انسان کے ذہن و دماغ میں کبھی کبھی ایسا خوف بس جاتا ہے جو زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتا، لاکھ کوشش کے باوجود وہ انجانے خوف سے باہر نہیں نکل پاتا ہے۔
EPAPER
Updated: September 23, 2024, 3:40 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
انسان کے ذہن و دماغ میں کبھی کبھی ایسا خوف بس جاتا ہے جو زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتا، لاکھ کوشش کے باوجود وہ انجانے خوف سے باہر نہیں نکل پاتا ہے۔
انسان کے ذہن و دماغ میں کبھی کبھی ایسا خوف بس جاتا ہے جو زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتا، لاکھ کوشش کے باوجود وہ انجانے خوف سے باہر نہیں نکل پاتا ہے۔ کچھ یہی صورتحال پرتاپ گڑھ کے ایک گائوں کی ہے۔ ۲۸؍ سال پرانا واقعہ آج بھی تیواری پور کلاں کے لوگوں کیلئے ایسا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ حالانکہ مذکورہ گائوں بہرائچ کے بھیڑیا متاثرہ مہسی تحصیل سے ۲۲۷؍ کلو میٹر دور ہے لیکن یہاں کے مکینوں میں آج بھی خوف صاف نظر آتا ہے۔ ۱۹۹۶ء کے بھیڑیوں کے حملوں کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے اس گائوں کے لوگوں کا کہنا کہ آج بھی وہ واقعات انہیں ڈراتے ہیں۔ کئی لوگ گھروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اندھیرا ہونے کے بعد وہ تنہا گھروں سے نکلنے میں گریز کرتے ہیں۔ تیواری پور کلاں گائوں کی معمر خاتون مالتی دیوی کہتی ہیں کہ وہ زندگی کے انتہائی خوفناک دن تھے، جب بچے اپنی ماں کی گود میں بھی محفوظ نہیں تھے۔ انہوں نے درد بھرے لہجے میں کہا کہ صاحب ...بھیڑے کے اس حملے میں ہمارے ۶۰؍ سے زائد بچے مارے گئے ...یہ بات پوری کرتے ہوئے ان کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
بھیڑیئے کے حملے سے بچ جانے والے مکیش یادو نے اس خوفناک رات کی دستان کچھ یوں بیان کی۔ آپ بھی سنئے...اس وقت میں ۲۴؍ سال کا تھا۔ فصلوں کی رکھوالی کیلئے اپنے کھیت میں سو رہا تھا، نصف شب گزر چکی تھی کہ اسی دوران بھیڑیئے نے مجھ پر حملہ کر دیا، گہری نیند میں اچانک ہوئے حملے سے لمحہ بھر کیلئے تو میں کچھ سمجھ ہی نہیں پایا۔ بھیڑیئے کی گرفت میری گردن پر مضبوط ہو رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ اس کے دانت میرے جسم میں پیوست ہوتے کہ ایک زور کے جھٹکے کے ساتھ بھیڑیے کی مضبوط گرفت سے آزاد ہو گیا۔ ابھی میں ٹھیک سے سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ بھیڑیا دوبارہ حملہ آور ہوگیا۔ اس بار اس کا نشانہ میری ران تھی، لاکھ چھڑانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ خوش قسمتی سے میری چیخ سن کر پڑوس کے کھیت سےکسان نے شور مچایا اور پاس میں گشت کرنے والی محکمہ جنگلات کی ٹیم فوری طورپر وہاں پہنچ گئی جسے دیکھ کر بھیڑیا مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ بھیڑیے کے حملے سے میں بچ تو گیا لیکن خوف ایسا تھا کہ زبان سے ایک لفظ نہیں نکل رہا تھا۔ محکمہ جنگلات کی ٹیم کے پہنچنے اور اس حملے میں بچ جانے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسےآج مجھے دوبارہ نئی زندگی ملی ہو۔ ورنہ آج یہ کہانی سنانے کیلئے میں دنیا میں نہ ہوتا۔
یہ بھی پڑھئے:شام ہوتے ہی بچے گھر کے کونے کھدرے میں دُبکنے لگتے تھے
دوسرا قصہ بھی سنئے...رانی گنج تحصیل علاقہ سے تعلق رکھنے والے عمران احمد نے بتایااس وقت صورتحال یہ تھی کہ بھیڑیا کہاں پیچھا کر لے کچھ کہہ نہیں سکتے، خوف کا عالم یہ تھا کہ اندھیرے میں اگر کتا بھی دوڑائے تو لوگ بھیڑیا سمجھ کر بھاگتے تھے۔ شام کا وقت تھا سورج غروب ہو رہا تھا، ہم اُرَد کا کھیت دیکھنے کیلئے تیزی سے چلے جارہے تھے، تاکہ اندھیرا ہونے سے پہلے گائوں واپس لوٹ آئیں۔ کھیت کے پاس پہنچے تویہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ سنچائی کے بعد اب مرجھائی ہوئی فصل پر ہریالی آگئی ہے۔ اُرَد کے ہرے بھرے پودوں کو دیکھ کر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکے کے ساتھ ہم واپس گائوں کی طرف روانہ ہوئے۔ ابھی ہم چند قدم دور ہی نکلے تھے کہ ...یکایک سرسر کی آواز آئی...پیچھے مُڑ کر دیکھا تو میری طرف دو بھیڑیئے دوڑے چلے آرہے ہیں ...ایک لمحے کیلئے ایسا لگا کہ آج تو بچ پانا مشکل ہے۔ لیکن فوراً مجھے وہ ترکیب سوجھی جو کبھی اپنے بزرگوں سے سنی تھی ...سامنے والے جُتے ہوئے کھیت سے مٹی اچھالنا شروع کیا، خوش قسمتی سےہوا نے بھی ساتھ دیا۔ مٹی سے نکلنے والی دھول کے سبب بھیڑیئے کے تیز قدم رُک گئے۔ کچھ دیر تک یہی سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت گائوں کے لوگ الرٹ موڈ میں تھے ہی شور سن کر لاٹھی ڈنڈے لے کر پہنچ گئے۔ بھیڑ دیکھ کر بھیڑیا بھاگا اور میری جان میں جان آئی۔ بزرگوں کی با تیں ایسے موقعوں پر کبھی کبھی بڑی کام آتی ہیں۔ گائوں کی بیٹھک میں کبھی سن رکھا تھا کہ دھول اُڑانے اور آگ جلانے سے بھیڑیئے دور بھاگتے ہیں کیو نکہ اُڑتے ہوئے دھول ان کی آنکھوں میں بھرجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بینائی کام نہیں کرتی اور آگ سے وہ بہت زیادہ ڈرتے ہیں۔
فی الحال بہرائچ کےساتھ ہی پرتاپ گڑھ میں ایک بار پھر بھیڑیئے کے خطرے نے دستک دی ہے۔ کئی بڑے بوڑھے اور بچے اس کا شکار بھی ہوئےہیں۔ فی الحال کسی جانی اتلاف کی کوئی خبر نہیں ہے لیکن خوف نے لوگوں کے دلوں میں ضرور گھر کرلیا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ پرانے واقعات لوگوں میں ایک بار پھر موضوع بحث بن گئے ہیں جو ۲۸؍ سال پہلے ۱۹۹۶ء میں پیش آئے تھے۔ حالانکہ بھیڑیئے کو پکڑنے کیلئے انتظامیہ کی جانب سے جدید تکنیک کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ڈرون کی بھی مدد لی جارہی ہے، کیمرے میں بھیڑیئے کی تصویریں توقید ہو رہی ہیں، لیکن ابھی تک ان پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