• Sat, 08 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں:سرسوں کےکھیت میں ’جنونی تصویر کشی‘ اورگاؤں کی تہذیب وثقافت کاپاٹھ

Updated: January 14, 2024, 1:59 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

 گزشتہ دسمبر کے آخری عشرے کا قصہ ہے۔ اتفاق سے اس دن موسم صاف تھا ، آسمان پر بادل کا ایک بھی ٹکڑا نہیں تھا، کہرے بالکل نہیں تھے۔

A beautiful evening in a mustard field. Photo: INN
سرسوں کےکھیت میں  ایک سہانی شام۔ تصویر : آئی این این

 گزشتہ دسمبر کے آخری عشرے کا قصہ ہے۔ اتفاق سے اس دن موسم صاف تھا ، آسمان پر بادل کا ایک بھی ٹکڑا نہیں تھا، کہرے بالکل نہیں تھے۔ سردی بھر پورتھی،ہواؤں میں نمی تھی اور تازگی بھی۔ سرسوں کے کھیتوں  میں  بہار آئی ہوئی تھی ، پیلے پیلے پھولوں والے سرسوں کےپودے ہوا کے ساتھ جھوم رہے تھے، بھلے لگ رہے تھے، رقص کررہے تھے۔ سردی اتنی زیادہ تھی کہ کان میں  بھی ہوا لگ رہی تھی۔ ایسے میں  کچھ پر دیسی سرسوں کے کھیتوں میں دوڑ رہے تھے، بھاگ رہے تھے، دل کھول کر ہنس رہے تھے، بہت مسرور نظر آرہے تھے، سب کے چہرے کھلے ہوئے تھے۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگا کہ ان پر سردی کا اثر نہیں  ہورہا ہے، کیونکہ اکثر کے کان کھلے ہوئے تھے۔ گرم لباس بھی اکا دکا ہی تھے۔ وہ الگ الگ زاویے سے تصویریں  لے رہے تھے۔ سیلفیاں کھینچ رہے تھے،گروپ میں  پوز دے رہے تھے۔ پردیسیوں نے۲۰-۱۵؍ منٹ تک موبائل کی گیلر ی کا پیٹ بھر ا جسے عام بول چال میں  گیلری ’فل‘ کرنا کہتے ہیں۔ کچھ گاؤں والے قریب سے تو کچھ چند قدم فاصلے سےپوکھری ( تالاب) کی پلیا پر بیٹھے اس’ جنونی تصویرکشی‘ کا لطف لے رہے تھے۔ تبصرے بھی کررہے تھے۔ 
اس کالم نگار نے ان سے بات چیت کی تو پتہ چلا کہ یہ پردیسی اسی گاؤں ہی کے ہیں ،فی الحال لکھنؤ رہتے ہیں۔ اس دن کار سے آئے تھے ، ان کی کار پاکڑ کے لمبے تڑنگے درخت کے قریب کھڑی تھی ، کچھ بچےباہر نہیں  نکلے تھے، کار ہی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پردیسیوں نے بتایا ہےکہ یہ کھیت ہمارا بھی ہے ، اب ہمارے چچا کا لڑکابوتا اور جوتتا ہے ، یعنی بوائی اور جتائی کرتا ہے۔ ہم کبھی کبھار آجاتے ہیں ، یہیں لکھنؤ رہ کر نہیں آپاتے ، کیا بتائیں ؟ کچھ بچے چار پانچ سال کے ہوگئے ہیں ، وہ پہلی بار اپنا کھیت دیکھ رہے ہیں جو بہت چھوٹے ہیں ، وہ کار سے نہیں اترے ہیں ، آپ دیکھ رہےہیں باقی سب بچے کھیت میں ہیں ،کتنے خوش ہیں؟
 تصویر کشی میں  مصروف نوجوانوں سے بات چیت ہوئی تو کہنے لگے کہ یہ فوٹو لکھنؤ لے جائیں گے ، ابھی پوسٹ نہیں کریں گے، پہلے اپنے اسکول اور کالج کے دوستوں کو دکھائیں گے، ان سے کہیں گےکہ یہ ہمارےسر سوں کے کھیت کی سیلفی ہے، کتنی پیاری ہے؟ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: دسمبر کی ایک شام: گیہوں کی سنچائی، ساگ کھوٹنے کی کلا ،آتی جاتی ہنسی

حیرت انگیز طور پر پر دیسیوں کا یہ قافلہ اپنے گھر نہیں گیا، چائے پانی بھی نہیں  کیا ، سب سے پہلے کھیت میں حاضری دی۔ سرسوں کا کھیت دیکھا تو کچھ دیر اور رک گئے ۔ایسے کتنے لوگ ممبئی ، دہلی اورحیدرآباد جیسے شہروں سے گاؤ ں پہنچتے ہیں اور پہلی فرصت میں اپنے کھیت کا درشن کرتے ہیں ؟ ممبئی شہر میں رہنے والے بہت سے نوجوان ایسے بھی ہیں  جو کھیت ویت جانا پسند نہیں  کرتے لیکن ان کے بڑے بوڑھے انہیں  وہاں ضرورلے کر جاتے ہیں بلکہ زبردستی لے جاتے ہیں، انہیں اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ ان کی یہ نسل پوری طرح شہر کی نہ ہوجائے ، اسی لئے وہ اپنی اس نسل کو گاؤں کی تہذیب وثقافت کا پاٹھ پڑھاتے ہیں ۔ انہیں  گاؤں کی ایک ایک چیز کے بارے میں بتاتے ہیں ۔ اپنے بچپن کے قصے سناتے ہیں ، اپنے دور کے کھیل کود کے میدان دکھا تےہیں ، وہ درخت دکھا تے ہیں جہاں وہ دوپہر کے وقت کھیلتے تھے ، اس تالاب کی بھی سیر کرواتے ہیں جہاں وہ گرمیوں کی دوپہر میں نہاتے تھے ، اس پل پر لے جاتےہیں  جہاں سے وہ ندی میں نہانے کیلئے چھلانگ لگاتے تھے ، کھیت میں لے جاکر پھاوڑا اور کدال بھی چلانا سکھاتے ہیں ۔زرعی آلات کے نام بھی بتاتے ہیں۔
  سنت کبیر نگر کے ہنڈیا گاؤں  کے ایک خاندان کے بچے ممبئی ہی میں  پلے بڑھےہیں لیکن اپنے والد کی توجہ اور کوشش سے اب تک گاؤں سے دور نہیں  ہوئے ہیں  ، وہاں کی روایات سے واقف ہیں ، کھیتی باڑی کے امور سے باخبر ہیں ، مویشی پالن کا بھی قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں ۔ اس گاؤں کا محمود احمدخان نامی نوجوان کسی زمانے میں  گاؤں  جا تا تھا تو بکریوں اور بھینسوں کے ساتھ گھل مل جاتا تھا، دیر تک ان کے ساتھ کھیلتا تھا ۔ اس کےوالد بتاتےہیں، ’’ میرا بیٹا غالباً پانچ سال کا رہا ہوگا ،میرے ساتھ گاؤں گیا ہو اتھا ، بکری کے بچے گود میں اٹھالیتا تھا، میرے والد یعنی اس کے داد ا بھینس پالےہوئے تھے، اسے پابندی سے چراتے تھے ، نہلاتے دھلاتے تھے۔ میر ابیٹا روزانہ ان کے ساتھ جاتا تھا ، وہاں جا کر ہری ہری گھاس پر سو جاتاتھا۔ وہ چرانا نہیں  کہتاتھا، چلانا کہتا تھا۔ جیسے ہی بھینس چرانے کا وقت ہوتا تھا،میرے والد سے کہتاتھا: دا دا چلئے بھینس چلانے ۔اس پرسب خوب ہنستے تھے۔ ‘‘
 ان کے بیٹے کی طرح ان کی بیٹی قدسیہ کو بھی گاؤں کی تہذیب و ثقافت سےلگاؤ ہے۔ وہ بی ایس سی کرچکی ہے ، بی ایڈ کررہی ہے۔ اس کے والد کہتے ہیں ، ’’میں اپنی بیٹی کو اپنے کھیت  لے جاتا تھا۔ اس کا موضوع سائنس تھا ، اس لئے اس سے کہتاتھاکہ سائنس میں جو تم پڑھ چکی ہو، چلو تمہیں اسے عملی طور پر کر کے دکھاتا ہوں۔ پھرمیری نگرا نی میں وہ اپنے ہاتھوں  سے آلو بو تی تھی، گنے کی بھی بوائی کرتی تھی۔ اپنے کھیت میں  مکئی کے بیج بھی ڈالتی تھی۔ یہ سب کرکےاس کی خو شی کا ٹھکانہ نہیں رہتا تھا۔ ‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK