شام کے ساڑھے۴؍بج چکے تھے۔ گاؤں میں سر راہ ایک بزرگ چارپائی پرتنہا لیٹے ہوئے تھے۔ گرمی کی مناسبت سے ہلکا پھلکا لباس پہنے ہوئے تھے۔
EPAPER
Updated: June 30, 2024, 4:41 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
شام کے ساڑھے۴؍بج چکے تھے۔ گاؤں میں سر راہ ایک بزرگ چارپائی پرتنہا لیٹے ہوئے تھے۔ گرمی کی مناسبت سے ہلکا پھلکا لباس پہنے ہوئے تھے۔
شام کے ساڑھے۴؍بج چکے تھے۔ گاؤں میں سر راہ ایک بزرگ چارپائی پرتنہا لیٹے ہوئے تھے۔ گرمی کی مناسبت سے ہلکا پھلکا لباس پہنے ہوئے تھے۔ انہیں نیند آرہی تھی یا نہیں ؟ اس کا فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ وہ بس آنکھ بند کئےہوئے تھے۔ ان کے قریب کی زمین ترتھی۔ جو بارش کے پانی سے بھیگی ہوئی تھی۔ قریب میں ایک بچہ بھی کھیل رہا تھا۔ چارپائی کے سامنے اس معمر شخص کا گھر تھا جس پر ٹین کا پترا(شیڈ) رکھا ہو ا تھا۔ دیواروں پر چونا پوتا گیا تھا۔ بر سات کی وجہ سے دیوار کے نیچے کے حصے میں کائی جم گئی تھی۔ وہیں ایک ٹھیلہ بھی کھڑا ہو ا تھا۔ سامنے ایک مکان تھا جس کے پر ہندی زبان میں انگریزی اور کمپیوٹر سیکھئے کا پوسٹر بھی لگا ہوا تھا۔ یہ گاؤں بازار سے قریب تھا۔ پرانے لوگ اپنے تجر بے کے روشنی میں بتاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دس سال بعد یہ پورا علاقہ بھی بازار میں تبدیل ہو جائے گا ۔ پھر یہاں کوئی چارپائی نہیں بچھے گی بلکہ دکان ہوگی اور اس کے سامنے پلاسٹک کی کرسیاں بچھیں ہوں گی۔
سرراہ معمر شخص کو دیکھنے والے یہی کہتے تھے کہ یہاں سے ہر وقت گاڑیاں گزرتی ہیں ۔ نیند کیسے آتی ہوگی ؟ جب اس شخص سے یہ سوال پوچھا گیا تو اس کا کہناتھا، ’’جب یہ پورا علاقہ خالص گاؤں تھا تو اسی طرح لوگ کہیں بھی چارپائی ڈال کر بیٹھ اور سو جاتے تھے۔ کوئی خطرہ نہیں تھا۔ چار پائی بچھانے میں لوگ زیادہ سوچ بچارنہیں کرتے تھے۔ اب گاؤں اور بازار قریب آگیا ہے تو کیا ہو ا؟ میری جہاں تہاں چارپائی ڈالنے کی عادت نہیں گئی ہے۔ آج بھی باہر سو جاتاہوں، شروع میں گاڑیوں کا شور سنائی دیتا تھا۔ ہر شور پر اٹھ کر بیٹھ جاتے تھےمگر اب عادت ہوگئی ہے، کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ‘‘
اس معمرشخص کاکہناتھا، ’’ اتنی گرمی میں جائیں کہاں ؟ بہت دنوں کے بعدبارش ہوئی تو تھوڑا سکون مل گیا ہے، اسی لئے باہر چارپائی بچھالی ہے۔ ‘‘اس شخص نے بتایا، ’’ یہ دور ہی الگ ہے۔ میں اکیلے چارپائی ڈال کر سو جاتاہوں، کوئی پوچھنے نہیں آتا ہے، یوں ہی اکیلے پڑا رہتا ہوں۔ شام تک ایسا کوئی نہیں آتا جو چارپائی پر بیٹھنے کی خواہش ظاہر کرےاور ہم سے کچھ دیر باتیں کرے۔ ‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ پتہ نہیں یہ نسل بڑوں بوڑھوں سے اتنا کیو ں بھاگتی ہے؟ ہم اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے، کچھ نہ کچھ سکھاہی دیں گے، یہ ہمارے ہی بچے ہیں، ہوسکتا ہےکہ انہیں ہماری باتیں پسند نہ آتی ہوں لیکن ہم نوجوان تھے تواسکول جانے کا زیادہ رواج تھا نہیں، ایسی بڑے بوڑھوں کی محفلوں میں ہماری تربیت ہوتی تھی۔ ہم بہت کچھ سیکھتے تھے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: گرمی نے غضب ڈھایا تو درختوں، پودوں اور کچے آنگن کی یاد آنے لگی
واقعی ایک زمانے میں اس طرح چارپائی ڈال کر کسی کو تنہا تنہا سونے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ کوئی نہ کوئی آجاتا تھا اور اٹھ کر بیٹھنے پر مجبور کردیتا تھا۔ بڑے بوڑھے چارپائی کے بڑے حصےمیں پھیل کر بیٹھتے تھے اور چھوٹے ان کے احترام میں ایک حصے میں سمٹ کر بیٹھتے تھے۔ پھر وہ اپنے تجربات کی روشنی بہت سے قصے سناتے تھے۔ سن کے ساتھ بتاتے تھے۔ اس کالم نگار نے ایسی چارپائی پر بیٹھ کر ایک بزرگ سے یہ قصہ سنا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ فلاں سن میں فلاں اسکول کے میدان میں کشتی ہوتی تھی۔ اس کشتی میں اسی گاؤں کا ایک نوجوان سب پر حاوی تھا۔ دو چار گاؤں والے اسے ہرا نہیں پا تے تھے، بہت مضبوط تھا۔ روزانہ چار لیٹر دودھ پیتا تھا، بہت تگڑا پہلوان تھا۔ وہ نوجوان جب صبح صبح دوڑ تا تھا تو چار لوگ اسے دیکھتے تھے، گاؤں والے اس سے ڈرتے تھے۔ کوئی اس کے منہ نہیں لگتا تھا۔ ‘‘ ایسے ہی ان کے پاس جانے کتنے قصے ہوتے تھے؟ کچھ دیہی کہاوتیں ہوتی تھیں۔ اقوال ہوتے تھےجن کی مدد سے وہ نئی نسل کی تربیت کرتے تھے۔
گاؤں میں جا بجا چارپائی والی ایسی محفلیں بھی ہوتی تھیں جہاں دس بارہ چارپائیاں بچھائی جاتی تھیں۔ اس میں کوئی معمر شخص پرانے زمانے کے قصے سناتا تھا اور باقی چھوٹے بڑے اس کی بات انتہائی دھیان کے ساتھ سنتے تھے۔ کوئی بیچ میں بولتا نہیں تھا۔ سوال بھی نہیں پوچھتا تھا۔ اس محفل میں کبھی کبھا ر پردیسی بوڑھے بھی آجاتے تھے۔ وہ سنگاپور، ملائیشیا اور بر ما کے قصے سناتے تھے۔ وہاں کی تہذیب وثقافت کے بارےمیں بتاتے تھے۔ پردیس کے رسوم و رواج اور شادی بیاہ سے متعلق بھی نئی نسل کو بتاتے تھے۔ کچھ اپنے سمندری جہاز کے سفر کی روداد دلچسپ انداز میں بتاتے تھے۔ وہاں کام کرنے میں کیا کیا دقتیں ہوتی تھیں ؟ یہ بھی بتاتے تھے۔
چارپائی والی محفلوں میں بہت سے قصے چھڑ تے تھے۔ قصے کہانیاں بھی سنانے کا رواج تھا۔ کوئی موضوع نہیں ہوتا تو گاؤں والے بھینسوں اور بکریوں ہی کا قصہ چھیڑ دیتے تھے۔ اس کے بعد کچھ لوگ بتاتے کہ فلاں سن میں میرے پاس ایک ایسی بھینس تھی جو بہت سار ادودھ دیتی تھی۔ دو نوں ٹائم بالٹی بھر بھر کے دودھ دیتی تھی اور جانے کیا کیا ؟
اسی طرح آج کی طرح مویشیوں کے علاج معالجے کیلئے ڈاکٹر نہیں ہوتے تھے۔ گاؤں کے بڑے بوڑھےہی اس کا علاج بتاتے تھے۔ بھینس یا گائے کا علاج دیسی نسخے سے کیا جا تاتھا۔ یہ نسخہ جاننے کیلئے کسی بڑے بوڑھے کی چارپائی پر بیٹھنا ہی پڑ تا تھا۔ جہاں دو چار تجربے کار بوڑھے چارپائی پر جمع ہوتے تھے، وہیں بھینس یا گائے کے مرض کے بارےمیں بتایا جا تاتھا۔ اس کے بعد باری باری سب اپنے مشورے دیتے تھے۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد آخر میں کوئی ایک علاج طے کیا جا تا تھا اور اس طرح مویشی کا علاج ہوتا تھا۔