• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مدتوں کے بعد یہ آنگن کتنابھلا لگتا ہے، گلاب کھل گیا ہے، پھولوں کی یہ کیسی بہار آئی ہے؟

Updated: March 25, 2024, 11:44 AM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

یہ گاؤں کے ایک آنگن کا قصہ ہے، کل تک یہ کچا تھا۔ اس آنگن میں مہندی کا ایک پودا تھا اورایک گلاب کا۔ ایک ببول کا بھی تناور درخت تھا، یعنی پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی تھے۔

When flowers bloom in pots and pots, children`s faces also bloom. Photo: INN
گھڑوں اور گملوں میں پھول کھلتے ہیں تو بچوں کے چہرے بھی کھل اٹھتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

یہ گاؤں کے ایک آنگن کا قصہ ہے، کل تک یہ کچا تھا۔ اس آنگن میں مہندی کا ایک پودا تھا اورایک گلاب کا۔ ایک ببول کا بھی تناور درخت تھا، یعنی پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی تھے۔ امرود کا بھی ایک درخت تھا جس پربرسات اور سردی میں پھل لدرے (لدے) رہتے تھے۔ پکے امرود کا ذائقہ چکھنے اور اس کی شکل بگاڑنے میاں مٹھو بھی آ جاتے تھے۔ اس درخت پر بلبل کی آمد ہوتی تھی، گوریاں بھی پھدکتی رہتی تھیں۔ ایک دن ایسا آیاکہ ایک ایک کرکے تمام درخت کاٹ دیئے گئے۔ مہندی کا پودا بھی ایک جھٹکے سے اکھاڑ دیا گیا۔ پورا آنگن خالی ہوگیا، پھر اس کچی زمین کی اچھی طرح سنچائی کی گئی، پانی سوکھنے سے پہلے ہی اس میں اینٹ کے ٹکڑے ڈال دیئے گئے۔ ٹکڑے اچھی طرح پانی میں ڈوب گئے تو ’درمس‘ (زمین کاسطح برابرکرنے والا ایک اوزار ) لایا گیا، بیلچے لائے گئے۔ کچھ مزدور پگڑی باندھ کر آئے، درمس اوربیلچے اٹھا کر اینٹ کے ٹکڑوں کے مزید ٹکڑے بنائے۔ پھر درمس سے اینٹ کو برابر کیا۔ چار پانچ گھنٹے تک یہ سب ہوا۔ دوپہر کے بعد مزدوروں نے اپنا ہاتھ روکا، آرام کرنے چلے گئے۔ لوٹ کر آئے تو مستری ( معمار) نے انہیں ’ مسالہ‘ بنانے کا حکم دیا۔ اس نے کہا، ’’تین ایک کا مسالہ بناول جای، گل نہ ہو، سوکھا رہے۔ ‘‘(تین ایک کا مسالہ بنائیے، گیلا نہ ہونے پائے، سوکھا رہے۔ ) مزدوروں نے اس حکم کی تعمیل کی۔ اینٹ ہی پر سیمنٹ، بالواور گٹی کاڈھیر لگادیا اور پھر انہیں اچھی طرح سے ملایا اور پھاوڑے کی مدد سے اس ڈھیر کے بیچ میں ایک گڑھابنایا اور اس میں پانی ڈال دیا۔ پندرہ بیس منٹ گزرنے کے بعد سیمنٹ، بالو اور گٹی کو اچھی طرح ملا دیا۔ مزدوروں نے ایک زبان ہوکر کہا، ’’مستری مسالہ تیار ہوگول ہے، کنی ونی لے کے آوا مردے۔ ‘‘ (مستری مسالہ تیار ہوگیا ہے، کنی ونی لے کر آیئے جناب!) مستری پلاسٹک کا جوتا پہنے اپنا سامان لے کر آئے اورمختلف آلات سے زمین کو برابر کرنے لگے۔ شام ہوتے ہوتے یہ کچا آنگن پکے آنگن میں بدل گیا۔ دو تین دن میں سوکھ گیا۔ کچھ دن تک صبح شام پکی زمین پر پانی دہایا جاتا تھا، یعنی اچھی طرح تر کیا جاتا تھا۔ دیوار یا چھت کی مضبوطی کیلئے اسی طرح تر کیا جاتا ہے۔ گرمیوں  میں  یہ عمل ہفتے عشرے تک جاری رہتا تھا۔ سردیوں  میں زیادہ سے دوچار دن۔ کہتے ہیں کہ ا س طرح ’ تری مارنے‘ سے مضبوطی آتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: سرسوں اور اَرہر کے پھول ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے

