نومبر گزر گیا لیکن نومبر کی سردی دور دور تک محسوس نہیں ہوئی۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کے نومبر کو یاد کریں تو انہی دنوں میں سویٹر، جیکٹ، لحاف اور کمبل سے بھرپورسردی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔
EPAPER
Updated: December 15, 2024, 3:58 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
نومبر گزر گیا لیکن نومبر کی سردی دور دور تک محسوس نہیں ہوئی۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کے نومبر کو یاد کریں تو انہی دنوں میں سویٹر، جیکٹ، لحاف اور کمبل سے بھرپورسردی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔
نومبر گزر گیا لیکن نومبر کی سردی دور دور تک محسوس نہیں ہوئی۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کے نومبر کو یاد کریں تو انہی دنوں میں سویٹر، جیکٹ، لحاف اور کمبل سے بھرپورسردی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ صبح و شام کی سردی میں کوئی ہلکا گرم کپڑا پہن لیا، ورنہ دن کی تیز دھوپ بھولے سے بھی احساس نہیں کراتی کہ یہ گزرنے والا ماہ نومبر تھا۔ ایک وقت تھا جب اکتوبرکے وسط تک گھر کی خواتین ہرا نمک کانچ کے برتن میں پیس کر رکھ لیتی تھیں کہ دوپہر کو چھت پر بیٹھ کر لیموں اور آنولے کےساتھ کھانے کے دن آگئے۔ نومبر کی نرم دھوپ میں بیٹھ کر خواتین سویٹر بُنتی تھیں۔ آج کی تاریخ میں کس کے بس کی بات ہے کہ کچھ دیر اس دھوپ میں بیٹھ سکیں۔ پالک اور سرسوں کی ہری سبزیوں کے ساتھ راجما، اُڑد، چنااور مٹر جیسی موٹی دالیں کھانے اور ہضم کرنے کا سردیوں کاموسم ہی بہتر ہوتا ہے، لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ دھنئے کی خوشبودار چٹنی اور گھی کے ساتھ باجرے کی روٹی کھانے کا موسم ہی کہیں بھٹک گیا ہے۔
نومبر میں جب کسان گیہوں کی بوائی سے قبل کھیت میں پانی بھرنے کیلئے نکلتے تھےتواس وقت اتنی سردی ہوتی تھی کہ انہیں شال اوڑھنا پڑتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ وہ ایک معمولی ٹی شرٹ میں بھی نکل جاتے ہیں جیسے کہ مارچ کا مہینہ ہو۔ اس وقت گائوں میں گنے کی سینچائی کا کام بھی تیزی سے ہورہا ہے۔ کسانوں کاگنا سینچنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کا وزن بڑھے اورقیمت زیادہ ملے۔ چنانچہ وہ چینی مِل کا چکر لگا رہے ہیں کہ وہ کب سے چلے گی۔ گنا سے گڑ بنانے والے کاشتکار اپنا کولہو ٹھیک کرا رہے ہیں۔ ہمارے علاقے کےکاشتکار صمد بھائی بتا رہے تھے کہ اس بار چینی مل کے دھکے نہیں کھائیں گے، گھر پر ہی خالص دیسی گُڑ تیار کریں گے۔ دھان تیار ہو گیا تھا، اسے فروخت کرکے گیہوں کا بیج اور کھاد وغیرہ خرید لیا ہے۔ رجو چچا کہنے لگے کہ میاں صمد جلدی کرو ورنہ گیہوں کی بوائی میں پچھڑ جائو گے، کسانی کے کام میں وقت کی پابندی بہت ضروری ہے۔ اس کا اثر پیداوار پر پڑتا ہے۔ انہوں نے سمجھاتےہوئے کہا۔ چند لمحے کی خاموشی کے بعد پھر گویا ہوئے...کہنے لگے مہوے کے باغ کے پاس جو کھیت خالی پڑا ہے اس میں آلو، پیاز اور لہسن لگا دو۔ دیکھ رہےہو اس بار قیمتیں کہاں پہنچ گئی ہیں۔ لہسن تو چار سو روپے کلو بازار میں مل رہاہے۔ پیاز کی قیمتیں بھی آسمان چھو رہی ہیں۔ یہ آلو جسے ہم پڑوسیوں اور رشتہ داریوں میں بانٹ دیا کرتے تھے، اب اس کے بھی بھائو بڑھ گئے ہیں۔ ان کی باتوں کو دھیان سے سنتے ہوئے رجو چچا بولے...آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں بھائی صاحب ...اس بار ہم نےتین بسوا آلو صرف گھر کے استعمال کیلئے الگ سے بو دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:’بھار‘ پہلے ہر گاؤں میں نظر آتے تھے لیکن اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے
گائوں میں ٹریکٹر والوں کا اس وقت بڑا جلوہ ہے۔ صبح ہونے کے ساتھ دیر رات تک کسان ان کو تلاش کررہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ان کو فون رسیو کرنے کی فرصت نہیں ہے۔ کسی کو دھان کُٹوانے کی جلدی ہے اور کوئی ان سے گیہوں کی بوائی کیلئے کھیت کی جُتائی کرانا چاہتا ہے لیکن ٹریکٹر والے ہیں کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ بڑی لمبی ویٹنگ ہے۔ گویا ایک انار سو بیمار والی صورت ہے۔ جس گائوں میں پہنچ جا رہے ہیں، وہاں سے ان کا نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگ پہلے میرا پہلے میرا کی رٹ لگائے ہیں۔
کھیت جُتائی پر یاد آیا کہ پہلے گیہوں کی بوائی کے بعد اس کو’ ہینگایا‘ جاتا تھا۔ ’ہینگا ‘لکڑی کا ہوتا تھا، درخت کے موٹے تنے سے اسے بڑھئی بناتے تھے۔ وہ ٹریکٹر کےپیچھے لگایا جاتا تھا جس سے کھیت کی مٹی برابر ہو جاتی تھی اور بیج مٹی کے نیچے دب جاتا تھا۔ ’ہینگا‘ جب کھیت میں چلتا تھا تو اس کے پیچھے ایک سے دو لوگوں کو بٹھایاجاتا تھا تاکہ وزن ہونے سے مٹی اچھی طرح بیٹھ جائے اور لیول میں آ جائے۔ اس کام کیلئے بچے پیش پیش رہتے تھے۔ ان کو ’ہینگا ‘پر بیٹھنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ کھیت میں جُتائی کے دوران اِدھر اُدھر ٹہلتے رہتے تھے کہ کب ’ہینگائی‘ ہو اور وہ ’ہینگا ‘پر بیٹھیں۔ ہینگا پر بٹھانے کے وعدے پر بچے گھر کاکام خوشی خوشی کر تے تھے۔ ’ہینگا‘ کا ذکر آیا تو ’براری‘ کے بارے میں بھی بتاتا چلوں کہ یہ موٹی رسی ہوتی تھی جس میں ’ہینگا‘ باندھ کر بیلوں سے کھیت کو ’ہینگایا‘ جاتا تھا۔ آج کی جدید تکنیک میں ’ہینگا ‘کا کام تقریباً ختم ہو گیا ہے۔
بات نومبر کی سردی سے شروع ہو ئی تھی۔ نومبر آیااور ۳۰؍ گزار کر رُخصت بھی ہو گیا لیکن سردی کا احساس نہیں کرا سکا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے درجۂ حرارت بڑھتا جا رہا ہے جس کے باعث سردیوں میں سردی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ درجہ حرارت میں اضافے کی ایک وجہ گاؤں کی’ شہری کاری‘ بھی ہے۔ کنکریٹ کی سڑکیں بڑھنے سے جہاں جنگلات کم ہو گئے ہیں، وہیں درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔ اب گائوں بھی اس سے اچھوتا نہیں رہا۔