کی خیریت معلوم کرنےکیلئے پہنچ جاتےتھے...اس روز بھی یہی ہوا پڑوسی پہنچے ... آواز دی لیکن کوئی جواب نہ ملا ...تنہائی میں بھی خود سے بات کرنے والی یہ آواز اب ہمیشہ کیلئے خاموش ہو چکی تھی۔ کام کی وجہ سے وہ علاقے میں سب کے چہیتے تھے۔ اس روز بِپت کے جانے کا دُکھ ان کے گائوں ہی نہیں بلکہ علاقہ کے لوگوں میں تھا۔
اب یہاں چچا موکل کا بھی ذکر کرتا چلوں ، ان کی کہانی بِپت سے ملتی جلتی ہے۔ یہ بہترین ٹیلر اور لیڈیز سوٹ کے اسپیشلسٹ تھے۔ شادی بیاہ کےموقع پر اُن کو ڈھونڈ کر لایا جاتا تھا۔ چھوٹےقد کے تھے۔ سائیکل لے کر چلتے تھے، لیکن پیدل۔ ان کےساتھ میں ایک جھولا ہوتا تھا جس میں ہوا بھرنے والی پمپ اوپر ہی سے نظر آتی تھی۔ ایک بار انہوں نے بتایاتھا کہ اس سائیکل سے ہم کانپور تک گئے ہیں وہ بھی پیدل۔ بیڑی خوب پیتے تھے، چائے کے شوقین تھے۔ اکیلے ہی نہ جانے کیا کیا بکا کرتے تھے۔ کسی عطا اللہ کا نام لیتے اورطیش میں کرسی سے اچانک کھڑے ہوجاتے، ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے ابھی کسی کو تھپڑ رسید کر دیں گے۔ اس درمیان ان کی بیڑی سلائی مشین پر رکھے رکھے بجھ جاتی تو اس کو دوبارہ اٹھا تے، جلے ہوئےحصے کو کاٹ کر پھر سے سُلگا لیتے اور کام میں لگ جاتے لیکن صاحب کام میں ذہن ذرا بھی اِدھر اُدھر نہیں بھٹکتا تھا، بہترین سوٹ سلتے تھے۔ اکثر وہ شادی بیاہ کے موقع پر ہی بلائےجاتے تھے۔ ان کا قیام و طعام سلائی مکمل ہونے تک اُسی گھر میں ہوتا تھا۔ کئی سال پہلے سئی ندی کے کنارے ان کی سائیکل ملی لیکن وہ غائب تھے۔ لوگوں نے انہیں بہت تلاش کیا۔ غوطہ خور بلائے گئے لیکن ان کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ اندیشہ ظاہر کیا گیا کہ پیر پھسلنے سے وہ ندی میں ڈوب گئے ہوں گے، لاکھ کوشش کے بعد بھی ان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