• Sat, 08 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں: ’اُترن‘ بجو کا کانصیب، مینڈک کا جوس اور’منہ نوچوا‘ سےخوف کا زمانہ

Updated: December 24, 2023, 2:55 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

یہ مغربی بنگال کے نادیہ ضلع کے ایک گاؤں کا منظر ہے۔ ابھی سورج کی لالی ختم نہیں ہوئی ہے، اس کی کرنیں بکھری نہیں ہیں ، سردی شباب پر ہے۔

In the winter season, it is impossible to leave the house in the morning, so some people are forced to go to `work`. Photo: INN
سردی کے موسم میں صبح کے وقت گھر سے نکلنا بھی محال ہوتا ہے، ایسے میں کچھ لوگ ’کام‘ پر جانے کیلئے مجبور ہوتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

یہ مغربی بنگال کے نادیہ ضلع کے ایک گاؤں کا منظر ہے ۔ ابھی سورج کی لالی ختم نہیں ہوئی ہے ، اس کی کرنیں بکھری نہیں ہیں ، سردی شباب پر ہے۔ تیز ہوائیں چل رہی ہیں ، صبح صبح ایک معمر شخص سائیکل سے جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے پتیاں اور لکڑیاں بندھی ہوئی ہیں ۔ سائیکل کے آگے کے حصےمیں ایک جھولا لٹکا ہو ا ہے۔ اس کے جھولے میں ہنسوا ( ہنسیا ) رکھا ہوا ہے جس کا نوکیلا حصہ صاف نظر آرہا ہے۔وہ الاؤ کیلئے یا گھر کا چولہاجلانے کیلئے ایندھن کا انتظام کرنے گیا ہوگا۔ اس دانت بجنے والی سردی میں بھی گاؤں کا یہ معمرشخص اپنے اوپر صر ف ایک چادر ڈالے ہوئے ہے ، لنگی پہنے ہوئے ہے ، اس کی ٹانگیں کھلی ہوئی ہیں ،کان بھی کھلے ہوئےہیں ،سردی سے بچنے کیلئے اس کے جسم پر لے دے کر ایک ہی چادر ہے۔ پھر بھی و ہ کانپ نہیں رہا ہے، تیز ہوا کے درمیان سائیکل سے گزر رہا ہے، اس کے آس پاس درخت ہیں ، سرسوں کے کھیت ہیں ، کسی سے اسے شکوہ نہیں ہے، وہ اپنی دھن میں مست ’ پیڈل‘ مار ہا ہے۔ 
  اس کالم نگار کو یاد ہےکہ پوروانچل کے گاؤں دیہاتوں میں ایسی ہی ایک’ مسہر‘ قوم ہے۔ یہ گا ؤں کے باہر جھگیوں اور جھوپڑیوں میں رہتی ہے۔ ان بستی والوں کی خاص با ت یہ ہےکہ یہ موسم کی پروا کی نہیں کرتے ہیں ، اس کی مار سے محفوظ رہتے ہیں ، خون جمادینے والی سردیوں میں بھی عام سالباس پہنتے ہیں ۔ ننگے پاؤں رہتےہیں ، بنیان پہنے رہتے ہیں ، زیادہ سےزیادہ الا ؤ سینک لیتےہیں ۔ جب بھی ہم بچپن میں گرم لباس پہننے میں آنا کانی کرتےتھے تو گھر والے سمجھاتے بجھاتے تھےاور کہتے تھے،’’ پہن لو،ورنہ سردی لگ جائے گی۔‘‘ اس پرہم بچوں کاجواب ہوتا تھاکہ مسہر کے بچے کچھ نہیں پہنتے ، آخر انہیں ٹھنڈکیوں نہیں لگتی ہے؟ اس کے جواب میں گھر والے یہی کہتے تھے کہ یہ مینڈ ک کا ’جو س‘(سوپ) پیتےہیں ۔ یقیناً اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، سچ پوچھئے تو یہ اس کے عادی ہوتے ہیں ۔مسہر سردی ، گرمی ، بہار اور برسات کسی سے نہیں ڈرتے ہیں ۔ سب کچھ ہنسی خوشی جھیل لیتے ہیں ۔طویل عرصے سے یہ انسانوں کے درمیان رہتے ہیں لیکن ان میں اب بھی جنگلات کی زندگی جینے کی عادت باقی ہے۔بتاتےہیں کہ ان کی غذا میں سانپ، چوہا، مینڈک اورکیکڑا وغیرہ بھی شامل ہیں ۔خاص بات یہ ہے کہ یہ قوم خود دار بھی ہوتی ہے کسی کا اُترن نہیں پہنتی ہے،بچا ہوا کھانا بھی قبول نہیں کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: دھلی دھلی سی اجلی دوپہر میں سرسوں کے پھولوں کا رقص اور مویشیوں کی نیند

ٹھنڈ کے معاملے میں مسہر اور بے جان بجو کا میں زیادہ فرق نہیں ہوتاہے۔ اب الگ بات ہےکہ مسہر تو گھاس پھوس کے چھپر میں سر چھپا لیتے ہیں۔ اس سےپہلے کے ایک کالم میں آپ نے پڑھا تھا کہ بجو کا کی آبادی میں اچانک اضافہ ہو نے لگا ہے۔ یہ جابجا کھیتوں میں نظر آنے لگے ہیں ۔ یہاں یہ قصہ چھوٹ ہی گیا تھاکہ بجو کا ہمیشہ پرا نا ہی کپڑا پہنتا ہے بلکہ اتارے ہوئے کپڑے اس کے نصیب میں ہیں ، جب بھی بجو کا بنایا جاتا ہے،بانس ، ڈنڈے اور لکڑیا ں وغیرہ نئی ہوتی ہیں لیکن اس بے چارے کا لباس اُتر ن ہی ہوتا ہے ۔ اسے وہی قمیص ،ٹی شرٹ اورشرٹ ملتی ہے جسے گھر کےکسی فرد نے پہننا چھوڑ دیا ہو یا جو مستر د کر دی گئی ہو۔ اس پہناوے پر بے زبان بجو کا نے کبھی شکایت نہیں کی، جو بھی پہنادیا پہن لیا اور آج جب بجوکا خوف کم ہوگیا ہے تو کسان اسے کوستے ہیں اور کہتےہیں کہ بجو کا لگا نےکا کوئی فائدہ نہیں ہے،آوارہ جانور باز ہی نہیں آتےہیں ۔ جب دانت بجنے والی سردیوں میں گاؤں والے اوپر سے نیچے تک گرم لباس پہنے رہتےہیں ، یہ بجوکا اسی پتلی ٹی شرٹ میں کھلے میدان میں کھڑا رہتا ہے۔ بجو کا کا ذکر ہواتو گجرات سے تعلق رکھنے والے جینتی بھائی بتانے لگے ، ’’گجرات میں بھی فصلوں کی حفاظت کیلئے بجوکا لگایا جاتا تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم ممبئی سے گجرات اپنے ماما کے ہاں جاتےتھے ، کھیتوں میں بجوکا دیکھ کر خوش ہوجاتے تھے۔ اس کے ساتھ کھیلتے تھے۔ میں اسے ’ٹپو ‘مار تاتھا ، اس پر ماما ٹوکتے تھے ، ڈانٹتے تھے اور کہتے تھے کہ زیادہ تیز سے مت مارنا ، ورنہ بجو کا گر جائے گا۔ ‘‘ 
بجو کا کا ایک اور دلچسپ قصہ ملاحظہ کیجئے ، جب لوگ بجو کا کو’منہ نوچوا‘ سمجھ بیٹھتے تھے اور خوف سے تھر تھر کانپتے تھے۔ سن یادنہیں ہے۔ اس کالم نگار کے بچپن میں ایک بار گاؤں میں افواہ پھیل گئی کہ منہ نوچوا آیا ہے، نام کی مناسبت سے وہ منہ نوچتا ہے ، عورتو ں کی چوٹیاں کاٹتا ہے ، بچوں کو اٹھا لے جاتا ہے۔ جہاز کی طرح ہوتا ہے، جگنو کی طرح جلتا بجھتا ہے، اس کی افواہ عام ہو ئی تو شدید گرمیوں میں بھی چھتیں خالی ہوگئیں ۔ ہمیشہ دوارے (دروازے پر) سونے والے بھی گھر میں گھس گئے۔ اسی دور میں ایک نوجوان اس کالم نگار کے ساتھ رات میں گھر سے باہر نکلا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی ہورہی تھی۔ وہ ایک جگہ رک گیا اور بری طرح چلایا، پورے محلے میں اس کی آواز سنائی دی۔ دراصل اس نے کھیت میں کھڑے بجو کا کو ’منہ نوچوا‘ سمجھ لیا تھا۔ وہ اتنا خوفزدہ تھا کہ بے ہوش ہوتےہوتے بچا۔ ایسے ہی بجوکا کومنہ نوچوا سمجھ کر بہت سے لوگ گھروں میں قید ہوگئے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK