• Fri, 24 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ کی نئی صبح، صبح ِ کاذب تو نہیں؟

Updated: January 24, 2025, 1:43 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

حماس اور اسرائیل کے اتفاق رائے پر یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اگر اتفاق برقرار رہا اور فریقین میں سے کسی نے بھی خلاف ورزی نہیں کی، تب بھی مستقل امن قائم ہونے کی ضمانت نہیں ہے کیونکہ مستقل امن قائم کرنے کیلئے بات اس وقت شروع ہوگی جب حماس ۳۳؍ اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کر دے گا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

صلح اور جنگ بندی اسی صورت میں  اچھی ہے جب فریقین کی نیت صاف ہو۔ غزہ سے جب صلح یا جنگ بندی کی خبر آرہی تھی اسی کے ساتھ غزہ پر اسرائیل کے حملے اور اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے اس الزام کی بھی تشہیر ہو رہی تھی کہ حماس جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ جنگ بندی کے نفاذ سے پہلے ہی یہ بھی واضح ہوگیا تھا کہ اگر جنگ بندی پر بحث ہوئی تو اسرائیلی کابینہ میں  شامل انتہا پسند اس کی مخالفت کرینگے اور اگر جنگ بندی نہیں  ہوگی یا حماس کی تحویل میں  اسرائیلی یرغمالوں  کو آزاد نہیں  کرایا گیا تو عوام نتن یاہو حکومت کا تختہ پلٹ دینگے یعنی اسرائیل کی حکومت اس وقت دو طرفہ مصیبت میں  ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے میں  بھی کئی نکات ایسے ہیں  جو مختلف سوالوں  کو جنم دیتے ہیں  مثلاً:  ٭معاہدہ کی پہلی ہی بات یہ ہے کہ ابتدائی مرحلوں  میں  یعنی جنگ بندی کے ۶؍ ہفتوں  میں  سینٹرل غزہ سے اسرائیلی فوجیں  واپس ہوں  گی اور شمالی غزہ میں  فلسطینیوں  کو واپس جانے یا دوبارہ بسنے کی آزادی ہوگی۔ اگر نیت صاف ہوتی تو یہ بھی لکھا جاسکتا تھا کہ اسرائیلی فوجوں  نے جن مقامات پر قبضہ جمایا ہے یا فلسطینیوں  کو بھاگنے پر مجبور کیا ہے وہ ابتدائی مرحلے میں  ہی ان مقبوضہ مقامات کو چھوڑ دیں  گی اور جو فلسطینی جہاں  آباد تھے وہاں  دوبارہ آباد ہونگے۔ ٭لکھنے کو لکھا گیا ہے کہ معاہدے کا دوسرا مرحلہ، پہلا مرحلہ ختم ہوجانے کے ۱۶؍ ویں  دن شروع ہوگا جس میں  اسرائیلی افواج کا انخلاء اور دونوں  طرف سے یرغمالوں  کی رہائی ہوگی۔ ٭تیسرے مرحلے میں  غزہ کی تعمیر نو اور بقیہ قیدیوں  کی رہائی یا تبادلہ ہوگا۔
 ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ۴۶۰؍ دن کے مسلسل حملوں  میں  جن میں  ۸۵؍ ہزار بارود برسائے گئے اور ۴۷؍ ہزار فلسطینیوں  کی جان لی گئی اسرائیل اور زیادہ الجھ گیا ہے۔ پہلے دن یعنی ۷؍ اکتوبر کو حماس نے جو حملے کئے تھے اس میں  اسرائیل کے ۱۲؍ سو لوگ مارے گئے تھے ۲۵۰؍ لوگ یرغمال بنائے گئے تھے مگر اسکے بعد اسرائیل ہی حملہ کرتا رہا اور فلسطینی مارے جاتے رہے۔ زخمی ہونے والوں  کی تعداد تو لاکھوں  میں  تھی یوں  کہئے کہ فلسطین میں  جو کچھ تھا سب جل گیا۔ شام، لبنان، یمن اور عراق بھی اس جنگ کی آگ میں  جھلس چکے ہیں ۔ ایران، اس کے توسط سے روس و چین اور ترکی پر تو باقاعدہ یہ الزام ہے کہ وہ حماس کو اسلحہ پہنچاتے رہے ہیں ۔ حماس اور اسرائیل کے اتفاق رائے پر یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اگر اتفاق برقرار رہا اور فریقین میں  سے کسی نے بھی خلاف ورزی نہیں  کی، تب بھی مستقل امن قائم ہونے کی ضمانت نہیں  ہے کیونکہ مستقل امن قائم کرنے کیلئے بات اس وقت شروع ہوگی جب حماس ۳۳؍ اسرائیلی یرغمالوں  کو رہا کر دیگا۔ مستقل امن قائم ہوجانے کی صورت میں  یرغمال بنائے گئے تمام لوگوں  کو چھوڑے جانے کی امید ہے مگر یہ کوئی نہیں  کہہ سکتا کہ یرغمال بنائے ہوئے لوگوں  میں  کتنے زندہ ہیں  کتنے موت کی آغوش میں  جا چکے ہیں ۔ یہ بھی عجیب معاملہ تھا کہ جس روز جنگ بندی کا نفاذ ہونے والا تھا اس دن سوا گیارہ بجے تک اسرائیل غزہ پر بمباری کر رہا تھا اور جب ۳؍ یرغمال کو ریڈ کراسکے توسط سے اسرائیلی فوج کے حوالے کیا گیا تو اسرائیل میں  جشن کا ماحول شروع ہوگیا۔ غزہ یا فلسطین کے لوگ بھی اپنے گھروں  کی طرف رواں  ہوئے مگر ان کے مکان تو کھنڈر بن چکے تھے مگر غزہ یا فلسطین کے لوگوں  میں  یہ تذبذب نہیں  ہے کہ جہاں  سب کچھ تباہ ہوچکا ہے وہاں  کیا جانا؟ اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ جبالیہ کیمپ جس کو اسرائیلی فوج نے تباہ کر دیا تھا، کے ملبے پر کھڑے ہو کر ایک فلسطینی صحافی جہاد ابو شمالہ نے اذان دی۔ اس کا مطلب ہے کہ فلسطینی یہ پیغام دے رہے ہیں  کہ سب کچھ تباہ ہوجانے کے بعد بھی اللہ کی ذات پر بھروسہ یعنی جذبۂ تعمیر باقی ہے اور جب تک یہ جذبۂ تعمیر باقی ہے کوئی ہمیں  فنا نہیں  کرسکتا۔ ایک اور واقعہ غیر معمولی حوصلہ مندی کا ہے۔ جنگ بندی کے بعد غزہ ریلیف کیمپ سے دو ننھی بچیاں  جو آپس میں  سگی بہنیں  تھیں  اپنے مکان کے ملبے پر پہنچیں ۔ یہاں  چھوٹی بچی تو سسکیاں  لینے لگی مگر بڑی بہن جو اپنی چھوٹی بہن سے صرف دو سال بڑی تھی چھوٹی بہن کو دلاسہ دیتے ہوئے دیکھی گئی۔ ایک خاتون نے جب یہ منظر دیکھا تو اس نے دلاسہ دینے والی سے پوچھا کہ اسکے گھر کے کتنے آدمی جاں  بحق ہوئے ہیں ۔ بچی نے جواب دیا ابو اور کئی بھائی۔ خاتون نے پوچھا اتنے لوگوں  کے مرنے کے باوجود تم مسکرا رہی ہو؟ بچی نے خاتون کی اصلاح کی کہ وہ (والد اور بھائی) فوت نہیں  ہوئے ہیں  شہید ہوئے ہیں ۔ خاتون نے کہا، ’’ان شاء اللہ وہ انبیاء اور صدیقین کے ساتھ اٹھائے جائینگے۔‘‘
 طے شدہ پروگرام کے مطابق پہلے تین اسرائیلی خواتین رہا کی گئیں  جو مسرور نظر آرہی تھیں ۔ ان کے چہروں  پر مسکراہٹ اور ہاتھوں  میں  حماس کے دئیے ہوئے بیگ تھے جبکہ اسرائیلیوں  کی قید سے رہا کئے گئے ۹۰؍ افراد (خواتین، بچے اور بالغ مرد) کی حالت اچھی نہیں  تھی حالانکہ ان کا استقبال کرنے کیلئے غزہ میں  بچے کھچے فلسطینی ایک جگہ جمع ہوگئے تھے۔ فلسطینی رہا کئے گئے لوگوں  کا استقبال کرنے کیساتھ ملبوں  میں  تبدیل ہوچکے اپنے مکانوں  کا دیدار اور ملبوں  میں  دبی ہوئی لاشوں  کی باقیات کی باز یافت بھی کر رہے تھے۔ جن کی لاشیں  دبی ہونے کا اندیشہ ہے ان کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔ جنہیں  رہا کیا گیا ہے ان میں  ۶۲؍ سالہ خالدہ جرار ہیں  جنہیں  ۲۰۱۹ء میں  اسرائیل میں  کی گئی بمباری کا ماسٹر مائند قرار دے کر گرفتار کیا گیا تھا اور ۱۵؍ سالہ محمود علیوات بھی ہے جس کو یروشلم کے سٹی آف ڈیوڈ میں  فائرنگ کے الزام میں  گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے : بہار میں کانگریس کی فعالیت اور راشٹریہ جنتا دل کا اعلامیہ؟

 غزہ میں  عارضی جنگ بندی شروع ہوچکی ہے، یرغمال اور قیدی رہا کئے جا رہے ہیں ، انسانی بنیادوں  پر دی گئی امداد لے کر ٹرک بھی رفح کراسنگ سے گزر رہے ہیں  مگر جب غزہ کے لوگوں  کا احساس جاگے گا کہ ۴۷؍ ہزار افراد کو شہید کروا کر بھی کیا ہم عالمی برادری کی امداد پر ہی جیتے رہیں  گے، ہمارا اپنا کوئی ملک یا مملکت نہیں  ہوگی اور اسرائیل سوچے گا کہ ہمیں  ہمارا اہداف تو ملا نہیں  تو کیا ہوگا۔ شاید یہی ہو بھی رہا ہے اسلئے غزہ کی صبح کو صبح ِ کاذب ہی کہا جائیگا جب پرندوں  کو دھوکہ ہوتا ہے اور وہ اپنے گھونسلوں  سے باہر نکل کر چہچہانے لگتے ہیں  مگر پھر اپنے گھونسلوں  میں  واپس جانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ غزہ کے لوگوں  کو بھی جلد ہی محسوس ہوگا کہ انہیں  جو حاصل ہوا ہے جنگ سے حاصل ہوا اور آئندہ جو حاصل ہوگا وہ بھی جنگ اور مزاحمت سے ہی حاصل ہوگا۔ ہم جنگ بندی اور صلح کے قائل ہیں  لیکن یہ بھی جانتے ہیں  کہ حماس اسرائیل جنگ بندی کا جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ نتن یاہو کی حکومت کو بچانے اور اسرائیل کی معیشت کو استحکام عطا کرنے کیلئے کھیلا گیا ہے غزہ کے باشندوں  کے پاس جذبۂ تعمیر نو کے سوا کیا ہے۔ اللہ اس جذبے کو برقرار رکھے۔ وہ اس حقیقت کو فراموش نہ کریں  کہ اسرائیل کے وزیر خزانہ اسمو ٹریچ سمیت ہزاروں  اسرائیلی آج بھی یہی سوچتے ہیں  کہ مکمل اہداف حاصل ہونے تک جنگ روکی نہیں  جاسکتی۔ اسرائیل کا مکمل اہداف کیا ہے یہ سمجھنا مشکل نہیں  ہے۔

gaza strip Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK