آگری پاڑہ کے ۹۵؍سالہ عبدالکریم پٹیل نے وکالت کی تعلیم حاصل کی لیکن وکالت کرنے کے بجائے دودھ کی آبائی تجارت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا،اس کے بعد مختلف کاروبار سے ہوتے ہوئے ہوٹل کے کاروبار سے وابستگی اختیار کی اور آج بھی مصروف رہتے ہیں۔
EPAPER
Updated: August 25, 2024, 4:05 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
آگری پاڑہ کے ۹۵؍سالہ عبدالکریم پٹیل نے وکالت کی تعلیم حاصل کی لیکن وکالت کرنے کے بجائے دودھ کی آبائی تجارت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا،اس کے بعد مختلف کاروبار سے ہوتے ہوئے ہوٹل کے کاروبار سے وابستگی اختیار کی اور آج بھی مصروف رہتے ہیں۔
جنوبی ممبئی کے فعال سماجی کارکن سعید خان نےپیر۲۰؍اگست کو فون کرکےخیر خیریت دریافت کی اور پھر کہا کہ آپ کا اتوار کو شائع ہونے والا گوشۂ بزرگا ں کالم کا پابندی سے مطالعہ کرتا ہوں۔ بڑا دلچسپ اور معلوماتی کالم ہے۔ میرے تعلق میں آگری پاڑہ کے ایک بزرگ عبدالکریم راج محمدپٹیل ہیں، ان کی عمر ۹۵؍ سال ہے۔ مناسب ہو توان کی یادداشت کوبھی کالم میں جگہ دیں۔ اسی روزرات میں ۱۰؍ بجے عبدالکریم پٹیل سے ملاقات ہوئی۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ہونے والی گفتگو میں ان کے فرزند جنیدپٹیل، پوتے کعب پٹیل اور نواسے تابش ابوبکر پٹیل بھی شریک رہے۔
جنوبی ممبئی کے فاکلینڈ روڈ علاقے میں واقع مرغا گرین کمپائونڈ میں ۷؍ نومبر ۱۹۲۹ء میں عبدالکریم راج محمد پٹیل کی پیدائش ہوئی تھی۔ مرغا گرین کمپائونڈ کے سامنے واقع کلیان بلڈنگ کے حنفیہ میونسپل اُردوپرائمری اسکول سے چوتھی جماعت تک پڑھائی کرنے کے بعد انجمن اسلام سی ایس ایم ٹی سے ایس ایس سی اور اسماعیل یوسف کالج، جوگیشوری سے انٹر سائنس پاس کر کے چرچ گیٹ کےگورنمنٹ لاء کالج سے وکالت کی ڈگری حاصل کی لیکن گھر اورخاندان کے بڑے بزرگو ں کے مشورے پر وکالت کے پیشے سے دور رہے۔ عملی زندگی کا آغاز دودھ کے آبائی کاروبار سے کیا۔ بعدازیں اینٹ کی بھٹی، الیکٹروپلیٹنگ، اینوڈائزنگ، رئیل اسٹیٹ اور ہوٹل کے کاروبار سے منسلک رہے۔ پیرانہ سالی میں بھی گھر سے روزانہ کاروباری سرگرمیوں پر نظررکھتے ہیں۔ عبادت گزاری کے ساتھ روزانہ ٹائمز آف انڈیااور اکنامک ٹائمزکا مطالعہ محبوب مشغلہ ہے۔
عبدالکریم پٹیل کی ۱۹۴۴ء میں محمد علی جناح سے دہلی میں ملاقات ہوئی تھی۔ دراصل عبدالکریم پٹیل کے والد اور دیگر رشتے دار مسلم لیگ پارٹی سے وابستہ تھے۔ انہیں مسلم لیگ کے قومی کانفرنس میں دہلی مدعو کیاگیا تھا۔ ان لوگوں کےساتھ عبدالکریم پٹیل بھی دہلی گئے تھے۔ محمد علی جناح کی جانب سے کانفرنس کے شرکاء کو ہوٹل میں دعوت دی گئی تھی۔ عبدالکریم پٹیل والدین کے ساتھ ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عبدالکریم کو دیکھ کر جناح سمجھ گئے تھے کہ یہ لڑکا بھی ممبئی والوں کےساتھ آیا ہے۔ انہوں نے عبدالکریم کو بلاکر پوچھا، کہاں سے آئے ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ ہم ممبئی سے آئے ہیں۔ انہوں نے پھر پوچھاکیوں آئے ہو، جس پر عبدالکریم نے کہا کہ آپ نے خود ہمیں بلایا ہے اور پھر پوچھ رہےہیں کہ کیوں آئے ہو، یہ جواب سن کر وہ مسکرائے اور پھر مہمانوں میں مصروف ہوگئے۔
یہ بھی پڑھئے:’’آزادی سے قبل ملک میں ریڈیو کیلئے بھی لائسنس لینا پڑتا تھا‘‘
سن ۴۰ء کی بات ہے۔ اس دور میں عبدالکریم پٹیل جوگیشوری کے اوشیوارہ گائوں میں رہتے تھے۔ وہاں سے روزانہ انجمن اسلام اسکول ( سی ایس ایم ٹی)آتے تھے۔ اس وقت جوگیشوری بالکل پسماندہ علاقہ تھا۔ اوشیوارہ گائوں میں کچھ ہی گھر تھے۔ چاروں طرف جنگل ہونے سے علاقے میں سانپوں کی بہتات تھی۔ یہ پورا علاقہ بہرام جی کا تھاجوایک پارسی تھے۔ املاک کی دیکھ بھال کیلئے ان کا منیجر یہاں رہتا تھا۔ پورے گائوں میں منیجر کے پاس ہی ایک بیل گاڑی تھی۔ وہ بیل گاڑی کے ذریعے اوشیوارہ سے جوگیشوری اسٹیشن جاتاتھا کیونکہ اسٹیشن جانے کیلئے آمدورفت کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ اوشیوارہ سے جوگیشوری اسٹیشن آنے جانے کیلئے پورے علاقے میں وہی ایک بیل گاڑی تھی۔ وہ روزانہ صبح اوشیوارہ سے جوگیشوری اسٹیشن کیلئے بیل گاڑی سے نکلتا تو علاقے کے کچھ لوگوں کو جنہیں اسٹیشن جانا ہوتا تھا، بیل گاڑی میں بٹھا لیتا تھا۔ عبدالکریم متعدد مرتبہ اس کی بیل گاڑی سے جوگیشوری اسٹیشن گئے تھے۔
عبدالکریم پٹیل ۱۹۵۹ء میں پہلی مرتبہ پانی کے جہاز سے حج بیت اللہ پر گئے تھے۔ جہازکے قافلے کا امیر مدراس کے ایک صاحب کو بنایاگیا تھا، چونکہ وہ فرسٹ کلاس میں تھے لہٰذا انہیں اُوپری منزل سے نیچے اُتر کر دیگر حاجیوں کی کیفیت معلوم کرنے میں دقت ہو رہی تھی، اسلئے انہوں نے یہ ذمہ داری عبدالکریم کو سونپ دی تھی۔ عبدالکریم گروپ کی شکل میں حج پر گئے تھے۔ گروپ میں ایک شاعر بھی تھے۔ عازمین کی درخواست پر دوران ِ سفر ایک روز عشاء کی نماز کےبعد نعتیہ مشاعرہ کا انعقادکیاگیا تھا۔ پُرکیف ماحول اور منظرمیں منعقد کیا جانے والا مشاعرہ غیر معمولی کامیابی سے ہمکنا ر ہوا تھا۔ فجر کے وقت تک مشاعرہ جاری رہا۔ عازمین کے اصرار پردوران سفر ایک مرتبہ اور مشاعرہ منعقد کیاگیاتھا۔
عبدالکریم پٹیل کے بچپن کے دورمیں باسی عید کے دن حاجی علی درگاہ پر زائرین کی بڑی بھیڑ ہوتی تھی۔ میلہ کا سماں ہوتاتھا۔ ہزاروں لوگ یہاں جمع ہوتےتھے۔ حاجی علی جنکشن پر واقع بی ایم سی گارڈن سے لے کر ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم تک کے گرائونڈ میں میلہ لگتاتھا۔ چین کے کرتب باز کرتب دکھاتےتھے۔ کہیں جھولا لگتا تھاتو کہیں مداری بندر کے فن سے لوگوں کو محظوظ کرتاتھا۔ عبدالکریم پٹیل اپنے ساتھیوں کے ہمراہ یہاں پتنگ اُڑانے جاتے تھے۔ پتنگ اُڑانے سے زیادہ انہیں پتنگ لوٹنے میں دلچسپی تھی۔ یہاں کےمیلے میں شریک ہونےکیلئے بچوں کو باسی عید کا بے صبری سےانتظار رہتاتھا۔
بچپن میں عبدالکریم پٹیل کو فلمیں دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ انہوں نے اپنے آبائی گائوں بانس کانٹھا، گجرات میں کنتان ( پٹ سن کے پردہ) سے بنائی گئی اسکرین پر پروجیکٹر کے ذریعے دکھائی جانےوالی خاموش فلمیں بھی دیکھی ہیں ۔ ایک تو یہ فلمیں کنتان پر دکھائی جاتی تھیں دوسرے ناقص قسم کاپروجیکٹر ہونے سے ہر ۱۰۔ ۵؍ منٹ پر پروجیکٹر بند ہو جاتا تھا، جس کی وجہ سے فلم بند ہوجاتی تھی۔ اس دوران وہ اسی جگہ پر سوبھی جاتےتھے۔ اس کےباوجود بڑا لطف آتاتھا۔
عبدالکریم پٹیل کےفلم اداکار دلیپ کمار سے بھی مراسم رہے۔ ۹۲ء کے فساد کےدوران ان کی بیٹی جو گوریگائوں میں رہائش پزیر تھی، نے فون کر کے کہا تھا کہ ہم لوگ یہاں بہت بری طرح پھنس گئے ہیں ، چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے، اباکچھ کریں۔ اس موقع پر بیٹی کو تسلی دیتے ہوئے عبدالکریم پٹیل نے کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں ۔ انہوں نے فوراً دلیپ کمار کو فون کر کے وہاں کے حالات سے آگاہ کیا۔ دلیپ کمار نے کہا کہ صبح سے اسی طرح کے فون آرہےہیں۔ میں پولیس کو وہاں بھیجنےکی کوشش کرتا ہوں۔ اس کے بعد دلیپ کمار نے فوراً باندرہ ریجن کے اسسٹنٹ پولیس کمشنر آفتاب احمد خان کو فون کر کے حالات سے آگاہ کیا۔ بعدازیں پولیس نے گوریگائوں پہنچ کر حالات پر قابو کیا۔ عبدالکریم پٹیل، دلیپ کمار کی اس کوشش کو نہیں بھولتےہیں۔
عبدالکریم پٹیل کے والد کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے کےبڑے شوقین تھے۔ بالخصوص ہندوستان اور پاکستان کا میچ بہت دلچسپی اور جوش و خروش سے دیکھتے تھے۔ آزادی کےبعد۱۹۶۰ءمیں پہلی مرتبہ ہندوستان اور پاکستان کاٹیسٹ میچ بریبورن اسٹیڈیم چرچ گیٹ میں ہونےوالاتھا جس کے ۲؍ٹکٹ انہوں نے خریدے تھے۔ ٹکٹ خریدنے کے بعدانہوں نے عبدالکریم سے کہاتھاکہ میچ کے ۵؍دن ہم دونوں کوکوئی کام نہیں کرناہے۔ پانچوں دن ہم میچ دیکھنے جائیں گے۔ میچ دیکھنےکیلئے انہوں نےاپنے ایک عزیز کی بڑی دوربین کا بھی انتظام کیاتھاتھا۔ اسی دوربین سےہم نے وہ میچ دیکھاتھا۔ وہ ایک یادگار موقع تھا۔
جس دور میں عبدالکریم پٹیل مرغاگرین میں رہتےتھے، اس دوران اگرکسی کرائے دار کو ممبئی سے باہر یا آبائی وطن جانا ہوتاتھاتو لوگ اپنے گھر کو غیر مقفل چھوڑ جاتے تھے، گھر مقفل کرکے جانے پر کرائے کے رقم کی ادائیگی کرنی ہوتی تھی۔ ایسا اسلئے تھاکیونکہ مکان مالک سمجھتاتھاکہ گھر میں کچھ سامان ہے، اس لئےکرایہ دار گھر مقفل کرکے گیاہے، جس کی وجہ سے اس سے کرایہ لیاجاتاتھااور گھر کے کھلا ہونے پر کوئی کرایہ نہیں لگتا تھا۔ دو چارماہ بعد واپس آنے پر کرایہ دار اپنے گھر میں دوبارہ آباد ہوجاتاتھا۔ اس دوران ہمسائے اس گھر کی نگرانی کرتے تھے۔