• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پہلےدسہرہ سے دیوالی تک گائوں میں میلے، سرکس اور کھیل تماشےہوا کرتے تھے

Updated: October 21, 2024, 3:40 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

حالات نے اب گاؤں کی تصویر بھی بدل دی ہے۔ پہلےدسہرہ سے دیوالی تک گائوں میں میلے، سرکس اور طرح طرح کے کھیل تماشے ہوا کرتے تھے۔

Lathi vendors waiting for customers at a fair. Photo: INN
ایک میلے میں گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے لاٹھی کےدکاندار۔ تصویر : آئی این این

حالات نے اب گاؤں کی تصویر بھی بدل دی ہے۔ پہلےدسہرہ سے دیوالی تک گائوں میں میلے، سرکس اور طرح طرح کے کھیل تماشے ہوا کرتے تھے۔ لوگ اُس میلے کا سال بھر انتظار کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں ، ہر گائوں کے کچھ میلے بہت خاص ہوا کرتےہیں، جسے دیکھنے کیلئے گائوں کے لوگ شہروں سے چھٹی لے کر آیا کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں دسہرہ سے پہلے برادران وطن کے محلے میں ’رام لیلا‘ ہوا کرتی تھی جس میں گائوں کے لڑکے مختلف کردار ادا کرتے تھے۔ کوئی رام چندر جی بنتا، کسی کو راون کا کردار دیا جاتا اور کسی کو زنانہ لباس پہنا کر اور میک اپ کر کے ’سیتا‘ جی کے روپ میں پیش کیا جاتا۔ رام لیلا کا پروگرام تقریباً دس دن تک چلتا تھا۔ اس میں رام چندر جی کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر ڈراما پیش کیا جاتا تھا۔ ان کے بن باس اور راون کے ذریعہ سیتا کو لنکا لے جانا اور ہنومان کے ذریعہ لنکا میں آگ لگادیناجیسے مناظر پیش کئے جاتے تھے۔ 
  دسویں دن رام لیلا کا اختتام ہوتا۔ دسہرہ کی شام راون کے پتلے کو نذر آتش کرنے کے بعد اسی جگہ پر میلہ لگتا تھا جسےدور دراز سے لوگ دیکھنے آتے تھے اور اب بھی آتےہیں ۔ راون کے جلنے کے بعد اس کے پتلے کی جلنے سے باقی رہ جانے والی لکڑیاں برادران وطن کے بچے اپنے ساتھ لے جاتے۔ پوچھنے پر بتاتے کہ یہ لکڑیاں دادی نے منگائی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ اس کو چارپائی میں لگانے سے کھٹمل نہیں آتے۔ راون کے پتلے کی لکڑیاں پانے کیلئے خوب چھینا جھپٹی ہوتی تھی، کبھی کبھی تو لڑکے ایک دوسرے سے لڑ پڑتے تھے۔ جو بچہ ڈھیر ساری لکڑیاں حاصل کرنے میں  کامیاب ہو جاتا اس سے دوسرے بچے لکڑیاں مانگتے۔ بھئی ایک مجھے بھی دے دو ورنہ دادی ڈانٹیں گی۔ اور یہی ہوتا بھی گھر پہنچنے پر دادی کا پہلا سوال ہوتا۔ راون کی ہڈی پسلی کہاں ہیں۔ خالی ہاتھ چلے آئے ہو۔ کبھی کبھی غصے والی دادیاں تو بچے ہی کی ہڈی پسلی توڑ دینے کی دھمکی دیتیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:اور پھر جو گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے... وہ اندھیرا چھانے تک جاری رہتا ہے

دیوالی کے بعد’دیو اُٹھنی اکادشی‘ کا تہوار آتا ہے جس میں برادران وطن کے گھروں کی عورتیں ’سوپ‘(جس سےاناج کی صفائی کی جاتی ہے )کو علی الصباح گنے سے پیٹتی ہیں۔ اس میں  طرح طرح کے توہمات تھے۔ اُن کا یقین ہے کہ ایسا کرنے سے گھر کے ’دَرِدّر‘(گھر کی نحوست)بھاگ جاتی ہے۔ اس عمل کے دوران خواتین کو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے کیونکہ کچھ نوجوان سال بھر انتظار میں رہتے ہیں کہ کب وہ تہوار آئے اور وہ خواتین سے ’سوپ‘ چھین کر بھاگیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اس کو جلاکر اس کی آگ سینکنے سے ان کے جسم کی ’چھائی‘ (جلد کا مرض) ٹھیک ہو جائے گا جس کا وہ علاج کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ ایک وقت تھا جب اُس’سوپ‘ کو چھیننے کیلئے گائوں کے نوجوان رات رات بھر جگتے تھے اور گھروں  کے باہر گھات لگائے بیٹھے رہتے تھےکیونکہ ’چھائی‘ سے ان کے خوبصورت چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا اور کئی رشتے انکار ہو چکے تھے اور سارے حکیم و ڈاکٹر کا علاج کرکے ہار گئے تھے بس آخری علاج وہ ’سوپ‘ تھا کہ وہ کب ہاتھ آئے اور چہرے کی چمک واپس آ جائےاورکہیں سےرشتہ پکا ہو جائے۔ 
 پرتاپ گڑھ میں  کٹرہ میدنی گنج کا میلہ بہت مشہور تھا۔ یہ میلہ دسہرہ کے موقع پر لگتا تھا اور دیوالی کے بعد تک چلتا تھا۔ اس میلے میں پرتاپ گڑھ کے علاوہ رائے بریلی، سلطانپور اور الٰہ آباد سےلوگ آتے تھے۔ یہاں دور دور سے بیوپاری گھوڑے، اونٹ، گائے، بیل اور بھینسیں لاکر فروخت کرتے تھے۔ میلے میں موت کےکنویں والا سرکس، جادوگراور طرح طرح کے کھیل تماشے آتے تھے۔ یہ یہاں کے لوگوں کیلئے تفریح کا بڑا ذریعہ تھا۔ اس میلے کا سال بھر انتظار رہتا تھا۔ طرح طرح کی مٹھائیوں کی دکانیں سجتی تھیں۔ فیروز آباد کی چوڑیاں اور کراکری کی دکانیں خواتین کی خاص توجہ کامرکز ہوا کرتی تھیں۔ یہاں جانوروں کو سجانے سنوارنے کی اشیاء بھی خوب فروخت ہوتی تھی۔ لوگ بھینس خریدنے کے بعد اس کی سجاوٹ کا سامان خریدتے پھر اس کو سجا سنوار کر دُلہن کی طرح تیار کرکے پیدل لے کر چلتے تھے۔ بھینس کے گلے میں بندھی گھنٹیاں ایسی بجتی تھیں جیسے دُلہن کی پازیب چھم چھم کررہی ہو۔ یہاں میلے میں لاٹھیاں بھی خوب فروخت ہوتی تھیں۔ چھوٹی، بڑی، موٹی اور پتلی طرح طرح کی لاٹھیاں کسانوں کو خوب بھاتی تھیں۔ اس وقت گائوں دیہات میں لوگ گھروں میں لاٹھیاں ضرور رکھتے تھے، مویشی چرانے جب وہ جنگل کو نکلتے تو ان کے پاس مضبوط لاٹھی ضرور ہوتی تھی۔ گائوں میں اکثر سانپ اور کوئی موذی جانور نکل آئے تو یہ بہت کام آتی تھی۔ کٹرہ میدنی گنج کا میلہ اب سمٹ گیا ہے۔ اب نہ یہاں مویشی کے بیوپاری آتے ہیں، نہ ہی وہ جادو گر نظر آتے ہیں، جہاں کبھی قطاریں لگا کر ٹکٹ فروخت ہواکرتے تھے۔ اب یہاں کا وہ تالاب بھی سوکھ گیا ہے جس کا پانی اتنا صاف ہوتا تھا کہ میلے میں آنے والے پینے کیلئے اسی کا پانی استعمال کرتے تھے۔ اسی پانی سے وضو کرکے لوگ نماز پڑھتے تھے۔ اب کھودائی سے اس کی پرانی خوبصورتی بھی ختم ہو گئی ہے۔ راجہ پرتاپ بہادر کے خانوادے نے جب اس پارک کو تعمیر کرایا تھا تو اس وقت یہی تالاب پورے قصبےکی پیاس بجھانے کا ذریعہ تھا، خیراس پر تفصیلی گفتگو پھرکبھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK