شام کا وقت تھا، بر سات کا موسم تھا لیکن بار ش نہیں ہورہی تھی، ہوا کے خوشگوار جھونکے چل رہے تھے۔ گاؤں دیہات کے ایک بازار میں زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔
EPAPER
Updated: June 12, 2024, 2:53 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
شام کا وقت تھا، بر سات کا موسم تھا لیکن بار ش نہیں ہورہی تھی، ہوا کے خوشگوار جھونکے چل رہے تھے۔ گاؤں دیہات کے ایک بازار میں زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔
شام کا وقت تھا، بر سات کا موسم تھا لیکن بار ش نہیں ہورہی تھی، ہوا کے خوشگوار جھونکے چل رہے تھے۔ گاؤں دیہات کے ایک بازار میں زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔ سڑک پر ایک ٹیمپو والا (آٹورکشا) کھڑا تھا۔ سواری کا انتظار کر رہا ہے۔ اس کے سامنے ایک جانور بھی کھڑا تھا۔ گاؤں دیہاتوں کے بازاروں میں اب سواری کیلئے آٹو رکشا والے ہی رہ گئے ہیں۔ وہ بھی خاموشی سے کھڑے رہتے ہیں ، ذرا بھی شور نہیں کرتے ہیں ۔ مسافر کے قریب جاکر پوچھنے پر بتاتےہیں کہ وہ کہاں کی سواری لے جارہے ہیں ؟
ایک زمانہ تھاجب گاؤں دیہاتوں کے بازاروں میں پچیس تیس کلومیٹر کی سواری کیلئے کمانڈر یا جیپ ہی چلتی تھی۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے کہتےہیں کہ ان گاڑیوں میں بھوسے کی طرح سواری بھری جاتی تھی۔ پانچ کی جگہ پندرہ سواریاں بٹھائی جاتی تھیں۔ اس میں بٹھانے والے کا بھی کمال ہوتا تھا۔ وہ اس کے ماہر ہوتے تھے۔ ان کے سامنے سے جو بھی گزر تا تھا، وہ اس کا راستہ روکتے تھے، ہر کسی سے سوال کرتے تھے۔ ہر آنے جانے والے شخص سے پوچھتے تھے کہ کہاں جانا ہے؟ اس پر لوگ صاف صاف نہیں بتاتے تھے۔ ان سے جان چھڑانے کیلئے آگے بڑھ جاتے تھے۔ سب کی خواہش ہوتی تھی کہ جو گاڑی بھر گئی ہے یا جس کی سواری پوری ہوگئی ہے، اسی میں بیٹھ جائیں تو وقت بچے گا، جلدی پہنچ جائیں گے، انتظار بھی نہیں کرنا ہوگا۔
اگر کوئی غلطی سے کسی کو بتادیتا کہ فلاں جگہ جاناہے تو گاڑیوں کے کئی کئی کھلا سی ( کلینر ) اس کی طرف لپکتے تھےاور اسے ہاتھ پکڑ کر بعض دفعہ ہاتھ جوڑ کر اپنی گاڑی میں بٹھا دیتے تھے اور اسے یقین بھی دلاتے تھے کہ بس چل رہے ہیں ، زیادہ وقت نہیں لگےگا، دوسواری اور باقی ہے۔ بعض دفعہ مسافر کے ساتھ دھوکہ بھی ہوجاتا تھا کہ وہ جس گاڑی میں بیٹھتے تھے، اس میں کوئی نہیں ہوتا تھا، وہ پہلے مسافر ہوتے تھے اور پھر کھلاسی اسے اپنی باتوں میں الجھا کر رکھتا تھا۔ کہیں جانے ہی نہیں دیتا تھا۔ سچ پوچھئے تو گاہک بھگوان ہوتا ہے اسےگاڑی والے ہی اپنی اداؤں سے ثابت کرتے تھے۔ سواری بٹھا نے کیلئے ہر حربہ اپناتے تھے اور میٹھے سے میٹھا بولتے تھے۔
اس زمانے میں ہر گاڑی کا کھلاسی لگاتار بولتا اور چلاتا تھا۔ وہ ایک پل کیلئے بھی کھڑ ا نہیں ہوتا تھا۔ پلک بھی نہیں جھپکاتا تھا۔ ہر وقت اس کی نظر اپنی سواری پر رہتی تھی یا یوں کہیں کہ شکار پر رہتی تھی۔ ہر کھلا سی کے چلانے کا انداز منفرد تھا۔ کچھ شاعرانہ انداز بھی اپناتے تھے۔ اس کالم نگار کو اعظم گڑھ کے ایک علاقے کا یہ جملہ یا دہے، ’’ چلا بھیا پھولپور انباری..چارآنہ سواری۔ ‘‘ اس کالم نگار کے بچپن میں جب بچے گاڑی والا کھیل کھیلتے تو یہی جملہ دہراتے تھے۔ حالانکہ کالم نگار نے چارآنہ سواری کا دور نہیں دیکھا ہے۔ یہ بہت پہلے کا قصہ ہے لیکن اب تک گاؤں والوں کے ذہن میں محفوظ ہے۔
گاؤں والوں نے کئی دور دیکھے ہیں ۔ جب آمدور فت کے ذرائع بالکل نہیں تھے تو گاؤں کے لوگ پیدل ہی چلتے تھے۔ کچے راستے ہوتے تھے۔ ننگے پاؤں چلتے تھے۔ بر سات میں چلنا دشوار ہوتاتھا، پھر بھی لوگ اپنی منزل تک پہنچتےتھے۔ اس دورکے بعد سائیکل آئی، کھڑنجے بنے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے نقل وحمل کے ذرائع بڑھے، پکی سڑکیں بنیں۔ گاؤں والوں کی اجتماعی سواری کا سب سے مشہور اور روایتی ذریعہ اکا ( یکہ) تھا۔ اب گاؤں دیہاتوں کی سڑکوں پریہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ اس کے بعد طویل دوری کیلئے جیپ اور کمانڈر کی سواری آئی۔ اس سے لوگ کورٹ کچہری اور ہاٹ بازار جانے لگے۔ اس وقت سب کی سواری یہی تھی۔ ذاتی سواری کی سہولت سب کے پاس نہیں تھی، چند ہی لوگ سائیکل استعمال کرتے تھے، اکا دکا لوگ بائیک وغیرہ چلاتے تھے۔ ایک دور میں گاؤں والے سواری کیلئے سب سے زیادہ انحصار جیپ اور کمانڈر ہی پر کرتے تھے۔ اسلئے اس کی ساری دشواریوں کو برداشت کرتے تھے۔ پانچ کی جگہ پندرہ لوگ ٹھونس ٹھونس کر سواری گاڑیوں میں بھرے جاتے تھے۔ اسی میں شور بھی ہوتا تھا۔ بچے روتے تھے، دنیا جہاں کی باتیں ہوتی تھی۔ ہنسی مذاق بھی ہوتاتھا، کھیتی کسانی کی باتیں بھی ہوتی تھی۔ بتاتےہیں کہ سردیوں میں یہ سفر بہت آرام دہ ہوتا تھالیکن گرمیوں میں برا حال ہو جاتا تھا، اندر بیٹھنے والا پسینے سے شرابور ہوتا تھا۔ گرمی سے بے حال ہو جاتا تھا۔ لوگ اپنے گمچھے کو جھلتے تھے۔ اسی سے راحت حاصل کرتے تھے۔
اس طرح سفر کرنے میں حادثات کا بھی ڈر رہتاتھا، کیونکہ کھلاسی ہمیشہ گیٹ ہی پر بیٹھتاتھا، وہ گاڑی کے باہر ہی رہتاتھا۔ ایک دو نوجوانوں کو بھی گیٹ پر بٹھا دیتا تھا جنہیں اپنی جوانی کی لاج رکھنے کیلئے گیٹ پر بیٹھنا ہی پڑتا تھا۔ اگر کوئی نوجوان وہاں بیٹھنے سے منع کرتا تھا تو بڑے بوڑھے اسے بزدلی کا طعنہ دیتے تھے۔
اس دور میں سب کچھ بدل گیا ہے اب گاؤں میں گھر گھر میں بائیک ہوگئی ہے، بہت کم لوگ سواری گاڑی کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی لئے بازاروں میں جا بجا ٹیمپو کھڑے رہتے ہیں اور اس میں سواری بھی زیادہ نہیں بٹھائی جاتی ہے۔ اس دور میں الیکٹرک رکشے والےتو ایک سواری ہی لے کر بڑھ جاتے ہیں۔