یوپی کے کئی اضلاع اور گائوں اس وقت جنگلی جانوروں کے حملے کی زد میں ہیں۔ یہاں کے مکینوں کیلئے راتیں ڈراؤنی ہیں اور دن میں بھی یہ دہشت کم نہیں ہو رہی ہے۔
EPAPER
Updated: September 15, 2024, 5:25 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
یوپی کے کئی اضلاع اور گائوں اس وقت جنگلی جانوروں کے حملے کی زد میں ہیں۔ یہاں کے مکینوں کیلئے راتیں ڈراؤنی ہیں اور دن میں بھی یہ دہشت کم نہیں ہو رہی ہے۔
یوپی کے کئی اضلاع اور گائوں اس وقت جنگلی جانوروں کے حملے کی زد میں ہیں۔ یہاں کے مکینوں کیلئے راتیں ڈراؤنی ہیں اور دن میں بھی یہ دہشت کم نہیں ہو رہی ہے۔ بچے کچھ دیر کیلئے نظروں سے اوجھل ہوئے تو مائیں تڑپ اُٹھتی ہیں کہ آیا میرے بچے کو کہیں بھیڑیا تو نہیں اٹھا لے گیا۔ کچھ اس طرح کا خوف بہرائچ، لکھیم، بارہ بنکی اورپرتاپ گڑھ سمیت کئی اضلاع میں ہے۔ بہرائچ میں آدم خور بھیڑیا تقریباً ۱۰؍ بچوں کو اپنا شکار بنا چکا ہے۔ انسان اور جنگلی جانوروں میں تصادم کے یہ واقعات کوئی نئے نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ بات ۱۹۹۶ء کی ہے۔ راقم کے آبائی ضلع پرتاپ گڑھ میں بھیڑیا اور لکڑ بگھے کا وہ خوف تھا کہ سورج غروب ہوتے ہی بچوں کو گھروں میں بند کر دیاجاتا تھا، انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ مئی، جون کا مہینہ تھا، گرمی ایسی تھی جیسے آگ برس رہی ہو، لیکن لکڑ بگھے کے خوف کے سامنے اُس جھلسا دینے والی گرمی کا احساس تک نہیں تھا، بچے از خود شام ہوتے گھر کے کونے کھدرے میں دُبکنے لگتے تھے۔
گائوں میں اُس وقت طرح طرح کی باتیں ہوتی تھیں، کچھ لوگ کہتے بچوں کو گھروں میں بندکرکے اس گرمی میں کیوں تڑپارہے ہو، اتنا بڑا گائوں اور اس میں اتنے سارے افراد کس کام کے ہیں ؟ یہ چھوٹا سا بھیڑیا یا لکڑ بگھا ہمار ا کیا بگاڑ لے گا؟ لیکن اسی دوران رانی گنج تحصیل کے سچولی گائوں میں ایک رات ایک بچی کو لکڑ بگھااٹھا لےگیا۔ سئی ندی کے کنارے جنگلوں سے صبح اس کی لاش برآمد ہوئی۔ اس کا پیٹ چاک تھا اور جسم کے اندر کےسارے اعضا غائب تھے۔ چنانچہ افواہوں کا بازار گرم ہو گیا۔ کوئی کہتا تھا کہ یہ لکڑ بگھے کا حملہ نہیں ہے، یہ انسانی اعضاء کی اسمگلنگ کرنے والےگروہ کا کام ہے۔ کچھ لوگ الزام لگاتے ہوئے کہتے کہ ہو نہ ہو یہ سب نو منتخب رکن پارلیمان کے اشارے پر ہو رہا ہے، جن علاقوں سے انہیں ووٹ نہیں ملا ہے، وہاں ایسے لوگوں کو چھوڑا گیا ہے جو دن بھر علاقے میں گھومتے ہیں اور رات کو لکڑ بگھے کی شکل میں آکربچوں کونشانہ بناتے ہیں۔ ۱۹۹۶ءکے پارلیمانی الیکشن میں مچھلی شہر سیٹ سے بی جے پی کو کامیابی ملی تھی۔ ان افواہوں کا اثر یہ ہوا کہ۱۹۹۸ء کے وسط مدتی پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی نے اپنا امیدوار بدل دیا۔ اُس وقت یہ علاقہ مذکورہ پارلیمانی سیٹ کاحصہ تھا۔ اب پرتاپ گڑھ کی صدر پارلیمانی سیٹ میں آتا ہے۔ کچھ لوگ اسے نادیدہ طاقت قرار دیتے کہ وہ واردات کو انجام دے کر فضا میں تحلیل ہو جاتا ہے، غرضیکہ جتنے منھ اتنی باتیں ۔
پاس کے گائوں میں واقعہ پیش آنےسے دہشت کا یہ عالم تھا کہ اُس وقت کوئی اجنبی گائوں میں داخل ہو تو اس کی بڑی سختی سےباز پرس کی جاتی تھی، اطمینان ہونے پر ہی اسے گائوں کے اندر جانے دیا جاتا تھا۔ لکڑ بگھے کے خوف سے لوگ شادی بیاہ میں بڑوں کے ساتھ بچوں کو بھی لے جاتے تھے۔ دور دراز جانے والی باراتوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو ساتھ لے جانا پڑتا تھا۔ گویا یہ دہشت بچوں کے سیر سپاٹے کا ذریعہ بھی بن گئی تھی۔ اب ہر بارات اور چھوٹی بڑی تقریبات میں انہیں شامل ہونے کا موقع ملنے لگا تھا، جہاں لاکھ ضد کے بعد بھی ان کی شرکت نہیں ہو پاتی تھی۔
یہ بھی پڑھئے:جن گڑھوں کی مٹی سے کبھی حویلیاں بنی تھیں، اب اسی کی مٹی سے وہ پاٹے جارہے ہیں
اس وقت غلط فہمی اور افواہوں کے سبب بھکاری بھی گائوں والوں کے عتاب کا شکار ہوئے تھے۔ کچھ کو تو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ گرمی کے دنوں میں اکثر گاؤں میں آتشزدگی کے واقعات پیش آتے ہیں ، آگ سے گھر بار جل کر تباہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے متاثرہ افراد دوسرے گائوں سے مدد لیتے ہیں ، مانگ کر غلہ و دیگر ضرورت کا سامان جمع کرتے ہیں ، اُس سال ان پر دُہری مار پڑی۔ مصیبت کی اس گھڑی میں وہ خوف کےمارے گھروں سے نکلنے کی ہمت بھی نہیں کر پارہے تھے۔
لکڑ بگھے کے حملے سے بچنے کیلئے گائوں میں سیکوریٹی ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ اس طرح لوگ اجتماعی طور سے پہرا دیتے۔ ہر گھر کا ایک فرد لاٹھی ڈنڈا اور ٹارچ سے لیس پوری چوہدی کا گشت لگا تھا۔ دن میں گائوں کے معمر لوگ نظر رکھتے تھے کہ گائوں میں کون آ رہا ہے، ذراسا شک ہونے پر اس سے گھنٹوں پوچھ تاچھ کرتے تھے۔ کئی بار اس میں گونگے اور دماغی طو پر معذور افراد پھنس جاتے تو ان کیلئے بڑی مشکل ہوتی۔ لوگ کہتے یہ بنا پاگل ہے، ارے یہ ہم لوگوں کے سامنے گونگا بن گیا ہے، اچھا بیٹا دن بھر گونگے اور پاگل بنے پھرتے ہو اور رات میں آکر بچوں کو نشانہ بناتے ہو۔ ’کنوا پا پڑی نہ تو آواز نکل جائی، سارا گونگا بہرا پن بھول جابا‘۔ اس وقت کوئی گونگا- بہرا شخص گائوں میں آجاتا تو گویا اس کی شامت آجاتی۔
حالیہ دنوں میں ایک بار پھر یوپی میں جنگلی جانوروں کے حملے تیز ہو گئے ہیں۔ لکھیم پور کھیری میں ڈیڑھ ماہ کے اندر چار افراد کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔ لکھیم پور کے موڈا سی گائوں میں ایک نوجوان کھیت میں گنّا باندھ رہا تھا کہ اسی دوران شیر نے حملہ کر کے ہلاک کردیا۔ بارہ بنکی کے سترکھ میں رضوانہ نامی ایک لڑکی گائوں کے باہر بکریاں چرا نے گئی تھی، جہاں بھیڑیئے سے اس کا تصادم ہوگیا۔ انتظامیہ کی جانب سے جنگلی جانوروں کو پکڑنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ، فی الحال مکمل کامیابی نہیں ملی ہے۔