میرے بچپن کا زیادہ تر حصہ گائوں ہی میں گزرا ہے۔ شہرجانے کے بعد جب بھی چھٹیاں ملتی ہیں تو ہم گائوں چلے جاتے ہیں۔ ہمیں گاؤں سے کچھ اس قدر اُنسیت ہے کہ اب جبکہ ہمارے خاندان کا کوئی بھی وہاں نہیں رہتا، پھر بھی دل کے گوشے میں بس گائوں ہی بستا ہے۔
EPAPER
Updated: November 18, 2024, 2:51 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
میرے بچپن کا زیادہ تر حصہ گائوں ہی میں گزرا ہے۔ شہرجانے کے بعد جب بھی چھٹیاں ملتی ہیں تو ہم گائوں چلے جاتے ہیں۔ ہمیں گاؤں سے کچھ اس قدر اُنسیت ہے کہ اب جبکہ ہمارے خاندان کا کوئی بھی وہاں نہیں رہتا، پھر بھی دل کے گوشے میں بس گائوں ہی بستا ہے۔
میرے بچپن کا زیادہ تر حصہ گائوں ہی میں گزرا ہے۔ شہرجانے کے بعد جب بھی چھٹیاں ملتی ہیں تو ہم گائوں چلے جاتے ہیں۔ ہمیں گاؤں سے کچھ اس قدر اُنسیت ہے کہ اب جبکہ ہمارے خاندان کا کوئی بھی وہاں نہیں رہتا، پھر بھی دل کے گوشے میں بس گائوں ہی بستا ہے۔ گاؤں میں دادا کے زمانے کا ایک خستہ حال مکان ہے۔ وہاں سہولیات برائے نام ہیں ، اس کے باوجود ہم ایک دو دن وہاں رہ کر بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ کھیت، کھلیانوں میں گھومتے پھرتے ہیں ، باغات کی سیر کرتے ہیں اور شہر کی ہلچل سے دور دیہاتوں میں سکون تلاش کرتے ہیں۔ ویسے اب گائوں بھی بہت کچھ بدل گیا ہے۔ کئی اچھی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس سے گاؤں والوں کو سہولت ملی ہے، لیکن کچھ بدلائو ایسے بھی آئے ہیں جس کی وجہ سے گاؤں میں گائوں کی روح ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ تبدیلیاں ہم جیسوں کیلئے اچھی نہیں ہیں جو گاؤں جاکرگائوں تلاش کرتے ہیں۔
پرتاپ گڑھ کےبڈھوراگائوں کی ایک شادی میں ملاقات کے دوران ضمیر الحسن بھائی نے بھی کچھ اسی طرح کا درد بیان کیا۔ مکان کے ایک ٹوٹے ہوئے حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اسی جگہ پر ہم گائوں کے دوستوں کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ کبھی پکڑم پکڑائی اور چھُپم چھُپائی کھیلتے تھے۔ گائوں کے باہر میدان میں گلی ڈنڈا اور کرکٹ بھی کھیلا جاتا تھا، لیکن اب نہ وہ میدان ہے ، نہ وہاں کھیلنے والے بچے۔ اس جگہ پر اب نئے مکانات کھڑےہیں۔ پہلےاس گائوں میں دس بارہ گھر ہی تھے۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ مکانات بھی بڑھ گئے۔ پہلے سبھی کھپریل تھے ، اب جو نئے گھر بن رہے ہیں وہ پکے ہیں ، جو پرانے کھپریل گھر تھے ، وہ بھی ٹوٹ کر پکے بن رہے ہیں۔ نئی نسل کی بڑی تعداد روزی روٹی کیلئے بڑے شہروں کا رخ کررہی ہے۔ کچھ لوگ کھیت وغیرہ بیچ کربیرون ملک چلے گئے ہیں جبکہ کچھ پرانے لوگ کھیتی اور مزدوری کرتےہیں۔
یہ بھی پڑھئے:’اناج اوستا ہوا کسان‘ پہلےپردھانی کے الیکشن میں امیدواروں کا انتخابی نشان ہوا کرتا تھا
پہلے جن بچوں سے کھیتوں میں کام کرایاجاتا تھا ، اب انہیں اسکول بھیجا جارہا ہے۔ گائوں کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں زیادہ تر غریب گھرانوں کے بچے ہی جاتے ہیں۔ ہمارے گاؤں سے کچھ فاصلے پر ایک انگلش میڈیم اسکول بھی کھل گیا ہے جہاں انگریزی صرف برائے نام ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جس طرح شہروں میں متوسط طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیجنا باعث فخرسمجھتے ہیں ، پیسے نہ ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو انگلش اسکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں ، اسی طرح گائوں میں بھی انگلش اسکولوں میں پڑھانے کا ایک فیشن سا چل پڑا ہے۔
گاؤں کے باہر ہرے بھرے ارہر کے کھیت، کچھ کھیتوں میں سرسوں کے پیلے پھول بھی کھل رہے تھے، اسے یہاں ’لاہی‘ کہتے ہیں جس کی بوائی اکتوبر میں ہو جاتی ہے، گاؤں کے کنارے وہ کنواں بھی نظر آیا جہاں کبھی شام کو عورتیں پانی بھرنے کیلئےجمع ہوتی تھیں ، اب وہ جگت جہاں وہ بیٹھ کر باتیں کرتی تھیں سونی اور ٹوٹی پڑی تھی۔ جنگل سے لکڑیاں لاتے ہوئے وہ بچے بھی نظر آئےجو شاید سردی بڑھنے سے پہلے الائو جلانے کا انتظام کررہے تھے۔ نہر کی وہ پٹری جہاں کبھی بیل گاڑیاں دوڑتی تھیں اب اس پرکاریں پھراٹا بھر رہی ہیں۔
’گائوں کی باتیں ‘ کرتے ہوئے امیٹھی سے تعلق رکھنے والے محمد ایوب ندوی یوں گویا ہوئے ....آپ بھی سنئے ...ہمارے گاؤں کے جنوبی سمت میں بہت بڑا کھلیان تھا جہاں دھان کی پرالی کے بڑے بڑے ترتیب کے ساتھ بنے ہوئے گھر تھے جسے ہماری دیہی زبان میں کھرہی کہتے ہیں۔ ہمارے بچپن کی سردیاں انہیں کے بیچ کھیل کود کر گزرتی جاتی تھی۔ صبح گاؤں کے مشرقی حصے میں دھوپ سینکنے والوں کا جمواڑہ ہوتا تھا ابلے آلو کی سبزی اور ماٹھا بھات کر خوشی خوشی کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر دوڑتے بھاگتے ایک دوسرے کے ساتھ دھکا مکی کرتے مدرسہ پہنچ جاتے اور چھٹی کے بعد اسی جوش وخروش کے ساتھ گھر واپس آتے۔ کھانا کھاکر بکریوں کو لے کر چَرانے جاتے اور شام کو آکر چراغ کی روشنی میں چولہے کے پاس بیٹھ کر سبق اور آموختہ دہراتے۔ وہ توے کی موٹی روٹی اور سویا میتھی کی سبزی جس کی لذت کا احساس آج بھی ہم نہیں بھولے ہیں۔ ہم بچوں کے حصے میں چارپائی بھی ٹوٹی پھوٹی آتی تھی، وہ میلی سی گودڑی اور اس کے نیچے دھان کی پرالی کا گدا، اس پر گزری ہوئی وہ بے فکر راتیں جنہیں یاد کرکے آج بھی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ بے سروسامانی میں گزرے وہ دن کتنے خوبصورت تھے۔ پیوند لگا کرتا پھٹی جیب بغض و حسد و کینہ کپٹ سے خالی وہ دل اب کہاں سے لائیں۔ اب تو کسی بات کو لے کر کسی سے ذرا سی ان بن ہوئی تو بچوں تک کو بات کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ گاؤں میں مکانات پختہ ہو تے جارہے ہیں لیکن لوگ کانوں کے کچے ہوتے جا رہے ہیں۔ آپسی تعاون ہی میں زندگی کی حقیقی خوشیاں ہیں۔ آلات و آرائش سے خوشیاں حاصل ہوتیں تو امراء کبھی خودکشی نہیں کرتے۔