پوروانچل میں کئی دنوں بعد سورج نکلا، چاروں طرف کرنیں بکھر گئیں، بچوں کی تو جیسے عید ہوگئی۔ وہ اپنی سائیکل لے کر نکل گئے، سائیکل بھی ہفتے عشرے سے آرام کررہی تھی۔
EPAPER
Updated: January 28, 2024, 5:02 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
پوروانچل میں کئی دنوں بعد سورج نکلا، چاروں طرف کرنیں بکھر گئیں، بچوں کی تو جیسے عید ہوگئی۔ وہ اپنی سائیکل لے کر نکل گئے، سائیکل بھی ہفتے عشرے سے آرام کررہی تھی۔
پوروانچل میں کئی دنوں بعد سورج نکلا، چاروں طرف کرنیں بکھر گئیں، بچوں کی تو جیسے عید ہوگئی۔ وہ اپنی سائیکل لے کر نکل گئے، سائیکل بھی ہفتے عشرے سے آرام کررہی تھی۔ آنگن کے کونے میں کھڑی کھڑی گرد سے اٹ گئی تھی، بچوں نے اسے صاف نہیں کیا، سیٹ کی گرد گرم کپڑوں نے سمیٹ لی اور بچوں کو پتہ بھی نہیں چلا ۔ وہ گاؤں کے ایک حصے میں والی بالی کی فیلڈ میں سائیکل چلانے لگے۔
گزشتہ کالم میں آپ نے پڑھا کہ گھنے کہرے اور شیت لہری نے مل کر ٹھنڈ بڑھادی ہے۔ بے چارے اسکتیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے، وہ بڑے امتحان سے گزر رہے ہیں، انہیں بستر سے نکلنے میں مشکل ہورہی ہے۔ ایسے میں دھوپ نکلی تو گاؤں والے پھولے نہیں سمائے، ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔
کئی دن ٹھنڈ کے بعد سورج کی حرارت نےجسم کو چلنےپھرنے اور دوڑنے بھاگنے کے قابل بنا دیا۔ نتیجتاً دوپہر سے شام تک کی دھوپ میں ہر طرف چہل پہل رہی۔ بڑے بڑے اسکتی بھی چارو ناچار اس دوڑ بھاگ کا حصہ بن گئے۔ ’جانگر‘ والے یعنی محنتی اور جفاکش افراد دھوپ نکلتے ہی کام میں لگ گئے اور جلدی جلدی کام سمیٹ لیا ۔ پھر دھوپ سینکتے رہے۔ سر سے پاؤں تک چادر لپیٹ لیا اور کھلے آسمان کے نیچے چارپائی پر لیٹے رہے، یوں ہی آنکھ بند کرکے گھنٹوں پڑے رہے، کچھ کچھ نے گہری نیند کے مزے لوٹے، ان کے خراٹے بھی سنائی دیئے۔
گاؤں کے محنتی مرد، عورت اورجوان کیلئے دھوپ نعمت ہوتی ہے۔ وہ کہتے بھی ہیں کہ اتنی ٹھنڈ میں سور ج دیکھ کر جان میں جان آتی ہے، بیش بہا خزانہ ملنے کا احساس ہوتا ہے۔ اسکتیوں کا قصہ تھوڑا الگ ہے، وہ خود سے آنکھ کھولتے نہیں، انہیں گرم بستر سے زبردستی نکالا جاتا ہے، وہ سورج کو دیکھ کر برا سا منہ بنالیتے ہیں، وہ زبان سے کچھ نہیں کہتے لیکن ان کے چہرے کی اڑی اڑی سی رنگت چیخ چیخ کر کہتی ہے، ’’ابے سورجوا کا نکل آئے، کچھے دیر بچی رہی، رک گئے ہوتے، انہارا ہوجاتے، آرام سے سووہو نہ دیتے تے۔ ‘‘(ابے سورج خواہ مخواہ نکل آئے، کچھ ہی دیر بچی تھی، رک گئے ہوتے، اندھیرا ہوجاتا، آرام سے سونے بھی نہیں دیتےتم۔ )
یہ بھی پڑھئے :گاؤں کی باتیں: کہرےکی دبیز چادر، خاتون خانہ کی چھت اور آنگن کی نئی پرانی محفلیں
یہ اسکتیوں کا حال ہوا ہے، وہ طلبہ جنہیں سردی کی چھٹی ملی ہوتی ہے، دھوپ دیکھ کر وہ بھی رونی(روہانسی)صورت بنالیتے ہیں ۔ دوسرے دن اسکول جانے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوجاتے ہیں، ہوم ورک ملا ہوتا ہے تو اسے جلدی جلدی مکمل کرتے ہیں ۔ ایک طریقے سے دھوپ چھٹی ختم ہونے کا اعلان کر دیتی ہے۔ پھر گھر والے اپنے تلخ جملوں اور تبصروں سے زخموں پر نمک چھڑکتے رہتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ بہت آرام کرلئے، دھوپ نکل آئی ہے، کل سے اسکول جانا ہے۔ رات میں کچھ کہنا نہ پڑے، مغرب بعد پڑھنے بیٹھ جانا۔ گنتی کے چند پڑھاکو بچوں سے کچھ کہنا نہیں پڑتا ہے ۔ وہ ہمیشہ گھروالوں کی آنکھوں کاتارہ رہتےہیں ۔
اس دھوپ میں ایسی خاتون خانہ کڑھتی ہیں جو سورج ڈوبنے تک دم نہیں لے پاتی ہیں، شام تک لگی رہتی ہیں ۔ وہ جھلا کر کہتی ہیں کہ دھوپ نکلی مگر اپنی قسمت میں آرام کہاں ہے؟شام تک کام ہی کام ہے۔ یہی اپنی زندگی ہے۔ ایک پل کیلئے بھی چین نہیں ہے۔ وہ ایک ہی سانس میں پتہ نہیں کیاکیا کہہ دیتی ہیں ؟ پھوٹی قسمت کا ایسا رونا روتی ہیں کہ پوچھئے مت....ان کو بس اسی کا ملال رہتا ہے کہ ایک لمحے کیلئے بھی دھوپ سینکنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ خواتین لاکھ شکوے شکایت کریں، ان کے دم ہی سے گھر گھر رہتا ہے، یہ گھر کو سجانے سنوارنے میں جی جان سے لگی رہتی ہیں، کسی بھی موسم میں اپنی بھی پروا نہیں کردیتی ہیں، بس یہ گھر کے ہر فرد کو خوش دیکھنا چاہتی ہیں ۔ کسی کی بھی پیشانی پر شکن آنے نہیں دیتی ہیں ۔
بچوں کو بھی دھوپ نکلنے کا فائدہ ملتا ہے۔ ویسے وہ تو ہمیشہ کھیلتے کودتے رہتے ہیں ۔ انہیں موبائل نہ ملے تو وہ بار بار باہر بھاگتے ہیں، کہرے کو کچھ نہیں سمجھتے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے چند منٹ میں دوستوں یاروں کو جمع کرلیتے ہیں، خوب شور مچاتے ہیں، تھوڑی بہت سردی ہوتی ہے تو انہیں دھما چوکڑی کا موقع مل جاتا ہے۔ کوئی روکتا ٹوکتا نہیں لیکن زیادہ سردی میں گھر کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، بچوں کو کمرے میں قید کردیا ہے۔ ضد کرنے پر کچھ کو موبائل بھی مل جاتا ہے مگر اس سے کب تک دل بہلائیں گے؟کسی کا فون آجاتا ہے، ویڈیو ادھورا رہ جاتا ہے۔ ایسے میں بچوں کو اپنے گھر کاکمرہ جیل لگتا ہے، وہ باہر نکلنے کی تدبیریں سوچتے ہیں، بہانے باز بچے سو سو بہانے تراشتے ہیں، جھوٹے مگر موٹے موٹے آنسو بھی بہا دیتے ہیں لیکن بڑوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے بالآخر دھوپ ہی ان ننھے قیدیوں کو آزادی کو پروانہ دیتی ہے۔ اس دن بھی دھو پ نکلی تو ایک ہفتے بعد گھروں کے باہر بچے دکھائی دیئے، کھیل کے میدانوں کی رونق بحال ہوئی۔