• Fri, 07 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں: مویشیوں سے والہانہ لگاؤ، سانپ مارنے کا ہنر اور اپنا حصہ مانگنے والا بکرا

Updated: February 04, 2024, 4:09 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

مغربی بنگال کے نادیہ ضلع کے ایک گاؤں کا قصہ ہے۔ جنوری کا دوسرا عشرہ تھا، سردیوں کی صبح تھی، دھوپ کھلی ہوئی تھی، اس کے باوجود سردی شباب پر تھی، سرد ہوا کے جھونکے چل رہے تھے۔

The goat is also like a member of the household, it demands its share of food. Photo: INN
یہ بکرا بھی گھر کے ایک فرد کی طرح ہے، یہ کھانے کی چیزوں میں اپنا حصہ مانگتا ہے۔ تصویر : آئی این این

مغربی بنگال کے نادیہ ضلع کے ایک گاؤں کا قصہ ہے۔ جنوری کا دوسرا عشرہ تھا، سردیوں کی صبح تھی، دھوپ کھلی ہوئی تھی، اس کے باوجود سردی شباب پر تھی، سرد ہوا کے جھونکے چل رہے تھے۔ اس گاؤں میں ایک جگہ ٹین کے شیڈ کی جھوپڑی تھی۔ وہاں ایک معمر خاتون الاؤ کے قریب بیٹھی تھی، خون جمادینے والی ٹھنڈ میں آگ سینک رہی تھی، الاؤ کاایندھن دھیرے دھیرے جل رہا تھا، تھوڑا تھوڑا دھواں بھی نکل رہا تھا، خاتون ہاتھ کے اشارے سے تنکے ادھر ادھر کررہی تھی۔ وہاں بکری کےدو بچے بھی تھے، ایک بیٹھا تھا، دوسرا کھڑا تھا، انسانوں کی طرح ان کے جسم پر گرم لباس نہیں تھا، حالانکہ پوروانچل کے گاؤں دیہاتوں میں مویشیوں کو گرم لباس پہنایا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ انہیں بھی اُترن ہی ملتا ہے، موٹے بورے کی مدد سے بھی مویشیوں کو سردی سے بچایا جاتا ہے۔ ان کا لباس کوئی درزی نہیں سلتا بلکہ سجے(بڑی سوئی)میں توڑا (پلاسٹک کی رسی) ڈال کر ہاتھ سے مویشیوں کا لباس تیار کیا جاتا ہے۔ 
دیکھئے بات کہاں سے کہاں جارہی ہے؟ ابھی نادیہ کا قصہ ادھورا ہے۔ ابکری کے دونوں بچے آگ سے گرمی حاصل کررہے تھے، بکری کے دونوں بچے الاؤ کے قریب اس طرح کھڑے اور بیٹھے تھے، جیسے یہ ان کی ہی محفل ہو، کوئی اجنبیت نہیں تھی، ان کے چہرے اور انداز سے اپنائیت جھلک رہی تھی، دونوں دھوئیں سے بچنے کیلئے تھوڑی تھوڑی آنکھیں بند کئے ہوئے تھے۔ آپ خود تصویر میں دیکھئے اور بتائیے کہ کیا ایک انسان اور جانور میں اس سے زیادہ بھی اپنائیت ہوسکتی ہے؟ کیا یہ ایک گہری دوستی اور اٹوٹ رشتے کاثبوت نہیں ہے؟ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: ٹھنڈ کی دھوپ نعمت ہوتی ہے، بیش بہا خزانہ ملنے کا احساس ہوتا ہے

 گاؤں دیہاتوں میں بےزبان جانوروں اور حیوان ناطق(انسان) کی دوستی عام ہے۔ جابجا اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ ان کی شہرت دور دور تک ہے۔ بے زبانوں کی زبان سمجھنے والے اپنے مویشیوں کا حددرجہ خیال رکھتے ہیں، ان کا اشارہ سمجھ جاتے ہیں، ان سے اس قدر لگاؤ رکھتے ہیں کہ رات کے آخری پہر میں بھی ان کی خدمت کیلئے تیار رہتے ہیں۔ عام طور پر اپنی چارپائی سار(گائے بھینس کا ٹھکانہ) اور باڑے سے قریب رکھتے ہیں۔ رات کے دو بجے بھی جانور ہلتے ڈولتےہیں یا بے چینی سے چلاتے ہیں تو مویشی پریمی فوراً اپنا بستر چھوڑ دیتے ہیں، کھڑے ہوجاتے ہیں، پھر سار یا باڑے کی طرف بھاگتے ہیں اور بے زبان جانوروں کی خبر لیتے ہیں، وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو اس سے نجات دلاتے ہیں ۔ اس دور کے گاؤں میں مویشی بہت نہیں ہیں، اسی اعتبار ان کے پریمی بھی کم ہی ہیں ۔ جو ہیں، وہ سچے پریمی ہیں، جانور کی آواز سن کر بلب جلادیتے ہیں اور مویشی کی خدمت میں لگ جاتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب کچی بستیاں اور کچے مکان گاؤں کی شناخت ہوتے تھے، اس دور میں راتوں کو اٹھ کر مویشیوں کی خدمت کرنا آسان نہیں ہوتا تھا، بجلی تھی نہیں، رات کے اندھیرے میں بیٹری والی ٹارچ جلاکر مویشیوں کی خبر لی جاتی تھی۔ برسات کی راتوں میں کچے گھر میں کھپسا (کیچڑ) رہتا تھا، ہر آن پھسلنے کا ڈر رہتا تھا، لوگ بہت سوچ سوچ کر قدم بڑھاتے تھے، گرمیوں میں سانپ بچھو کا ڈر رہتا ہے، سردیوں کی کہرے کی راتوں میں بستر سے نکلنا آسان نہیں ہوتا تھا۔ اس دور میں بجلی اتنی کم آتی تھی کہ جاپان کی سرخ ٹارچ(میڈ ان جاپان)چارج ہی نہیں ہو پاتی تھی۔ 
  اس زمانے میں سانپ بھی نکل آتے تھے، ایسا نہیں ہے کہ مار (سانپ) کو مارنے کیلئے پورا محلہ جمع ہوتا تھا۔ اکیلے ہی اس کاکام تمام کر دیاجاتا تھا، صبح محلے پڑوس والے پوچھتے تھے کہ رتیا ترے گھرا سے کھٹ کھٹ کی کیسی آواج آوت رہی، ساپ واپ نکرا رہا کا۔ (رات میں آپ کے گھر سے کھٹ کھٹ کی کیسی آواز آرہی تھی، سانپ نکلا تھا کیا؟) جواب ملتا کہ ہاں نکلا تھا، مار دیا۔ پھر کچھ لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ناگ نہیں تھانا؟ناگ کی آنکھ نہیں پھوڑتے ہیں تو اس کی جوڑی دار ناگن اس میں مارنے والے کا عکس دیکھ لیتی ہے اور پھر مناسب موقع دیکھ کر اسے ڈس لیتی ہے، یعنی موت کا بدلہ موت سے لیتی ہے۔ اس پر جواب ملے یا نہ ملے، یہ سوال بھی پوچھاجاتا کہ سنپوا کا مونہاں کچ دیہے رہے نا-(سانپ کا منہ کچل دیئے تھا نا۔ ) مویشی کے بہانے سانپ مارنے کا ذکر ہوگیا، آج بھی گاؤں میں سانپ نکلتے ہیں اور لوگ انہیں مارتے ہیں، کچھ خاتون خانہ بھی مار مارنے کی ماہر ہوتی ہیں۔ ان کی بہادری کا ہر شخص قائل ہوتا ہے۔ 
مویشی کے انسانوں سے لگاؤ کا ایک واقعہ سنئے۔ ایک خاتون نے ایک بکرا پالا تھا، وہ اس کا بہت خیال رکھتی تھیں، نفاست پسند تھیں، اپنی طبیعت کے اعتبار سے بکرے کی تربیت اس طریقے سے کی تھی کہ وہ گھر میں گندگی نہیں کرتا تھا، ضروریات کیلئے گھر سے باہر ہی جاتا تھا۔ وہ روزانہ فجر کے وقت اسے رسی سے آزاد کرتی تھیں، پھر گھر کا دروازہ کھولتی تھیں، بکرا باہر جاتا تھا، ایک ٹیلے پر ضروریات سے فارغ ہوکر گھر آجاتا تھا۔ یہ بکرا گھر کے فرد کی طرح تھا، وہ کھانے کی چیزوں میں اپنا حصہ بھی مانگتا تھا۔ جیسے ہی بچے دکان سے کچھ لاتے تھے، تھیلی پھاڑنے کی آواز سن کر بکرا بھاگا بھاگا آتا تھا، گردن جھکا کر کھڑا ہوجاتا تھا اور اپنا حصہ لئے بغیر وہاں سے نہیں جاتا تھا، گھر کے بچوں کے ساتھ مل کر چپس بھی کھاتا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK