گاؤں میں اُس وقت بیل، بھینس اور گھوڑے گھر کی شان ہوا کرتے تھے۔ اچھی نسل کے جانور سے لوگوں کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔
EPAPER
Updated: August 04, 2024, 5:08 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
گاؤں میں اُس وقت بیل، بھینس اور گھوڑے گھر کی شان ہوا کرتے تھے۔ اچھی نسل کے جانور سے لوگوں کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔
گاؤں میں اُس وقت بیل، بھینس اور گھوڑے گھر کی شان ہوا کرتے تھے۔ اچھی نسل کے جانور سے لوگوں کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ چنانچہ ایسے لوگ جن کے پاس یہ جانور نہیں ہوتےیا ان کے دروازے پر بندھے جانور کمزور ہوتے تو وہ اپنے پڑوسیوں کے صحتمند جانور لاکر گھر کے سامنے باندھ دیا کرتے تھے، جس سے ان کی حیثیت بڑھ جاتی تھی۔ اس وقت گائوں میں آنے والے مہمانوں کا لوگ بڑا خیال کرتے تھے۔ بارات میں دولہے کے ساتھ جو لوگ گائوں آتے تھے، میزبان کے علاوہ گائوں کے دوسرے لوگ بھی ان کی خوب آئو بھگت کرتے تھے ...ایسے مہمان گائوں کے کسی بھی باغ سے پھل توڑ کر کھا سکتے تھے۔ اس روز ان کیلئے کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی تھی۔
پرتاپ گڑھ سے الٰہ آباد جانے والی ایک بارات کا قصہ بھی سنئے... بڑے دھوم دھام سے پرتاپ گڑھ سے چل کر بارات الٰہ آباد پہنچتی ہے۔ گائوں کے لوگ باراتیوں کی خوب خاطر تواضع کرتے ہیں۔ گرمی کے دن تھے دوپہرکا وقت تھا ...ناشتے کی دیگر اشیاء کے ساتھ انہیں شربت پیش کیا گیا ...جھلسا دینے والی گرمی میں روح افزا کا شربت ہر کسی کو پسند آیا لیکن صاحب!دوسری بار جس نے بھی مانگا گویا اس کی شامت آگئی ...وہ شربت جس نے بھی پیا تھوڑی دیر بعد اس کو گنگا کا رُخ کرنا پڑا اوروہ ٹھیک حالت میں واپس نہیں آسکا۔ بتاتے ہیں کہ اس میں کوئی ایسی شئے ملائی گئی تھی جس سے سبھی کےپیٹ خراب ہو گئے تھے۔ مذکورہ واقعہ سے بہت دنوں تک لوگوں نے الٰہ آباد کی طرف جانے والی بارات میں شرکت کرنے سے گریز کیا۔ کئی بار تو ایسا ہوا کہ دولہا لے کر چند ہی لوگ پہنچے۔ اس وقت کی شادیوں میں اس طرح کے واقعات عام تھے۔ باراتی تو باراتی لوگ دولہے کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ پان کے اندر مرچیں ملا کر دے دی جاتیں۔ سمجھئے اس وقت یہی لوگوں کا حس مزاح اور تفریح کا ذریعہ تھا۔
یہ بھی پڑھئے:گاؤں کی باتیں:شادیوں میں دانا چنتی ہوئی لڑکیاں جتنی مصروف، اتنی ہی مسرور نظرآتی تھیں
شادی کی تقریب میں کھانا پکانے کی ذمہ داری نائی ہی کی ہوتی تھی وہ دوسرےکاموں کے ساتھ کھانا بھی اچھا پکاتےتھے۔ اب بھی کچھ پرانے نائی یہ کام بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ شادی میں مہمانوں کو ناشتہ دینا، کھانا کھلانا اور ان کا ہر طرح سےخیال رکھنے کی ذمہ داری گائوں کے کچھ نوجوانوں کی ہوتی تھی، لیکن اب رفتہ رفتہ بہت کچھ بدلتا جا رہا ہے ا ب تو شہروں سے باقاعدہ ویٹر بلائے جانے لگے ہیں۔ گائوں کے یہ نوجوان اپنےکام میں منجھے ہوتے تھے۔ ان نوجوانوں کو صبح کلیجی اور نان کا ناشتہ کرا دیا جاتا تھا، پھر شادی میں آنےوالے آخری مہمان کو کھلا دینے کے بعد ہی ان کو کھانا نصیب ہوتا تھا۔ کھانا پکانے کے دوران گائوں کے کچھ بزرگ کھانا چکھتے تھے اور نائی کو بتاتے تھے کہ اس میں فلاں مسالہ کم ہے یا پھر یہ کہ تیل زیادہ ڈال دیا ہے۔ وقفے وقفے سے اس طرح کی ہدایات جاری ہوتی رہتی تھیں۔ اس دوران نواجوانوں کی ٹولی بچوں کو چھیڑنے میں لگی رہتی، جیسےکوئی بچہ نیا نیاکپڑا پہن کر آتا... گائوں کے یہ شریر لڑکے اسے گھیر لیتے...برا سا منھ بنا کر کہتے یہ اچھا نہیں ہے... یہ تو پرانا معلوم ہو رہا ہے...اور بچہ روتے ہوئے سیدھے زمین پر لوٹ پوٹ ہوجاتا...کپڑے گندے ہو جاتے ...لڑکے سب قہقہے لگاتے....وہ روتے ہوئےاپنی ماں کے پاس جاتا اور کپڑے بدلنے کی ضد کرتا ...اس ضد میں کبھی کبھی اس بیچارے کی پٹائی بھی ہو جاتی تھی۔
مہینوں پہلے سے دعوت دینے کیلئے نائی تمام رشتہ داریوں میں دوڑا دیئے جاتے تھے۔ مئی جون کی دوپہرمیں وہ کوسوں دور سائیکل چلا کر دعوت دینےجاتے تھے۔ کچھ رشتہ داریاں اتنی دور ہوتی تھیں کہ وہاں تک دعوت پہنچانے میں ایک سے دو دن لگ جاتا تھا۔ جہاں پہنچتے پہنچے رات ہو جاتی تو پھر رات کاقیام کرکے صبح واپسی ہوتی تھی۔ دعوت دینے کا ایک دلچسپ قصہ بھی سنئے...پرتاپ گڑھ کے ایک گائوں میں ایک نائی ہوا کرتے تھے، ان کانام تھامنگرو... وہ دعوت پہنچانے کے دوران ایسی شرارت کر دیتے تھے کہ دعوت دینے والے کو کبھی کبھی بڑی شرمندگی اُٹھانی پڑتی تھی...منگرو خاص رشتہ داری جیسے خالہ، نانی یا پھوپھی کے یہاں دعوت دینے میں اپنی حرکت سے باز نہیں آتے تھے...ایسی جگہوں پر وہ دعوت لے کر اکثر رات میں پہنچتے تھے۔ رات بھر قیام کرتے ...شادی سے متعلق تفصیل بتاتے ... بھائی صاحب کے یہاں فلاں تاریخ کو بارات آرہی ہے... بارات میں الٰہ آباد سے درجن بھر گھوڑے بھی شامل کئے گئے ہیں ...پانچ سو باراتیوں کا بہترین انتظام کیا گیا ہے۔ آس پاس کے تمام گائوں میں وغیرہ دعوت دی گئی ہے۔ (وغیرہ دعوت کا مطلب ہوتا تھا پورا گائوں )اسی طرح منگرو پوری تفصیل بتاتے تھے کہ تین درجن دیگ اور پانچ ہزار پرئی(مٹی کا برتن) تیار کرنے کیلئے کمہار کو آرڈر دے دیا گیا ہے، وہاں دن رات کام چل رہا ہے۔ گویا رات بھر شادی سے متعلق ایک ایک تفصیل بتاتے اور صبح ہوتے وہاں سے رخصت ہو جاتے۔ شادی کے دن سارے مہمان نظر آتے لیکن اس خاص مہمان کا کہیں دور دور تک پتہ نہ ہوتا ...منگرو کو بلایا جاتا، ارے بھئی وہ بڑے پھوپھو کہیں نظر نہیں آرہے ہیں ...کیا ان تک دعوت نہیں پہنچی...منگرو کہتے صاحب کیسی بات کررہےہیں ؟ان کےیہاں ہم دعوت دینےگئے، رات بھر رُکے شادی سےمتعلق تمام تفصیل بتائی، آپ کے بڑے پھوپھا کو ہم کیسے بھول جائیں گئے؟ بات پھوپھو تک پہنچتی، ان سے شادی میں نہ آنے کی وجہ دریافت کی جاتی تو کہتیں کہ کون سی دعوت؟ پھر پتہ چلتا کہ منگرو نے ساری تفصیل تو بتائی لیکن دعوت دینا بھول گئے تھے۔