کچا آنگن پکا ہو گیا تو کچھ دن تک گھروالوں نے پیڑ پودوں کی کمی محسوس کی۔ درخت اور پودوں سے خالی آنگن میں پرندے بھی نہیں آتے تھے، جیسے روٹھ گئے تھے۔ کئی سال تک یہ پکا آنگن یوں ہی خالی رہا۔ کسی نے پھولوں اور پھلوں پر دھیان ہی نہیں دیا۔ گزشتہ دنوں گھر کا اسٹور روم صاف کیا جارہا ہے۔ اس میں سے ایک پرانا گھڑا نکل آیا۔ گھر کے ایک نوجوان نے اس گھڑے کو اٹھایا اور اس میں بورنگ کے وقت ہینڈ پمپ سے نکلی ہوئی مٹی ڈال دی اور پھر کہیں سے گلاب کی ڈال لا یا۔ اس میں کھوس(گاڑ) دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس ڈال سے نئی پیتاں نکلیں، پھر ایک دن ایسا آیا کہ گلاب بھی کھل گیا۔ اس پر گھروالوں کی خوشی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس طرح سونا آنگن آبا د ہوگیا۔ اس آنگن میں پھولوں کی بہار آگئی۔ اس طرح پرانے گھڑے میں گلاب کھل گیا تو حوصلہ ملا۔ گھر کے نوجوان بازار سے گملے خرید کر لائے اور اس میں الویرا اور جانے جانے کیا لگا دیا ؟ اس طرح بہت دنوں کے بعد آنگن میں شادابی آئی، لٹی ہوئی بہار لوٹی۔ ان چند پودوں سے آنگن پہلے کی طرح درختوں، پودوں اور پھولوں سے بھر ا پرا تو نہیں لگ رہا ہے لیکن بڑی حد تک اس کی شکل بد ل گئی ہے۔ اب بھٹک کر اکا دکا پرندے بھی آجاتے ہیں۔ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے گوریاں بھی اپنے گروپ کے ساتھ آجاتی ہیں۔ کوے کی بھی کائیں کائیں سنائی دینے لگی ہے۔ اس نے بھی اس آنگن سےرشتہ توڑ لیا تھا۔ 
  ان پھولوں سے گھر کے چھوٹے بچے دل بہلاتے ہیں  ۔ صبح اٹھتے ہی سب گلاب میں   پانی دیتےہیں  ۔ جس دن کوئی گلاب کھل جاتا ہے، اس دن ان کا چہرہ بھی کھل اٹھتا ہے، ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں  رہتا ہے، وہ پھولے نہیں سماتےہیں، گھر کے ہر فرد کو دکھاتےہیں اور اس پر داد وصول کرتےہیں، کوئی بڑا گلاب توڑ نا چاہتا ہے تو یہ بڑھ کر روک دیتےہیں۔ ننھے مالی اپنے اس باغیچے کی دل و جان سے حفاظت کرتےہیں۔ ان چندپھولوں اور پودوں میں ان کی جان بستی ہے۔ وہ انہیں  کسی قیمت پر کھونا نہیں  چاہتے ہیں۔ یہ دیکھ کر بڑے بوڑھے من ہی من میں یہی کہتےہیں کہ ہماراآنگن کچا تھا مگر ہم اتنے محروم نہیں تھے۔ ان پودوں، پھولوں اور درختوں کی اتنی قدر بھی نہیں  کرتے تھے، ہماری پرندوں سے ایسی دوستی بھی نہیں  تھی اور تمہارے پکے آنگن میں  چند پودے ہیں  ، اسی پر تم جان چھڑکتے ہو، اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہو، کا ش! ہم تمہیں  اپنا کچا آنگن دکھا پاتے۔ 
   ایک زمانہ تھا جب آنگن میں گل دپہریا( گل دوپہریا) کا بھی جلوہ ہوتا تھا بلکہ اسی کی دھوم رہتی تھی۔ یہ چاروں طرف کھلی رہتی تھیں، بکھری رہتی تھیں۔ کچے آنگن کے ہر حصے میں اُگی رہتی تھیں۔ برسات میں تو خود روپودوں کی طرح پھیل جاتی تھیں۔ جس دن بارش نہیں ہوتی تھی، اس دن اس کےپھول محفوظ رہتے تھے۔ کچے آنگن کے حسن میں اور بھی بہت سے پودے اور پھول چار چاند لگاتے تھے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK