• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

قلم بنانے کی کوشش میں کئی باراُنگلیاں کٹتی تھیں، گویاخوش خط تحریر کیلئے خون کا نکلنا شرط تھا

Updated: August 12, 2024, 4:47 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

آج بات کرتے ہیں سَرپت کی۔ وہی سَرپت جس کے چھپر کے نیچے گرمی کی دوپہریا کٹتی تھی اوراسی جگہ سردی کی طویل راتیں بھی گزر جاتی تھیں۔

Some of the Sarpat plants on the banks of Sai River look beautiful after they flower in October, November. Photo: INN
سئی ندی کے کنارے موجودسرپت کے پودے ، اکتوبر، نومبر میں پھول نکلنے کے بعد کچھ اس طرح سے خوبصورت نظر آتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

آج بات کرتے ہیں سَرپت کی۔ وہی سَرپت جس کے چھپر کے نیچے گرمی کی دوپہریا کٹتی تھی اوراسی جگہ سردی کی طویل راتیں بھی گزر جاتی تھیں۔ وہ سَرپت جس کی مونجھ کی چارپائی پر سوکر بڑے ہوئے اور سب سے اہم کی جس کے ’سیٹھا ‘کے قلم سے لکھنا سیکھا۔ درجہ اول میں ماسٹرمحمد عباس (مرحوم)پہلے دن خود اپنے ہاتھ سے ’سیٹھا‘ کا قلم تراش کر کےبچوں کو دیتے تھے اور بچے لکڑی کی تختی پر’ الف ب‘ لکھنے کی مشق کرتے تھے۔ یہ بچے پہلی بار جب سیٹھا کا قلم بناتے تو اکثر ان کی انگلیاں زخمی ہو جاتیں، خون نکلنے لگتا، اچھا قلم بنانے کی کوشش میں  کئی کئی بار انگلیاں کٹتیں، تب کہیں  جاکر لکھنے لائق قلم تیار ہوتا۔ گویاخوش خط تحریر کیلئے خون نکلنا شرط تھا۔ 
اکتوبر کا مہینہ تھا’سئی‘ ندی کے پُل سے گزر ہوا، پورب سے چلنے والی ہوا کے جھونکے میں سَرپت کے پھول جھوم رہے تھے، ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے آپس میں سرگوشیاں کررہے ہوں۔ رات کا وقت تھا، سیاہ آسمان میں تارے ٹمٹما رہے تھے، ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ سرپت کے سفید پھولوں  کی شکل میں زمین پر بچھ گئے ہوں۔ بہت ہی دلکش منظر تھا۔ ساون کب کا جا چکا تھا اور جاتے جاتے سئی ندی کو سیراب کر گیاتھا۔ ندی کاپانی روا نی کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ ندی کے اُس پار باغ سے اچانک پپیہا جیسی پرسوز آواز کانوں سے ٹکرائی تودل نے چاہا کاش ساون پھر سے برس پڑے اور زندگی کی رفتار ٹھہر جائے۔ اتنے میں  ٹرک کے تیز ہارن نےندی کے پُل پر رینگتی بائیک کی رفتار دُگنی کردی۔ اب سڑک کے درمیان پڑنے والی سَرپت کی جھاڑیوں سےہم گزر رہے تھے، لیکن تیز ہوا کے ساتھ چہرے سے ٹکرانے والے سَرپت کے پھول گویا کہہ رہے ہوں ..ٹھہرو ذرا ٹھہرو ..ابھی کچھ دیر اور ...

یہ بھی پڑھئے:شادیوں میں کھانا پکانے کی ذمہ داری ’نائی‘ کی ہوتی تھی، وہ کھانا اچھا پکاتے تھے

