برطانوی امریکی صحافی ، ٹیلی ویژن اینکر اور سیاسی مبصرمہدی حسن کی کتاب ’وِن ایوری ارگیومینٹ‘ کا جائزہ۔ اپنے علم اور تجربات سے انہوں نے اس کتاب کو ایک عملی گائیڈ بنا دیا ہے۔
EPAPER
Updated: June 09, 2024, 1:03 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
برطانوی امریکی صحافی ، ٹیلی ویژن اینکر اور سیاسی مبصرمہدی حسن کی کتاب ’وِن ایوری ارگیومینٹ‘ کا جائزہ۔ اپنے علم اور تجربات سے انہوں نے اس کتاب کو ایک عملی گائیڈ بنا دیا ہے۔
گزشتہ دنوں ہم نے ان کالموں میں `بحث کرنے والے ہندوستان کا تذکرہ کیا تھا۔ آج اسی موضوع کے بالکل دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کرتی ایک کتاب ’’ہر بحث کو جیتئے: مباحثہ، خطابت اور قائل کرنے کا فن‘‘ کا تعارف پیش کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس یہ کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ اس کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوئیں۔ زیادہ قارئین نے اسے اس لئے خریدا کے اس کا مصنف ان کا محبوب ٹی وی اینکر مہدی حسن ہے۔ فنِ گفتگو میں بلا کی مہارت رکھنے والے مہدی حسن نے اپنے علم اور تجربات سے کتاب کو ایک عملی گائیڈ بنا دیا ہے۔ فن خطابت اور عوامی بحث و مباحثہ میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے یہ کتاب معلومات کا ایک مجموعہ بھی ہے اور ہلکی پھلکی کتب بینی کا ایک دلچسپ تجربہ بھی۔
مہدی حسن ایک برطانوی امریکی صحافی، ٹیلی ویژن اینکر، سیاسی مبصر اور عوامی مقرر ہیں ۔ بہت مشہور ہیں۔ ان کے والدین ہندوستانی نژاد تھے۔ آکسفورڈ میں تعلیم کے بعد انھوں نے بی بی سی اوراسکائی نیوز سمیت کئی اداروں میں کام کیا۔ اخبارات کے لئے بھی کالم لکھتے رہے۔ الجزیرہ چینل کیلئے اپ فرنٹ اور دی کیفے نامی پروگراموں کے ذریعے ان کا تعارف بڑے پیمانے پر ہوا۔ پھر ان کے پروگرام، `دی مہدی حسن شو کے نام سے، MSNBC اور پیکاک چینلوں پر بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے اخبار گارجین میں کالم نگاری کی اور دی ہفنگٹن پوسٹ کے سیاسی ایڈیٹر رہے۔ گزشتہ سال اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد MSNBC نے اپنے چینل پر ان کے اور دو دیگر مسلم صحافیوں کے شو بند کردیئے۔ اس سال مہدی نے اپنی ذاتی میڈیا کمپنی ’زیتیو‘ کے نام سے قائم کی۔ مہدی حسن نے دنیا کی کئی مشہور شخصیات کے انٹرویو کئے۔ زبان وبیان پر مکمل قدرت ان کے اندازِسخن کوشاندار بنا دیتی ہے۔ پروگرام کے دوران جارحانہ تیور اور مشکل سوالات، ۴۴ سالہ مہدی حسن کے طرز کی شناخت ہیں۔ ان کا انگریزی چینل’زیتیو نیوز‘ اس وقت بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے۔ زیتیو، ایک قدیم یونانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں تلاش کرنا، دریافت کرنا، سچ کی گہرائ تک پہنچنا۔ مہدی کے مطابق یہ پلیٹ فارم ’’آپ کیلئے سخت انٹرویوز اور بے لاگ تجزیے لائے گا جو آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: اچھے نتائج میں مسلم ووٹرس کا اہم کردار
مہدی کے مطابق زندگی میں بحث سے فرار ممکن نہیں۔ چاہے سوشل میڈیا پر ہو، پارلیمنٹ میں ہو یا کھانے کی میز پر، ہم سب اپنے اختلاف رائے کو آواز میں ڈھالنے کی انسانی خواہش کو محسوس کرتے ہیں۔ بحث و مباحثہ کے کچھ منفی اثرات ہو سکتے ہیں لیکن مصنف کا دعویٰ ہےکہ بحث اور دلیل جمہوریت کی جان ہے۔ وہ سچائی کو قائم کرنے، نئے خیالات کیلئے ہمارے ذہنوں کو کھولنے اور مسائل کی شناخت کے ذریعے اپنی راہ پرپیشقدمی کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ ہمیں صرف بحث کے طریقوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ کتاب ہمیں قدیم یونانیوں سے چرچل، مارٹن لوتھر کنگ، ٹونی بلیئر اور الزبتھ وارن تک تاریخ سے حوالے پیش کرتے ہوئے، اپنے نقطہ نظر پر دوسروں کو قائل کرنے کے فن کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس اہم ہُنر میں کیسے مہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔
جب آپ بحث یا تقریرکریں، تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ نے اپنے سامعین کےمتعلق خوب معلومات حاصل کرلی ہے۔ سامعین اور ناظرین کے مطابق اس زبان میں ترمیم کریں جو آپ اپنا دلائل پیش کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اپنے دلائل کو سامعین کی دلچسپیوں کے مطابق بنائیں۔ ایسی اپیل کریں جو سامعین کے اعتقادات کے مطابق ہوں۔ سامعین کی مناسب تعریفیں کریں اس طرح درمیان میں حائل دیواروں کو گرائیں۔
حسن لکھتے ہیں کہ احساسات پر توجہ مرکوز کریں، نہ کہ صرف حقائق پر۔ ہمارے احساسات شاذ و نادر ہی حقائق کی پروا کرتے ہیں۔ صرف لوگوں کے ذہنوں ہی کو نہیں، ان کے دلوں کو بھی اپیل کریں۔ سقراط اورافلاطون کے طرف رجوع کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ دلیل جیتنے کے تین طریقے ہیں، ساکھ اور شہرت پر مبنی ایک اپیل، منطقی اپیل اور جذباتی اپیل۔ حقیقی کہانیاں سنائیں ۔ جذباتی طور پر طاقتور کہانی مخاطب کو قائل کرنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔ حسن مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے مخالف کو پوری تیاری کے ساتھ چیلنج کریں ’’جھوٹ کو جھوٹ کہئے۔ سچ کا اعلان کیجئے۔ ‘‘ کسی موضوع پر دوسروں کوقائل کرنے کے لئے پہلے خود کو قائل کریں۔
مہدی کہتے ہیں کہ سچ کی قلت کے اس دور میں، سچائی، منطق اور حقیقت پر حملوں کیلئے تیار رہیں۔ حقائق پر مبنی ثبوت اکٹھا کریں اور اپنے مخالف کے خلاف مناسب وقت پر استعمال کیلئے تیار رکھیں۔ حقائق، اعداد و شمار اور اقتباسات جمع کریں۔ حقیقی، ٹھوس ثبوت دکھائیں ، گہری تحقیق، تقریرکےوقت آپ کی مددگار ثابت ہوگی۔ بحث کے دوران مخالفین کے پوشیدہ مفادات اور تنازعات کو ظاہر کرنے اوران کے قول وعمل میں تضارات کو اجاگر کرنے میں تکلف نہ کریں۔ موضوع کے علم پر مخالف کی قابلیت یا مہارت پر سوال بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔ اچھا بولنے کے فن کی ابتدا اچھی طرح، توجہ کے ساتھ سُننے سے ہوتی ہے۔ دورانِ پروگرام، موبائل فون میں مشغول نہ ہوں۔ اپنی گہری دلچسپی اورسروکارکے اظہار کیلئے سامعین، فریق مخالف اور ناظمِ مباحثہ سے متواتر آنکھوں کا رابطہ رکھنا اہم ہے۔
اپنے سامعین کو ہنسائیں۔ ہنسی اثر دکھاتی ہے۔ بیساختہ بنیں۔ چہرے کے تاثرات کے ساتھ مزاح کا مظاہرہ کریں۔ دلیل جیتنے کا ایک بہترین طریقہ سامعین کو اپنے مخالف پر ہنسانا بھی ہے۔ سامعین کے لیے مزاح، یادداشت اور ادراک کو بہتر بناتا ہے۔ توجہ اور مشغولیت کو بڑھاتا ہے۔ اپنے مخالفین کی سنجیدگی کو ہنسی سے اور ان کی ہنسی کو سنجیدگی سے شکست دیں۔
بحث کے دوران، لچکدار اور نتیجہ خیز بنیں۔ اپنے مخالف کے وار سے حاصل ہونے والی توانائی کو اُسی کو نااہل کرنے کیلئے استعمال کریں۔ مخالفین کو ان کے اپنے الفاظ، تضاد یا سوال کے ذریعے پھنسائیں۔ بحث کرنے والے اکثر ایک خطرناک حربہ استمال کرتے ہیں جسے Gish Gallop کہا جاتا ہے، جس کا مقصد مخالف کو غلط، غیرمتعلقہ یا احمقانہ دلائل کے سیلاب میں دفن کرنا ہوتا ہے۔ بہت مختصر مدت میں اتنی گھٹیا باتیں کیں جاتی کہ آپ کا مخالف ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے اکیلے بات نہ کرسکے۔ اس کے بعد، جب آپ ہر دعوے کی تردید کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو آپ کا مخالف فتح کا دعویٰ کرتا ہے۔ گِش گیلپ کا مقابلہ کرنے کیلئے، مہدی حسن ایک تکنیک متعارف کرواتےہیں۔ آپ کو بھی لفظی جنگ چھیڑنی پڑے گی۔ بکواس کو بکواس کہنا پڑے گا۔ اپنے مخالف کی کمزور ترین دلیل کا انتخاب کریں اور اسےچاروں شانے چت کردیں۔ کہتے ہیں کہ تجربے سے انھوں نے سیکھا ہے کہ اگر آپ مباحثہ جیتنا چاہتے ہوں توتحقیق اور ہوم ورک کو بہت زیادہ اہمیت دیجئے۔
حسن کی کتاب موثرفن خطابت اورعوامی مباحثوں کے موضوع پر پہلے سے موجود لٹریچر میں ایک گران قدراضافہ ہے۔ مثالیں، تاریخ، تجربات اور تحقیق اس کو ایک جاندار کتاب بناتی ہے۔ یہ کتاب ان تکنیکوں کا خاکہ ہے جوعوامی مقررین، پارٹیوں کے ترجمان، ٹی وی کے پینلسٹ، اورسرکاری اہلکار عوامی مقامات پر موثر ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کتاب مقررین کے لئے آسان، قابل عمل اورمفید سفارشات بھی پیش کرتی ہے۔ مہدی حسن نے اپنی کتاب کوذاتی قصوں، برطانیہ، امریکہ اور چین کے اعلیٰ سطحی سیاسی عہدیداروں کے ساتھ بہت سے انٹرویوز اور مباحثوں کے ذکر اور مثالوں سے تقویت بخشی ہے۔