آج بھی گاؤں میں پتنگ بازی ایک جنون ہے جو بھی اس کی ڈور سے ایک بار الجھتا ہے، الجھتا ہی چلاجاتا ہے، بہت مشکل سے اس سے نکل پاتا ہے۔
EPAPER
Updated: May 20, 2024, 3:16 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
آج بھی گاؤں میں پتنگ بازی ایک جنون ہے جو بھی اس کی ڈور سے ایک بار الجھتا ہے، الجھتا ہی چلاجاتا ہے، بہت مشکل سے اس سے نکل پاتا ہے۔
آج بھی گاؤں میں پتنگ بازی ایک جنون ہے جو بھی اس کی ڈور سے ایک بار الجھتا ہے، الجھتا ہی چلاجاتا ہے، بہت مشکل سے اس سے نکل پاتا ہے۔ صرف آندھی اور موسلادھار بارش ہی پتنگ بازوں کے جنون کو روک پاتی ہے۔ کچھ پتنگ باز تو بارش اور آندھی میں بھی جنگلے( کھڑکی )سے آسمان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور بار ش تھمنے کا انتظار کرتے ہیں ، اسی لئے جیسے ہی بارش رکتی ہے، وہ پتنگ اڑاتے ہیں۔ حالانکہ بارش میں گیلی زمین پر کا غذ کا پتنگ گرتا ہے تو پھر وہ اڑانے کے لائق نہیں رہ جاتا ہے۔ باقی کوئی بھی موسم ہو، پتنگ بازی کے اس جنون کو روکنا محال ہوتا ہے۔
اس کالم نگارنے اپنے بچپن میں ایسے پتنگ بازدیکھے ہیں جو سردی اور گرمی کی پروا کئے بغیر دن بھر پتنگ کو’ٹھنکی‘( انگلی کے اشارے سے ڈور ہلانے کا عمل ) دیتے رہتے تھے، ڈھیل بھی دیتے تھے اور کھینچتے بھی تھے۔ جب ان کی پتنگ لہک (اڑ)جاتی تو وہ بھی پتنگ کے ساتھ اڑتے تھے اور جب کوئی پیچ کاٹ لیتے تو ان کا حوصلہ بڑھ جاتا تھا۔ اس وقت وہ خود کو آسمان کے بادشاہ سمجھتے تھے۔ ان میں ایک ایک پتنگ کو کاٹ دینے کی ہمت پیدا ہوجاتی تھی۔ کچھ نوجوان لگاتار تین یا چارپیچ کاٹنے کے بعد ہی گاؤں میں دوچار دن تک موضوع بحث رہتے تھے۔
پتنگ بازوں میں سے ہر گاؤں میں دوچار ایسے پتنگ باز ہوتے تھے جن کا پورا گاؤں لوہا مانتا تھا، ایسے پتنگ بازوں کو کھانے پینے کی سدھ نہیں رہتی تھی، دوپہر میں سائیکل سے قریب کے بازار سے مانجھا لینے پہنچ جاتے تھے۔ یہ ایسے مانجھا شناس ہوتے تھے کہ پتنگ بیچنے والے بھی ان سے مشورے کرتے تھے، یہ ڈور ہاتھ میں لیتے ہی سمجھ جاتے تھے کہ یہ منجھا کتنی دور اورکتنے دیر تک ساتھ دے گا؟ اور کتنی پیچ کاٹے گا؟ بازار سے منجھا لانے کے بعد اچھا مانجھا اور پتنگ باز کی مہارت سے پیچ لڑانے اور کاٹنے کا سلسلہ جو شروع ہوتا تو وہ سورج ڈوبنے تک جاری رہتا تھا۔ اندھیرا نہ ہوتا تو شاید یہ پتنگ باز کسی کی نہ سنتے، چوبیس گھنٹے آسمان کو پتنگوں سے آباد رکھتے۔
یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: ٹرین کے سفر کے دوران گاؤں میں گاؤں کی تلاش کی کوشش
آج بھی ایسے نوجوان اور بچے ہیں جو گاؤں کی چھتوں اور وسیع وعریض میدانوں میں پتنگ اڑاتے ہیں۔ اب اور تب میں فرق یہ ہے کہ آج کے پتنگ باز اسمارٹ ہوگئے ہیں، وہ ڈھیل دینے کے بجائے کھینچ کر پیچ لڑارہے ہیں۔ اس طرح مانجھا بھی کم لگتا ہےاور لگاتار دس دس پیچ تک کاٹنے کا اتفاق بھی ہورہا ہے۔
جہاں تک پتنگ لوٹنے کا سوال ہے تو آج سے بیس تیس سال پہلے پتنگ خریدنا آسان نہیں ہوتا تھا، اس لئے پتنگ اڑانے سے زیادہ پتنگ لوٹنے والے ہوتے تھے۔ ایک ایک پتنگ کیلئے ننگے پاؤں دھان اور گیہوں کے کھیتوں میں دوڑتے بھاگتے تھے، پاؤں زخمی ہوتے تھے، کبھی خون بھی نکل آتا تھا مگر دوسرے دن اسی جوش وخروش کے ساتھ پتنگ لوٹتے تھے، اپنے زخموں کو بھول جاتے تھے۔ پتنگ لوٹنے والےگاؤں کی سرحدوں کو مٹا دیتے تھے۔ دوڑتے بھاگتے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں پہنچ جاتے تھے۔ سچ پوچھئے تو اس زمانے میں پتنگ لوٹنےوالاہی سب بڑا فاتح ہوتا تھا کیونکہ بعض دفعہ پچاس ساٹھ بچوں اور نوجوانوں کے درمیان سے پتنگ حاصل کرنا ہوتا تھا، ظاہر ہے کہ اس بھیڑ سے پتنگ لوٹنے والے کو بڑا فاتح ہی کہا جاسکتا تھا۔
اس دور میں پیچ لڑانے میں ڈھیل دینے ہی کا رواج تھا۔ کبھی کبھی ایسی ٹکر ہوتی تھی کہ پوری پریتی(جس میں ڈور لپیٹتے ہیں ) کا منجھا ہی ختم ہوجاتا تھا لیکن کوئی کٹتا ہی نہیں تھا، اس وقت پوروانچل والے کہتے تھے کہ بہت زیادہ ٹکر گئی ہے۔ جتنی زیادہ ٹکر جاتی تھی، اتنی ہی پتنگوں کے پیچھے بھیڑ بڑھتی جاتی تھی، کیونکہ زیادہ ٹکر میں زیادہ منجھا ملتا تھا۔
پتنگ بازی کا یہ شوق اس سے پہلے بھی تھا۔ اس وقت گاؤں کے نوجوان اور بچے اپنے ہاتھوں سے کاغذ کا پتنگ بناتے تھے۔ مانجھا بھی تیار کرتے تھے اور وہ چھت کے بجائے ٹیلوں سے پتنگ لہکاتے تھے اور گاؤں والوں سے داد پاتے تھے۔
اردو کےمعروف صحافی احمد بشیر نے مجاہد آزادی، شاعر اور صحافی مولانا حسرت موہانی سے ایک انٹرویو میں پوچھا تھا:’’زندگی میں آپ کی اور تفریحات کیا ہیں ؟‘‘
ان کا جواب تھا، ’’بچپن اور جوانی میں پتنگ بازی میرا محبوب مشغلہ رہا۔ موہان گومتی ندی کے ایک معاون نالے کے کنارے واقع ہے۔ اس کے دوسرے کنارے پر نیوتنی کا قصبہ ہے۔ دونوں طرف دو اونچے ٹیلے ہیں۔ دونوں طرف کے نوجوان ان ٹیلوں پر چڑھ کر پیچ لڑاتے ہیں۔ میں نے بھی کئی سال ان ٹیلوں پر پتنگ بازی کی ہے۔ اب بھی جب کبھی موہان جاتا ہوں تو پتنگ اڑاتا ہوں۔ کھینچنا، بڑھانا، پیچ لڑانا مجھے ابھی ان سب باتوں کا عشق ہے اور اس میں بڑا لطف آتا ہے۔ ‘‘