کچے مکانوں کے بعد اس گڑھے کی بات ہو جائے کہ جس کی مٹی سےعمارت تعمیر ہوتی تھی۔ اس کی اہمیت وافادیت پر بھی گفتگو ضروری ہے۔
EPAPER
Updated: September 03, 2024, 6:51 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
کچے مکانوں کے بعد اس گڑھے کی بات ہو جائے کہ جس کی مٹی سےعمارت تعمیر ہوتی تھی۔ اس کی اہمیت وافادیت پر بھی گفتگو ضروری ہے۔
کچے مکانوں کے بعد اس گڑھے کی بات ہو جائے کہ جس کی مٹی سےعمارت تعمیر ہوتی تھی۔ اس کی اہمیت وافادیت پر بھی گفتگو ضروری ہے۔ گڑھا، گڑہیا اور تارا اِن کے مختلف نام ہیں ۔ (’تارا ‘ تالاب کے برابر ہوتا ہے)کچے مکانوں کیلئے کثیر تعداد میں مٹی کی ضرورت ہوتی تھی چنانچہ مٹی کھودنے سے بڑا گڑھا ہو جاتا تھا بعض اوقات ایک جگہ کی مٹی سے اگر کئی مکان تعمیر ہوتے تھے تو وہاں کافی بڑا گڑھا ہوجاتا تھا، جو تالاب جیسا معلوم ہوتا تھا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہر جگہ کی مٹی کچے مکان کی تعمیر کیلئے موزوں نہیں ہوتی تھی، یعنی وہ دیوار بنانے کے لائق نہیں ہوتی تھی۔ علاقے کی کچھ خاص جگہ کی مٹی ہی مکان کے تعمیر کے قابل ہوتی تھی۔ یہ گڑھے اور گڑہیا گائوں میں آبی ذخائر کے بڑے ذرائع بھی تھے۔ یہ مویشیوں کی پیاس بجھاتے تھے اور ان کے پانی سے کھیتوں کی سنچائی ہوتی تھی لیکن اب گائوں کے باہر تارا، تالاب، اور تال تلئیاں تو محفوظ ہیں لیکن گڑہیا غائب ہوتی جارہی ہیں۔ اب گائوں سے کچے مکان ختم ہورہے ہیں۔ قدرت کا کیسا نظام ہےکہ جن گڑھوں کی مٹی سے کبھی عالیشان حویلیاں بنی تھیں، اب اسی کی مٹی سے وہ پاٹے جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:کچے مکانوں میں رہنے والے ایک دوسرےسے سچی اورپکی محبت کرتے تھے
گائوں کے بچے اس گڑہیا میں کٹیا لگا کر مچھلی پھنساتے تھے۔ شام تک بڑی تعداد میں کٹیا میں پھنسی مچھلیاں باہر نکالی جاتیں تو آس پاس کے پیڑوں سے سوکھی لکڑی توڑکر لائی جاتی تھیں۔ کچھ بچے مچھلی کی صفائی میں لگ جاتے، جلدی جلدی صاف کرتے لیکن مچھلی بھوننا سب کو نہیں آتا تھا، اس کی مہارت رکھنےوالے کا اپنا الگ ہی رتبہ ہوتا تھا، وہ مچھلی صاف کرنے والے کو کئی بار ڈانٹتا، ٹھیک سے صاف کرو، یہ دیکھو سر کے پاس ابھی کافی گندگی ہے۔ دُم کا حصہ چاقو سے کاٹ کر الگ کرو، بچے اس کی ایک ایک بات پر توجہ دیتے اور خوشی خوشی ہر کام کرتے۔ اس طرح مچھلی صاف کر کے آگ میں ڈالی جاتی اور کچھ دیر بعد مچھلی بھُن کر تیار ہوجاتی تھی۔ پھر بچے مہوے کا پتّہ لے کر حاضر ہوتے جس میں انہیں بھنی ہوئی مچھلیاں تقسیم کی جاتی تھیں۔
گڑہیا پہ یاد آیا کہ لکھنؤ میں امین آباداور فتح گنج کے درمیان میں تو ایک پورا محلہ ہی گڑہیا کہلاتا ہے۔ اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں بھی کچے مکان رہے ہوں گے، اس کی تعمیر کیلئے کھودی گئی مٹی سے یہاں بھی گڑہیا بنی ہوگی، جس کی وجہ سے ایک محلہ ہی گڑہیا کے نام سےآباد ہے۔ میں جب پہلی بار گڑہیا والی مسجد سنا تو مجھے حیرت ہوئی کہ اس پرانے شہر میں بھی گڑہیا... تو اندازہ ہوا کہ شہر سے پہلے یہ سب گائوں ہی تو تھے۔ اپریل کے مہینے تک گڑہیا میں پانی رہتا تھا، خالی پڑے کھیتوں میں چرنے کے بعد بھینس، گائے اور بیل یہیں پانی پیتے تھے۔ مئی کے شروعات کے ساتھ جب گرمی بڑھتی تو گڑہیا سوکھنے لگتی، پانی کم ہو جاتا تھا اور مچھلیاں نظر آنے لگتی تھیں ۔ اس کے بعد اس میں جال ڈالاجاتا اور ایک بار میں پوری مچھلی جال میں پھنسا کر باہر لائی جاتی تھی۔ پھر کیا تھا اس روز پورے محلے میں مچھلیاں تقسیم ہوتیں۔ گھر کی خواتین مختلف قسم کی مچھلیوں کی ڈش تیار کرتیں۔ ہمارے گائوں میں کچھ خواتین ایسی بھی تھیں جو گوشت اور مچھلی بہت اچھا پکاتی تھیں، لوگ ان کے ہاتھوں سے پکی مچھلیاں کھانے کی فرمائش کرتے تھے۔ لیکن وہ خود مچھلی اور گوشت نہیں کھاتی تھیں ، پرہیز ایسا کہ ان کا کھانے پینے کا برتن بھی الگ تھا۔
مئی کے آخر تک گڑہیا بالکل سوکھ جاتی تھی۔ اب اس کی گیلی مٹی جسے گائوں میں کنئی کہتےہیں، اسے نکالا جاتا، گھر کے ٹوٹے پھوٹے حصےمیں اس مٹی کو بھرا جاتا تھا، پھر اس کی لِپا ئی اور پوتائی کیلئے پیڑوری مٹی کھود کر لائی جاتی (یہ مٹی ہر جگہ سے نہیں نکلتی تھی کچھ خاص جگہوں سے کھودکر لائی جاتی تھی)۔ اسی پیڑور اور پیڑوری مٹی کو بچے تختی پر پوت کر اس پر لکھتے تھے۔ بعد میں خاص قسم کی دودھیا رنگ کی مٹی جسے دودھی کہتے تھے، بازاروں میں آگئی، پھر تختی پر استعمال کرنے کیلئے بچے اسے خریدنے لگے۔
پیڑوری مٹی ہی سے کچے گھروں کی پُتائی ہوتی تھی۔ پُتائی کے بعد یہ مٹ میلا رنگ بڑا ہی خوبصورت لگتا تھا۔ گھرکی پُتائی کا کام بارش سے پہلے تک مکمل کر لیا جاتا تھا۔ موسم باراں میں جب بارش کا پہلا پانی ان دیواروں پر پڑتا تو اس پیڑوری مٹی سے سوندھی سوندھی خوشبو نکلتی تھی۔ اب اس سوندھی مٹی کی خوشبو کا قنوج میں باقاعدہ عطر بنتا ہے۔
اس وقت مئی کے آخری ہفتے تک اسکولوں میں گرمی کی چھٹیا ں ہو تی تھیں۔ چھٹی میں بچے باغوں میں یہاں وہاں پھرتے، کچھ بچے گھر کے کام میں مدد کرتے۔ مویشی چرانے جنگل چلےجاتے۔ لڑکیاں بزرگ خواتین سے کچھ ہنر سیکھنے بیٹھ جاتیں اور کچھ بچے گڑہیا سے کنئی یعنی گیلی مٹی نکالتے اور مہوے کے سایہ دار درخت کےنیچے بیٹھ کر مٹی کے کھلونے بناتے۔ ڈھیر ساری مٹی جمع کرکے وہ ٹریکٹر ٹرالی، تھریسر اور خوبصورت بیل، بھینس اور گائیں اسی مٹی سے بنا دیتے تھے۔ پھر اس کو محفوظ مقام پر دھوپ میں سکھاتے اور جب کھلونا سوکھ کر پختہ ہو جاتا تو باغ کے ایک کونے میں جمع ہوتے اور یہیں پر ٹریکٹر اور تھریسر سے گیہوں کی مڑائی کا کھیل کھیلتے اور کچھ بچے مٹی کی بنی اپنی یہ بھینس گائے جنگل میں چرانے نکل جاتے تھے۔ کھیل کھیل میں جب وہ جھاڑیوں میں کھو جاتی تو وہ رو پڑتے تھے۔ رئیس انصاری نے اپنے شعر میں اس منظر کو یوں بیان کیا ہے ؎
بچپن کا زمانہ بھی کیا خوب زمانہ تھا
مٹی کا کھلونا بھی کھویا تو بہت رویا