سَرپت کے پھول پکنے کے بعد جھاڑ سے جدا ہوکر ہوا میں  اُڑنے لگتے ہیں، بچے اس کا پیچھا کرتے ہوئے دور تک دوڑ لگاتے اور جب کہیں  سفید پھول کاگچھا ہاتھ میں آجاتا توزو ر کا شور اُٹھتا تھا...بوڑھی دادی کا بال ہمیں مل گیا اور بڑے ہی فاتحانہ انداز میں اپنے ساتھیوں کو دِکھاتےکہ میں  نے کیسے اُچھل کر کیچ کیا ہے۔ گائوں کے لوگ اس کی لکڑی یعنی سیٹھا جب پک جاتا تو اسے کاٹ لیا کرتےتھے۔ اُس لکڑی کا استعمال چھپر بنانے، ٹاٹی تیار کرنے (پھوس کا پردہ )میں ہوتا تھا۔ پھول نکلنے سے قبل گائوں کی خواتین اس کی کلیاں توڑ کر لاتیں اور ان کو سکھا کر ان میں چیرا لگا کے بلّے بناتیں پھر اس سے خوبصورت ڈیلری، مَونی، سکہولی ، ڈولچی اور روٹی رکھنے کی ڈلیا وغیرہ تیار کرتی تھیں۔ دستکاری کی ماہر خواتین اس میں ایسی پھول پتیاں نکالتیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ کام اب گائوں میں کافی کم ہوگیا ہے لیکن بازار میں سڑکوں کے کنارے اب بھی خواتین کوڈولچی تیارکرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے لیکن یہ چیزیں جو گھروں میں معمولی محنت سے تیار کر لی جاتی ہیں اب انہیں بڑی قیمت دے کر خریدنا پڑتا ہے۔ پہلے گائوں میں خواتین کا ایک گروپ ہوتا تھا جس میں کوئی مونی بنانے کی ماہر تو کسی کو اچھی ڈَیلری(گائوں میں تیار ہونے والا باسکٹ) بنانا آتا تھا۔ انہیں  کےساتھ بیٹھ کر لڑکیاں بھی یہ ہنر سیکھ لیتی تھیں۔ ویسے ڈیلری بانس سے تیار کی جاتی ہے، سرپت سے مَونی بنتی ہے لیکن گائوں کے لوگ اسے ڈیلری بھی کہہ دیتے ہیں۔ دستکاراور با ہنر خواتین کی باتیں  اب پرانی ہوئیں۔ اب نئی نسل کے ہاتھوں میں موبائل ہے، ڈیلری کی جگہ اب وہ ریل بناتی نظر آتی ہیں۔ 
سَرپت کے پھول کھلنے کے بعد اس کی سینک توڑی جاتی تھی اس سے ہاتھ کا پنکھا (بینا)تیار کیا جاتا تھا، ان سینکوں کو بیچ سے کاٹ کرا لگ کر کے پانی میں بھگو دیا جاتا تھا پھر بیلن سے رگڑ کر اس کو چِپٹا کیاجاتا تھا۔ چھری سے چھیل کر اس کی صفائی ہوتی تھی۔ پھر ایک کڑاہی میں اپنی پسند کا رنگ گھول کر اسے اُبالتے تھے اور اُبلتے رنگ میں ان بلّوں کو رنگا جاتا تھا پھر ان سے اپنی پسند کی ڈیزائن کا پنکھا تیار کیا جاتا تھا۔ انہیں سینکوں ہی سے سوپ (جس سے چاول دال وغیرہ صاف کی جاتی ہے) اور کھلونے کی ٹوکری وغیرہ تیار کی جاتی تھی۔ 
سرپت ہی سے مونجھ کا بادھ (چار پائی بننے والی پتلی رسی) بھی تیار ہوتی تھی۔ سَرپت کے اندر سے گانسا نکال کر سکھایا جاتا پھر اسے بھگوکر اس کا بادھ بنایا جاتا تھا۔ اسی سے کونچی تیار ہوتی تھی جو دیوار کی پتائی کے وقت آج کے برش کے طور پر استعمال ہوتی تھی اور گھرکی عورتیں چکی پیسنے کے بعد اسی کونچی سے چکی کے آس پاس پھیلا آٹا سمیٹی تھیں۔ اس بادھ کی قیمت معمولی ہوا کرتی تھی چنانچہ گائوں والوں کی یہ پہلی پسند تھا۔ اب اس کا استعمال کافی کم ہوگیا ہے۔ اب لوگ سوت کے بادھ سے چار پائی تیار کراتے ہیں۔ 
 سَرپت بہت گھنا ہوتا ہے چنانچہ اکثر تیتر، بٹیر اور مور شکاریوں سے بچنے کیلئے یہیں چھپ جاتے تھے۔ اسکول جانے والے بچے کھیتوں سے توڑا ہوا گنّا یہیں چھپا دیا کرتے تھے اور بطور نشانی اس جگہ پر گانٹھ با ندھ دیتے تاکہ اسکول سے واپسی کے دوران تلاش کرنے میں  مشکل نہ ہو۔ ابھی چارپائی کا ذکر ہو رہا تھا تو یاد آیا ...ہمارے یہاں ایک مہمان جھارکھنڈ سے آئے ہوئے تھے۔ گرمی کی چھٹیاں چل رہی تھیں ... باغ میں کچھ بچے چار پائی ڈالے باتیں کررہے تھے...اتنے میں  وہ پہنچے اور بولے ..’اٹھو اٹھو کھٹیا کھڑا ہوگا‘...یہ سننا تھا کہ بچے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے ...اور پھر جب بھی ایسا کوئی موقع آتا تو یہی کہتے کہ ...’اٹھو اٹھو کھٹیا کھڑا ہوگا۔ ‘ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK