• Fri, 22 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

گاؤں کی باتیں:شادیوں میں دانا چنتی ہوئی لڑکیاں جتنی مصروف، اتنی ہی مسرور نظرآتی تھیں

Updated: July 28, 2024, 5:06 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

گزشتہ کالم میں بڑھئی پرگفتگو ہوئی لیکن نائی کی بات ادھوری رہ گئی۔ آج ہم یہاں  بات کریں  گے کہ شادی کی تقریب میں ان کی کتنی اہمیت ہوتی تھی۔

Similarly, in weddings, meat was taken out in a parai (earthen pot). Photo: INN
شادیوں میں اسی طرح پرئی (مٹی کے برتن) میں گوشت نکالا جاتا تھا۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ کالم میں بڑھئی پرگفتگو ہوئی لیکن نائی کی بات ادھوری رہ گئی۔ آج ہم یہاں  بات کریں  گے کہ شادی کی تقریب میں ان کی کتنی اہمیت ہوتی تھی۔ شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی دور درازرشتہ داروں تک دعوت (نیوتا) دینے کےساتھ ہی کھانا پکانے، راشن و دیگر خوردنی اشیاء کو جمع کرنے کی ذمہ داری انہیں کے سر ہوتی تھی۔ گائوں کے تمام گھروں کے رشتہ داروں کے نام و پتے ان کے ذہن میں  محفوظ ہوتے تھے۔ دعوت دینے سے پہلے نام نوٹ کراتے وقت اگر آپ کسی پرانے رشتہ دار کا نام بھول رہے ہوں تو وہ فوراً یاد دلا دیا کرتے تھے۔ 
  آج سے تقریباً ۲۰-۲۵؍ برس قبل گائوں  میں شادیاں اکثر مئی اور جون کے مہینے میں ہواکرتی تھیں۔ اس وقت کسان چنا، مٹر، ارہر، سرسوں اور گیہوں کی فصلوں کے کام سے فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ یوں کہیں کہ کسان انہیں فصلوں کو فروخت کرکے بارات کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے تھے۔ 
 شادی کی تیاری میں چھوٹے چھوٹےبچے اور گھر کی عورتیں بھی ہاتھ بٹاتی تھیں۔ ساتھ ہی گائوں کے لوگ بھی مدد کیلئے ہر وقت تیاررہتے تھے۔ اگر شادی والے گھر میں لکڑی کی کمی ہے تو وہ اپنے باغ کے درخت کے بارے میں کہتے ...جائیے وہاں ببول کا پیڑ کب سے سوکھا پڑا ہے، اسے کاٹ لائیے جو چولہا جلانے کے کام آئےگا۔ گیہوں ، چاول اور سرسوں کا تیل ہر گھر میں موجود رہتا تھا لیکن ہر کسی کے پاس چاول کی اچھی قسم نہیں ہوتی تھی...چنانچہ گائوں میں جس کے پاس اچھا چاول ہوتا، اس سے چاول بدل لیا جاتا یعنی وہ اس چاول کے بدلے اپنا خوشبودار چاول خوشی خوشی پیش کردیتا تھا۔ اس وقت ایسا تھا کہ گائوں میں کسی کے گھر میں شادی ہو لیکن ہر شخص اسے اپنی گھر کی شادی سمجھ کر ہر طرح کی مدد کیلئے تیا رہتا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: پہلے بڑھئی ہفتے میں نہیں تو مہینے میں ایک بار گائوں کا چکر ضرور لگاتے تھے

بارات آنے سے قبل مہمانوں کے بیٹھنے کیلئے گائوں  بھر سے چارپائی جمع کی جاتی تھی۔ کھانا پکانے کیلئے برتن لائے جاتے تھے۔ پانی پلانے کیلئے جگ اور گلاس گھر گھر سے مانگ کر لایا جاتا تھا۔ برتن اور چارپائی وغیرہ بدل نہ جائے، اس سے بچنے کیلئے لوگ احتیاطاً اس پر اپنا نام لکھ دیا کرتے تھے۔ گائوں  کے صاحب ثروت افراد دیگ خرید کر رکھتے تھے، شادی بیاہ میں ان سے مانگ کر لے جایا کرتے تھے۔ دیگ پر جلی حروف سے ان کا نام درج ہوا کرتا تھا فلاں حاجی صاحب ...صوبیدار صاحب ... یہ سب چیزیں بالکل مفت میں  دی جاتی تھیں ۔ شادی کے سیزن میں حاجی صاحب، صوبیدار صاحب اور نمبر دار صاحب کا دیگ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلتا پھرتا رہتا تھا۔ مہینوں بعد وہ اپنے مالک تک پہنچتا تھا۔ 
  گیہوں اور دھان چُن کر صاف کرنے کیلئے گائوں کی عورتوں  کو بلایا جاتا تھا۔ وہ دانا چُنتی جاتی تھیں اور گیت گاتی جاتی تھیں ، وہ جتنی مصروف اتنی ہی مسرور نظر آتی تھیں۔ لڑکیاں اپنی سہیلی کے ہونے دولہے کیلئے رومال، تکیہ اور ہاتھ کے پنکھے تیار کرتی تھیں ، اس میں  ایسے گل بوٹے بناتی تھیں کہ وہ دیکھتے ہی بنتا تھا۔ اس وقت روزگار کے سلسلے میں علاقے کے زیادہ تر لوگ ممبئی میں رہتے تھے جو اِن شادیوں  میں شرکت کیلئے ضرور آتے تھے۔ گویادیگ اور پرئی میں  ملنے والے سالن کی خوشبو انہیں کھینچ لاتی تھی۔ شادی میں ایک خاص چیز اور ڈھونڈ کر لائی جاتی تھی۔ معلوم کیا جاتا تھا کہ گائوں میں یا آس پاس پیٹرو میکس کس کس کے پاس ہے۔ لڑکے دوڑائے جاتے تھے۔ پیٹرو میکس آتا تھا۔ اس کو جلانے کیلئے منٹل منگایا جاتا تھا، ہرکوئی پیٹرومیکس میں منٹل بھی نہیں باندھ پاتا تھا، جن کو آتا تھا وہ بھی اس موقع پر بڑے نکھرے دکھاتے تھے، خوب منت سماجت کراتے تھے پھر مینٹل باندھتے۔ اس کے بعد اس میں اسٹوو کی طرح پمپ بھری جاتی لیکن بڑی احتیاط سے، پھر وہ جلتا اس کی روشنی پاکر بچے اُچھل پڑتے، گھر کےلوگ کام میں  مصروف ہو جاتے اور بچے کھیلنے میں مگن۔ پیٹرومیکس بند ہونے کے بعد اس کو دوبارہ جلانے کیلئے پمپ بڑی احتیاط سے چلائی جاتی کیونکہ جھٹکا لگنے سے مینٹل کے پھٹنے کا خطرہ ہوتا تھا۔ پیٹرومیکس کا ایک واقعہ جو ہمارے چچا نے اس روز سنایا تھا ...آپ بھی سنئے ...ہمارے پڑوس کے گائوں میں ایک شادی کی تقریب تھی اس میں روشنی کیلئے پیٹرومیکس لایا گیا تھا ...دیر رات جب تقریب ختم ہوئی تو اس کو بجھانے کیلئے سب پریشان ہو گئے...لاکھ کوشش کے بعد بھی وہ بند نہیں  ہو سکی ....جب سب تھک ہار گئے تو اس وقت کسی عقلمند کو ایک ترکیب سوجھی ...اس نے بڑے فاتحانہ انداز میں کہا ...ایسا کرتے ہیں اسے جھوّے کے نیچے ڈھاک دیتے ہیں اس کے نیچے رکھنے سے اُجالا ختم ہو جائے گا....پھر کیا تھا جھوّا منگایاگیا گویا سارے گائوں کی عقل کو اس جھوے کے نیچے ٹھک دیا گیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK