• Fri, 07 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں: کہرےکی دبیز چادر، خاتون خانہ کی چھت اور آنگن کی نئی پرانی محفلیں

Updated: January 21, 2024, 4:35 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

جنوری کادوسرا عشرہ ہے، پوروانچل میں سردی شباب پر ہے۔ ہفتے عشرے سے سورج کا دیدار ہی نہیں ہورہا ہے، دن بھر کہرے کی دبیز چادر تنی رہتی ہے، شام تک سورج اپنی جھلک دکھانے کیلئے بےچین رہتا ہے، کسی اوٹ سے جھانکنے کی کوشش کرتا ہے، بہت اوپر نیچے ہونے کے بعد کبھی کبھار کامیاب بھی ہوجاتا ہے مگر ادھر آیا، ادھر گیا۔ ’ آیا اور گیا‘ اس لئے کہ اسے ’نکلنا اور ڈوبنا ‘نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ یہ باضابطہ عمل ہے۔

As soon as the sun comes out in winter, the activities of the farmers increase. Photo: INN
سردیوں میں دھوپ نکلتے ہی کسانوں کی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔ تصویر : آئی این این

جنوری کادوسرا عشرہ ہے، پوروانچل میں سردی شباب پر ہے۔ ہفتے عشرے سے سورج کا دیدار ہی نہیں ہورہا ہے، دن بھر کہرے کی دبیز چادر تنی رہتی ہے، شام تک سورج اپنی جھلک دکھانے کیلئے بےچین رہتا ہے، کسی اوٹ سے جھانکنے کی کوشش کرتا ہے، بہت اوپر نیچے ہونے کے بعد کبھی کبھار کامیاب بھی ہوجاتا ہے مگر ادھر آیا، ادھر گیا۔ ’ آیا اور گیا‘ اس لئے کہ اسے ’نکلنا اور ڈوبنا ‘نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ یہ باضابطہ عمل ہے۔ نکلا ہوا سورج پوری طرح دکھائی دیتا ہے، اس کی کرنیں بکھر جاتی ہیں، چاروں طرف پھیل جاتی ہیں، اس وقت سورج سے آنکھ ملانا مشکل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب سورج پوری طرح نکلے گا نہیں تو ڈوبے گا کیسے؟ 
 سورج کے اس طرح آنے جانے سے یا یوں کہیں کہ چند لمحے کی مہمانی ہی سے ٹھنڈ شباب پر ہے۔ کیا چھوٹے کیا بڑے؟ کیا بچے کیا بوڑھے ؟ سب کی حالت پتلی ہے۔ سب گھروں میں دبکے رہتے ہیں۔ کوئی بھی باہر نکلنے کی ہمت نہیں کر رہا ہے۔ گاؤں والے گرم بستر میں پڑے رہتے ہیں یا الاؤ سے گرمی حاصل کرتے ہیں، سب کے قدم رک گئے ہیں، معمولات زندگی ٹھپ ہوگئےہیں مگرکھلاڑی تو کھلاڑی ہیں، وہ کہاں باز آنے والے؟ وہ کرکٹ، والی بال اور گلی ڈنڈا کھیل کر گرمی حاصل کر رہے ہیں، وہ گرم لباس میں لدے پھندے کھیل کے میدان کا رخ کرتے ہیں، کھیل کے چند منٹ بعد ایک ایک کرکے سارے گرم کپڑے اتار دیتے ہیں، پھر کھیل کی گرمی ہوتی ہے اور ان کا جوش و خروش ہوتا ہے جو کہرےکو مات دے دیتا ہے، ٹھنڈ کا اثر زائل کردیتا ہے۔ 
  خاتون خانہ’ کھانا وانا‘ بنا لیتی ہیں، برتن بھی دھل لیتی ہیں لیکن کپڑا نہیں دھوتی ہیں، سردی کی مار سے بچنے کیلئے دھوپ نکلنے کا انتظار کرتی ہیں۔ سورج کے دیدار کے بعد ایک اور مرحلہ آتا ہے، یہ مرحلہ بستر چھوڑنے کا مرحلہ ہے جو بہت مشکل سے طے ہوتا ہے لیکن خاتون خانہ پرگھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ رہتا ہے، وہ ٹال مٹول سے کام نہیں لیتی ہیں، پلک جھپکتے ہی یہ مرحلہ طے کر لیتی ہیں ۔ ا س طرح دھوپ کی معمولی کرن بھی ان کیلئے امید کی کرن ہوتی ہے، وہ جلدی جلدی کام نمٹا دیتی ہیں۔ پھر آنگن میں بیٹھ کر دھوپ سینکتی ہیں۔ 
  اس کالم نگار نے دیکھا ہے کہ ایک زمانے میں خاتون خانہ دھوپ میں بیٹھ کرایک دوسرے کابال بناتی ہیں، گھنٹوں جوں تلاش کرتی تھیں جسے مقامی زبان میں ’ڈھیل ہیرنا‘ کہا جاتا ہے۔ کتابیں پڑھتی تھیں۔ خاتون مشرق، حجاب، پاکیزہ آنچل، مہکتا آنچل اور ہما وغیرہ جیسے رسائل میں کھوئی رہتی تھیں۔ سوئیٹر بنتی تھیں۔ محلے پڑوس کے احوال پر ایک نہیں کئی کئی نظر ڈالتی تھیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں:سرسوں کےکھیت میں ’جنونی تصویر کشی‘ اورگاؤں کی تہذیب وثقافت کاپاٹھ

 اس دور کاحال مت پوچھئے۔ اب تو فرصت کی گھڑی میں آنگن اور چھت کی محفلوں میں موبائل ہی بولتا ہے اور ہیڈ فون لگا ہو تو چاروں طرف خاموشی ہوتی ہے، صرف اسکرین کی لائٹ نظر آتی ہے۔ ایسی گونگی بہری محفلیں دیکھ کر بڑی بوڑھیاں جل بھن جاتی ہیں، کڑھ جاتی ہیں، دوچار بات سنابھی دیتی ہیں۔ کبھی کبھی بہت دیر تک بڑبڑاتی رہتی ہیں ، مگر کون سنتا ہے ان کی باتیں ؟ 
 جب سردیوں میں بستر چھوڑنے کے مرحلے کا ذکر ہوہی گیا ہے تو اس کی تفصیل بھی ملاحظہ کیجئے۔ جنوری اور دسمبر کی سردی میں رضائی چھوڑنے سے پہلے کچھ لمحے سوچتے سوچتے گزر جاتے ہیں۔ اس وقت گاؤں والے کہتے ہیں کہ’ اسکت‘ لگ رہی ہے، یعنی ابھی باہر نکلنے کی ہمت نہیں ہورہی ہے۔ اکثر بچے اور نوجوان تو ’اسکت اسکت‘ میں پندرہ بیس منٹ ضائع کردیتے ہیں۔ اسکتی قبیلے سے بار بار تقاضا کیا جاتا ہے؟ جھنجھوڑا جاتا ہے، انہیں وقفے وقفے سے پکارا جاتا ہے۔ سردیوں کے رمضان میں یہ بے چارے اسکتی جیسے تیسے سحری کھاتے تھے، دس بار جگانے کے بعد اسی وقت اٹھتے تھے، جب مسجد سے اعلان ہوتا تھا کہ سحری کا وقت پانچ منٹ رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ پانچ منٹ میں منہ بھی دھلنا ہے، سحری بھی کھانی ہے۔ یہ بے چارے ہڑبڑائے رہتے ہیں ، جو بھی ملتا ہے، کھالیتے ہیں ، کوئی شکوہ شکایت نہیں کرتے ہیں، جلدی جلدی تری کا پیالہ خالی کردیتے، پھر اسی پر کئی گلاس پانی چڑھا لیتے۔ آخر میں انہیں چائے نہ پینے یا کچھ اور بھی چھوٹ جانے کا افسوس رہتا ہے۔ 
  ’اسکت ‘کے اس دورمیں بھی کسان آرام نہیں کرتا ہے۔ وہ حسب معمول اپنی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ عام طور پر وہ بھی دھوپ ہی میں کام کرتا ہے۔ گزشتہ برس شدید سردی میں یہ کالم نگار گاؤں کی سیر کیلئے نکلا تھا، دوپہر میں ساڑھے ۱۲؍بجے تھے، آفتاب جہاں تاب نے سر نکال لیا تھا۔ دھوپ کا فائدہ اٹھاکر ایک نوجوان اپنے والدکے ساتھ گیہوں کے پودوں میں کھاد ڈال رہا تھا۔ دانت بجنے والی سردی میں گیہوں میں کھاد پانی دینا آسان نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK