• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پھوس کے پردے پرپانی کا چھڑکائو ہوجاتا تو ’پچھوا‘ چلنے پر کولرسے بھی ٹھنڈی ہوا نکلتی تھی

Updated: August 18, 2024, 6:05 PM IST | Ehsan-ul-Haq | Mumbai

سَرپت کا سیٹھا، مونجھ اور اس سے تیار کی جانے والی مونی(باسکٹ) اور ہاتھ کے پنکھے کے بعد اب ہم بات کریں گےچھپرکی جسے ہمارے یہاں چھان اور مڑئی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

Villagers correcting the chopper. Photo: INN
چھپر کو درست کرتے ہوئے گاؤں کے لوگ۔ تصویر : آئی این این

سَرپت کا سیٹھا، مونجھ اور اس سے تیار کی جانے والی مونی (باسکٹ) اور ہاتھ کے پنکھے کے بعد اب ہم بات کریں گے چھپرکی جسے ہمارے یہاں چھان اور مڑئی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ بھی اُسی سَرپت سے تیار کیا جاتا ہے جس سے مذکورہ بالا اشیاء بنائی جاتی ہیں۔ گائوں میں پہلے چھپر ہر گھر کے باہر نظر آتا تھا۔ مکان کتنا بھی عالیشان ہو، اس کے باہراتنا ہی خوبصورت چھپر دیکھنے کو مل جاتاتھا۔ بعض گھروں کے باہر تین چھپر ہوتے ہیں، ایک مرد حضرات کیلئے دوسرا گھر کی خواتین کیلئے جس میں ٹاٹ بندھی ہوتی تھی (پھوس کا پردہ) تیسرا چھپرمہمانوں کیلئے مخصوص ہوتا تھا۔ خواتین گھر کا کام کرنےکے بعد یہاں آرام کرتی تھیں۔ گرمیوں میں اس کے پردے پرپانی کا چھڑکائو ہوتا تھا، اس کی وجہ سے ’ پچھوا‘ چلتی تو کولرسے بھی ٹھنڈی ہوا نکلتی تھی۔ اس وقت بہت کم گاؤں میں بجلی تھی۔ گائوں میں بجلی کا دائرہ ’راجیو گاندھی بجلی کاری اسکیم ‘ کے بعد بڑھا۔ ۲۰۰۵ء سے ۲۰۱۰ء تک زیادہ تر گاؤں میں بجلی لگی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۲۰۰۷ء یا ۲۰۰۸ء میں ہمارا گائوں بھی پہلی بار بجلی سے روشن ہواتھا، ورنہ ا س سے قبل گرمی کی راتیں گھر کے باہر نیم کے درخت کے نیچے پنکھا جھلتے گزرتی تھیں اور دوپہریا اسی چھپر میں کٹتی تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی شادیوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے، نٹ اَب بھی مانگنے آتے ہیں

نشیبی علاقوں (جس کو ہمارے پرتاپ گڑھ میں کھلار کہتے ہیں ) میں سَرپت نہیں ہوتا البتہ ندی کے کنارےکثرت سے پایا جاتا ہے۔ سَرپت قدرتی پودا ہے، اسے نہ بویا جاتا ہے، نہ ہی لگایا جاتا ہے۔ کاٹنے کے بعد اسی جگہ پر پھر سےنکلنے لگتا ہے۔ جس کی زمین پر نکل آئے وہ اس کامالک۔ چھپر تیار کرنے کیلئے ندی کنارے آباد علاقوں سے سَرپت خریدا جاتا ہے۔ چھپر بنانے میں بانس کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا ڈھانچہ اسی سے بنتا ہے۔ بانس کو باندھنے کیلئے ارہر کے پودے کوپانی میں بھگو کر رسی بنا ئی جاتی ہے اور اسی سے بانس کو کس کے باندھ دیا جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے اس کی جگہ باریک تار کا بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ اب بانس کو باندھا نہیں جاتا بلکہ لوہے کی کیل ٹھونک کر ڈھانچہ تیار کیاجاتا ہے۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد آخر میں اس کےاوپر سَرپت پھیلاکر باندھ دیا جاتا ہےیا یوں کہیں سِل دیا جاتا ہے اور اس طرح چھپر تیار ہو جاتا ہے۔ کام مکمل ہونے کےبعد آس پاس کے علاقوں میں گھر کے بچوں کو دوڑادیا جاتا ہے، وہ چھان اُٹھانےکیلئے لوگوں کو بلاتے ہیں ...اور پھر کچھ یوں منظر ہوتا ہے ...تمرے باپ تو پچھلی بارہمری چھان اُٹھاوے کے وقت سردرد کا بہانہ لئے سووت رہیں ، آج ہمارپیٹ نہیں ٹھیک ہے دست پہ دست آوت ہے، ہم سے چل ناہیں جات ہے، لیکن ہم آئوب، ووکری طرح بہانہ باز نہ ہیں۔ (تمہارے باپ پچھلی بار ہماری چھان اُٹھانے کے وقت سردرد کا بہانہ بتا کرسو رہے تھے، آج ہمار ا پیٹ ٹھیک نہیں ہے دست آرہے ہیں لیکن ہم اس کی طرح بہانہ باز نہیں ہیں ہم چلیں گے)اس طرح لوگ اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے تھےلیکن چھپر اٹھانےکیلئے پوراگائوں جمع ہوتااور پورا زور لگا کر لوگ بڑے سے بڑا چھپر اُٹھا دیتے تھے۔ شاید اسی سے متاثر ہو کر منور رانا نے کہا تھا ؎
تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے 
ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں 
چھپر اٹھانے کے دوران بڑی طاقت لگا کر جب منڈیر پر پہنچائی جاتی، اس وقت کچھ شریر قسم کے نوجوان اور بچے پورا زور لگا کر اسے نیچے کی طرف کھینچتے...لیکن اوپر اٹھانے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی چنانچہ ان کی اس شرارت کا اثر نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ تو کچھ بچے چھپر پکڑ کر لٹک جایاکرتے تھے۔ گائوں میں  چھپر اب بھی بن رہے ہیں اور پہلے سے خوبصورت بنائے جارہے ہیں لیکن اب انہیں اُٹھانے کیلئے لوگوں  کو جمع نہیں  کرنا پڑتا بلکہ پلر پر پہلے سے تیار کئے گئے ڈھا نچے پر بیٹھ کر کام مکمل کر دیتے ہیں۔ 
سردی ہو یا گرمی گھر کے بڑے بوڑھے ہمیشہ چھپر ہی میں سوتے تھے۔ یہیں سے گھر کی رکھوالی کے ساتھ کھیتوں کی دیکھ بھال ہوتی تھی۔ رات کے اندھیرے میں وہ ٹارچ کی روشنی سے چھپر میں بیٹھے بیٹھے دیکھ لیا کرتے تھے کہ آیا کوئی جانور فصلوں  کو نقصان تو نہیں  پہنچا رہا ہے۔ ٹارچ کی بات پر یاد آیا کہ اس وقت سعودی عرب جانے والوں سے گائوں  کےرشتہ داروں  کا ایک ہی مطالبہ ہوتا تھا کہ ایک عدد چارجنگ والا ٹارچ کسی صورت بھیج دیں  ۔ خدا خدا کرکے جب ٹارچ مل جاتی تو اس کے چارجنگ کا مسئلہ ہوتا۔ صبح بازار جاتے وقت ٹارچ سنبھال کر ساتھ لےجایا جاتا اور شام کے وقت چارج ہونے پر واپس لایا جاتا۔ اس وقت جس کے یہاں یہ ٹارچ ہوتا تھا، اس سے اندازہ لگ جاتا تھا کہ اس کے گھر یا ان کا کوئی رشتہ دار سعودی عرب میں  ہے۔ 
یہ چھپر نوجوان نسل کی تربیت کی جگہ ہوا کرتے تھے۔ وہ یہیں پر بیٹھ کر گائوں  کے بڑے بزرگوں  سے نشست و برخاست سیکھتے تھے۔ ایسے نوجوانوں کی بڑی تعداد تھی جو یہیں لالٹین کی روشنی میں  پڑھتے تھے، ان میں سے کچھ نے ترقی کی منزلیں بھی طے کیں ۔ شام کو جب گائوں  کے بزرگ چھپر کے نیچے جمع ہوتے تو وہ دن بھر کی روداد دلچسپ انداز میں  بیان کرتے تھے۔ وہ قصے کہانیاں پھر کبھی ...آج بس اتنا ہی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK