• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’آزادی سے قبل ملک میں ریڈیو کیلئے بھی لائسنس لینا پڑتا تھا‘‘

Updated: August 18, 2024, 3:47 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

ؤپائیدھونی کے ۹۲؍سالہ نیازاحمد صدیقی کا تعلق اُترپردیش کے ضلع پرتاپ گڑھ سے ہے،تعلیم زیادہ حاصل نہیں کرسکے تھے، اسلئے اپنے آبائی پیشے ’چھپائی اور رنگائی‘ سے وابستہ رہے، اس کے ساتھ ہی سماجی ، تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔

Niaz Ahmed Siddiqui. Photo: INN
نیاز احمد صدیقی۔ تصویر : آئی این این

جنوبیممبئی پائیدھونی کے ایک معروف سماجی کارکن نے گزشتہ دنوں فون کر کے جاملی محلہ کے اپنے ایک معمر ساتھی کو گوشۂ بزرگاں کالم میں شائع کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے ان سے ملاقات کا وقت بھی طے کرا دیا۔ جاملی محلہ میں چھیپا برادری کے دفتر میں اتوار ۱۱؍ اگست، مغرب کی نماز کے بعد ہماری ملاقات ہوئی۔ تقریباً ایک گھنٹہ تک ان سے ہونے والی گفتگو انتہائی کارآمد رہی۔ 
 اُترپردیش، ضلع پرتاپ گڑھ کے نواب گنج میں پیدا ہونےوالے ۹۲؍سالہ نیازاحمد صدیقی جاملی محلہ میں تقریباً ۵؍ سال کی عمر سے رہائش پزیر ہیں ۔ جنوبی ممبئی کے مختلف میونسپل اُردو اسکولوں سے تعلیم حاصل کی۔ طالب علمی کے زمانے سے آبائی پیشے سے وابستہ رہے۔ جب تک کاروباری اعتبار سے فعال رہے، چھپائی اور رنگائی کے کام سے وابستگی رہی۔ اس دوران وہ سماجی، تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ عمر کے اس مرحلے پر بھی بھی نیاز احمد متعدد تنظیموں سےمنسلک ہیں۔ خوش لباسی ان کا شوق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمررسیدہ ہونے کے باوجود ان کی نوابی وضع وقطع برقرار ہے۔ مخصو ص قسم کے کرتا، پائجامہ، شیروانی اورٹوپی میں ملبوس دیکھ کر ان کے ’علیگ ‘ ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ ضعیفی میں بھی صحت وحافظہ کے لحاظ سے قابل رشک شخصیت کے مالک ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:’’ شکرنہیں ملتی تھی، اس کی وجہ سے میٹھی گولی سے چائے بنائی جاتی تھی‘‘

نیاز احمد صدیقی کو اپنی تاریخ پیدائش یاد نہیں ہے لیکن۱۹۴۲ء میں انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کی سول نافرمانی کا پورا منظر ان کے ذہن پر نقش ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اُس وقت شعور کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ اس دوران ممبئی میں ٹراموں کو جلائے جانے، بسوں میں ہونے والی توڑ پھوڑ، راشن کی دکانوں پر لوٹ مار کی وارداتیں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے واقعات انہیں اچھی طرح سے یاد ہیں کیونکہ اُن واقعات کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کرافورڈ مارکیٹ پر واقع کلاک ٹائور کے شیشے کو بھی اسی دوران توڑا گیا تھا جو آج تک نہیں بن سکا ہے۔ اس کے علاوہ اس دوران ممبئی میں ہونےوالی افراتفری بھی انہیں یاد ہے۔ وہ واقعات جب بھی ان کے ذہن کے پردے پر نظر آتے ہیں تو وہ ان کےبارے میں سوچ کر جذباتی ہوجاتےہیں جنہوں نے ملک کی آزادی کیلئے قربانیاں پیش کی تھیں۔ 
 جاملی محلہ میں نیاز احمد صدیقی کا آبائی مکان ہے، جہاں ان کے ایک بھائی جو شاعر ہیں، پہلے وہ بھی ان کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔ اُن دنوں اُن کے پاس معروف شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی ملاقات کیلئے آیا کرتے تھے۔ گھر پرآنے کی وجہ سے نیاز احمد صدیقی کے بھی شکیل بدایونی سے مراسم ہوگئے تھے۔ اسی تعلق کی بنیاد پر بعدکے دنوں میں نیاز احمد صدیقی بھی شکیل بدایونی سے ملاقات کیلئے کبھی کبھار باندرہ، پالی ہل جایا کرتے تھے۔ وہاں پر ایک ہی مکان میں شکیل بدایونی نیچے اور عظیم موسیقار نوشاد صاحب اُوپر کے حصہ میں رہا کرتے تھے۔ شکیل بدایونی کے چھوٹے سے گھر کے ایک گوشے میں اُن کی کرسی اور میز ہوا کرتی تھی، جسپر بیٹھ کر شکیل صاحب لکھتے پڑھتےتھے۔ 
 نیاز احمد صدیقی نے نوٹنکی (ڈراموں کی ایک قسم) کے زوال اور سنیماگھروں کے اُبھار کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ جنوبی ممبئی میں پلے ہائوس ( گرانٹ روڈ ) پر واقع تاج، الفریڈ اور دیگرچند ٹاکیز ایسے ہیں جو کسی دور میں نوٹنکی کیلئے مشہور تھے۔ اوپیراہائوس، میجسٹک اور امپریل تھیٹر میں بھی نوٹنکی ہوا کرتی تھی۔ نوٹنکی دیکھنے کاکچھ الگ ہی لطف تھا۔ ان ٹاکیزوں میں اسٹیج پرہونے والی نوٹنکی میں حصہ لینے والے فنکار اپنی اداکاری کے ذریعے شائقین کو محظوظ کیا کرتے تھے۔ نوٹنکی کی جگہ جب فلموں نے لی تو تفریح کی دنیا میں ایک انقلاب آیا، لو گ پردے پر فنکاروں کو مظاہرہ کرتے دیکھ کر خوب محظوظ ہوئے۔ لیکن اس کی وجہ سے نوٹنکی کو بڑا نقصان پہنچا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب نوٹنکی نے پوری طرح سے دم توڑدیا۔ 
 نیازاحمد صدیقی ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ اس وقت ان کے اُستاد عبدالحمید نے مضمون نویسی کا ایک مقابلہ منعقد کیا تھا۔ نیازاحمد نےبھی اس مقابلے میں حصہ لیا تھا۔ ان کا مضمون پڑھ کر اُستاد بہت خوش ہوئے تھے اور ان کی بڑی تعریف کی تھی۔ خوشی کے عالم میں انہوں نے نیاز احمد کی بیاض پر’’ رخصت کے واقعات کا اتنا تو ہوش ہے، دیکھا کئے ہم ان کو جہاں تک نظر گئی‘ ‘ شعر لکھا تھا۔ وہ شعر انہیں اب بھی ازبر ہے۔ 
 یہ تقریباً ۵۰؍ سال قبل کی بات ہے۔ جاملی محلہ میں نیاز احمد کے گھر کے پاس ایک صاحب رہتے تھے جو اکثر و بیشتر نیاز احمد سے خرچ کیلئے ۵؍ روپے طلب کیا کرتے تھے۔ ان کی مالی کسمپرسی کی وجہ سے نیاز احمد ان کی ہمیشہ مدد کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہیں ۱۵؍ روپے کی ضرورت تھی، انہوں نے ان سے ۱۵؍ روپے کا مطالبہ کیا لیکن اتفاق سے اس دن ان کے پاس پیسے نہیں تھے، اسلئے انہوں نے معذرت چاہ لی۔ وہ صاحب خالی ہاتھ لوٹ گئے۔ اس کے بعد کافی دن گزر گئے، وہ ان کے پاس نہیں آئے، جس کی وجہ سے انہیں تشویش لاحق ہوئی۔ بعد ازاں وہ خود ان کے گھرپہنچ گئے، جہاں پتہ چلاکہ ان کا انتقال ہوگیا۔ یہ سنتے ہی نیازاحمد کو بڑا صدمہ پہنچا۔ انہیں اب بھی اپنے اس ساتھی کو ۱۵؍ روپے نہ دے پانےکا ملال ہے۔ ( اس واقعہ کو سناتےہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے تھے) 
 ایک مرتبہ ممبئی میں بھیانک سمندی طوفان آیا تھاجس کی وجہ سے ساحل پر رکھے پتھرجنہیں ۵۰؍آدمی مل کر بھی ہلا نہیں سکتے تھے، وہ تنکوں کی طرح بہہ کر شہر کےمختلف علاقوں میں پھیل گئے تھے۔ طوفان کےختم ہونے پر نیاز احمد کے والد انہیں گیٹ آف انڈیا لے گئےتھے۔ میوزیم کے قریب، انہوں نے نیازاحمد کو وہ پتھر دکھائے تھے جو طوفان کی وجہ سے بہہ کر وہاں پہنچ گئے تھے۔ 

یہ بھی پڑھئے:آزادی کی جنگ میں مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا

 نیا ز احمد کی نوجوانی کےدنوں میں ذرائع ابلاغ کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا لیکن اُن دنوں ریڈیو صرف متمول گھرانوں ہی میں ہوا کرتا تھا۔ کچھ لوگ تھے جن کے یہاں ریڈیو کی سہولت مہیا تھی۔ لوگ ان کے گھروں پر دنیا جہان کی خبریں سننے کیلئے جمع ہوتے تھے۔ ریڈیو سائزمیں کافی بڑا ہوتا تھا۔ ریڈیو سننے کیلئے ا س کے اطراف میں بانس کی ۲؍ لکڑیاں نصب کی جاتی تھیں۔ ان لکڑیوں میں تار لگائے جاتے تھےتاکہ وہ ایئریل کا کام کرسکیں۔ ریڈیو سیلون اور بی بی سی لندن معروف ریڈیو اسٹیشن تھے جن پر روزانہ رات کو خبریں نشر ہوتی تھیں ۔ ۱۹۴۵ء میں برما میں بم دھماکہ ہوا تھا۔ اس دور میں نیاز احمد کے والد اور دادا برمامیں کاروبار کرتے تھے۔ اس لئے وہ اپنے ایک شناسا، جن کے گھر میں ریڈیوتھا، وہاں جاکر برماکی خبریں سنتے تھے۔ اس دور میں ریڈیو رکھنے کیلئے لائسنس کا ہونا لازمی تھا۔ جس دکان سے ریڈیو خریدا جاتا، وہی دکاندار لائسنس بناکر دیتا تھا۔ ان دنوں ریڈیو پر پیش کی جانے والی خبروں بالخصوص بی بی سی اور ریڈیو سیلون میں اردو کا بہت اچھا استعمال ہوتا تھا۔ 
 نیاز احمد کو بچپن سے گیٹ وے آف انڈیا کا سیر کرنا بہت پسند ہے۔ اُس دور میں بھی وہ علاقہ بہت صاف ستھرا تھا۔ وہ امیر انگریزوں کا علاقہ تھا۔ ریگل سنیما سے قلابہ تک انگریز ہی آباد تھے۔ یہاں ان کے بڑے بڑے عالیشان گھر تھے۔ عام لوگ اس علاقے میں جانے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ وہاں بڑے بڑے ہوٹل بھی تھے، جن میں صرف انگریز ہی جاتے تھے کیونکہ وہی لوگ ان ہوٹلوں کے مہنگے پکوانوں کی قیمت ادا کر سکتے تھے۔ اتوار کو گیٹ آف انڈیا پر آرکیسٹرا ہوا کرتا تھا۔ تفریحی اعتبار سے یہ علاقہ خاص ہونے کے ساتھ ہی بہت دلکش اور خوبصورت بھی تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK