Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہنر کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ سرٹیفکیٹ یا ڈپلومہ بھی حاصل کیجئے

Updated: June 09, 2024, 1:08 PM IST | Khan Hasnain Aqib | Mumbai

وہ لوگ جو دسویں اوربارہویں پڑھ کر تعلیم چھوڑ دیتے ہیں اور کسی ہنر اور پیشے میں لگ جاتے ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ اس طرح کا کورس کرکے سرٹیفکیٹ لے لیں۔

It is not only important to know the job but also to have a degree related to the job. Photo: INN
صرف کام جاننا ضروری نہیں ہے بلکہ کام سے متعلق ڈگری کا ہونا بھی ضروری ہے۔ تصویر : آئی این این

موجودہ دور میں ہمارے ملک میں ایک رجحان بڑی تیزی سے پنپتا چلا گیا ہے۔ ایک جملے میں اس رجحان کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ’’پڑھ لکھ کر کون سی نوکری لگ جائے گی؟ پڑھ لکھ کر تو کون سا کلکٹر بن جائے گا؟‘‘ یعنی یہ کہہ کر ہم لوگ مکمل طور سے فارغ ہو جاتے ہیں کہ پڑھنے لکھنے کا مطلب صرف ملازمت یا نوکری حاصل کرنا ہے اور اگر آپ کی دلچسپی کسی ہنر، پیشے یا تجارت میں ہے تو پھر اس کیلئے تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ملکِ عزیز میں بیشتر تجارت پیشہ کمیونٹیز اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتی ہیں لیکن ان کا مطمح نظر کبھی بھی ملازمت کا حصول نہیں ہوتا ہے۔ بفرض محال اگر یہ ملازمت کر بھی لیں تو اعلیٰ ترین ملازمت کرتے ہیں، متوسط اور ادنی درجے کی ملازمتیں بالکل نہیں کرتے۔ ان میں مارواڑی، سندھی، جین، سکھ جیسی چھوٹی کمیونٹیز شامل ہیں لیکن مسلمانوں کا رویہ اس کے بالکل برخلاف ہے۔ ویسے بھی اعلیٰ تعلیم میں ہمارا فیصد شرمناک حد تک بہت کم ہے۔ اسکول میں داخلہ لینے والے سو طلبہ میں سے گریجویشن تک پہنچتے پہنچتے صرف تین طلبہ رہ جاتے ہیں جس کے معنی یہ ہوئے کہ تعلیم حاصل کرنے والے صرف تین فیصد طلبہ جو گریجویشن تک پہنچتے ہیں ۔ ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور ٹیچرز، پروفیسرز وغیرہ شامل ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ بقیہ ۹۷؍ فیصد لوگ کہاں چلے جاتے ہیں ؟ 
 چلئے! اب ہم تین فیصد کی بات نہیں کرتے۔ اب ہم ان۹۷؍ فیصد کی بات کرتے ہیں جو کہیں کسی نہ کسی کاروبار میں لگ جاتے ہیں تجارت کرنے لگتے ہیں یا پھر کسی ہنر کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیتے ہیں ۔ آج کل اوپن یونیورسٹیز ٹیکنیکل یونیورسٹیز اور ٹیکنالوجی یونیورسٹیز نے ہنر کو بھی تعلیم سے جوڑ دیا ہے۔ جو لوگ تجارت یا کاروبار کرتے ہیں یا کسی ہنر سے وابستہ ہیں ان لوگوں کے ان یونیورسٹیز اور کالجز نے بہت سارے کورسیز متعارف کروائے ہیں اور انہیں باقاعدہ اور منظم طریقے سے اپ ٹو ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ’’اچھا بولنے کے فن کی ابتدا اچھی طرح سننے سے ہوتی ہے‘‘

ہمارے بہت سے نوجوان مستری، میکانک، اے سی ٹیکنیشینز، الیکٹریشین وغیرہ جیسے پیشوں سے وابستہ ہیں لیکن مختلف شعبوں اور پیشوں میں ہیں ہے ان کے پاس ایسی کوئی سرکاری اور مستند ڈگری، ڈپلومہ یا سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر آگے چل کر وہ کسی سرکاری اسکیم سے فائدہ حاصل کرسکیں۔ مجھے ذاتی طور پر بہت سارے لڑکے ملتے ہیں جو گھر رنگنے، الیکٹرک وغیرہ جیسے کام کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ سر، یہ ہنر ہم نے باقاعدہ تو کہیں نہیں سیکھا، البتہ کسی استاد کے پاس چند سال رہ کر یہ ہنر سیکھا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ڈپلومہ یا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہم نے کسی کالج سے اس کا کوئی سرٹیفیکیٹ یا ڈپلومہ کورس کیا ہے۔ اس صورت میں یہ لڑکے کئی بہترین مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ لاعلمی اور رہنمائی کی کمی کی بناء پر انھیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ میرا یہ خیال ہے کہ ایسے لڑکے عام طور پر دسویں یا بارہویں تک تو پڑھ ہی لیتے ہیں۔ ہماری کئی اوپن یونیورسٹیوں اور اور پیشہ ورانہ تعلیم دینے والے سرکاری اداروں نے دسویں اوربارہویں پر مشتمل بہت سے کورسیز متعارف کروائے ہیں ۔ ان میں سب سے نمایاں آئی ٹی آئی ( انڈسٹریل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ) یا اسکل انڈیا کے مختلف پیشہ ورانہ کورسز ہیں۔ یشونت راؤ چوان مہاراشٹر اوپن یونیورسٹی یا کسی اوپن یونیورسٹی کے بیشتر پیشہ ورانہ کورسز دستیاب ہیں جو ہنر مندوں اور کاریگروں کو ان کی دلچسپی کے شعبے میں یعنی وہ جس شعبے میں کام کر رہے ہیں، جو ہنر ان کے ہاتھ میں ہے اسی میں ان کو کوئی سرٹیفکیٹ یا ڈپلومہ دیتے ہیں جس کیلئے کورس مکمل کرنا ہوتا ہے۔ ان کورسیز کی فیس بھی بہت زیادہ نہیں ہوتی لیکن بہت سے نوجوان مجھ سے مل کر کہتے ہیں کہ سر، ہمیں تو کسی نے بتایا ہی نہیں۔ ہم کو تو گائیڈنس ہی نہیں ملا۔ ہمارے ہاتھ سے فلاں پروجیکٹ نکل گیا کیونکہ ہمارے پاس کوئی سرٹیفکیٹ اور ڈپلومہ نہیں تھا اور دوسروں کو مل گیا۔ وہ اس کیلئے واضح طور پر مذہبی تعصب کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن انھیں یہ علم نہیں کہ آپ اسکیم کی بنیادی شرائط پوری کرنے کے اہل ہی نہیں تھے۔ جب کہ دوسری قوم کے ہنرمندوں نے اپنی پیشہ ورانہ اہلیت کی بنیاد پر وہ پروجیکٹ حاصل کرلیا۔ دوسرے مذاہب کے کاریگر اور ہنرمند یہ واقفیت رکھتے ہیں اور وہ ڈپلومہ اور سند وغیرہ حاصل کرتے ہیں اس لیے ان کو یہ مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ ان میں اس تعلق سے بیداری بھی ہے۔ اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ ان میں جتنے بھی ٹیکنیشینز، کاریگر اور ہنرمند ہیں، وہ تمام یا ان کی اکثریت نے کسی نہ کسی یونیورسٹی یا کالج سے ڈپلومہ یا سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہوتا ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ ہماری ملت کے وہ نوجوان جو بڑی کثیر تعداد میں کسی نہ کسی ہنر سے وابستہ ہیں، وہ اپنے متعلقہ پیشے میں سرکاری مستند سرٹیفکیٹ یا ڈپلومہ حاصل کرنے کو فوقیت دیں۔ ہر سال ان کورسز میں داخلوں کیلئے تاریخوں کا اعلان ہوتا ہے لیکن ہمارے نوجوانوں میں سے کوئی بھی اس پر توجہ نہیں دیتا۔ وہ اسے غیر اہم سمجھتے ہیں ۔ کئی مرتبہ یوں ہوتا ہے کہ حکومت کے ٹینڈر نکلتے ہیں لیکن اس کی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ نے کوئی پیشہ ورانہ ڈپلومہ یا سرٹیفکیٹ کر رکھا ہو۔ ہمارے نوجوان یہ سرٹیفکیٹ کئے ہوتے ہیں اور نہ ہی ڈپلومہ کئے ہوتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بیرون ملک ان کیلئے روزگار کے بہتر مواقع دستیاب ہوتے ہیں لیکن وہاں بھی شرط یہی پیشہ ورانہ ڈپلومہ یا سرٹیفکیٹ کی ہوتی ہے جو انہوں نے حاصل نہیں کیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے وہ موقع نکل جاتا ہے۔ میں ان کریئر گائیڈ اور کریئر کونسلرحضرات سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی کونسلنگ کے دوران اس ایک بڑے طبقے کا بھی خیال رکھیں اور صرف نیٹ، جے ای ای، میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں طلبہ کی بھرپور رہنمائی پر ہی اپنی توجہ مرکوز نہ رکھیں بلکہ عام لوگ جو دسویں اور بارہویں پڑھ کر تعلیم چھوڑ دیتے ہیں اور کسی ہنر اور پیشے میں لگ جاتے ہیں ان پر بھی توجہ مرکوز کریں اور دسویں بارہویں کامیاب نوجوان جو کسی پیشے یا ہنر یا تجارت سے وابستہ ہیں، ان کی خصوصی رہنمائی کرکے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس سال بھی آئی ٹی آئی میں داخلوں کی تاریخوں کا اعلان ہوچکا ہے۔ خواہشمند طلبہ اپنے قریبی کالج میں ایڈمیشن لے سکتے ہیں ۔ یہ فارم آن لائن طریقوں سے بھرے جاتے ہیں ۔ ان کی فیس بھی زیادہ نہیں ہے۔ ان کورسیز میں اقلیتوں کیلئے نشستیں محفوظ ہیں، اسلئے ایڈمیشن کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی یونیورسٹیوں میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر مبنی کورسیز دستیاب ہوتے ہیں۔ شرط ہے کہ وقت رہتے واقفیت حاصل کی جائے اور داخلہ لینے میں پس و پیش نہ کیا جائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK