• Fri, 01 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مرکزی وزیر ہیم وتی نندن بہوگنانے وزیراعلیٰ وسنت پاٹل کےسامنےمجھےبلاکرفسادزدہ گاؤں کی جانکاری لی تھی

Updated: January 14, 2024, 1:08 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

وکھرولی پارک سائٹ، ممبئی میں زندگی کا بیشترحصہ گزارنے والے عبدالرحمان شریف عبد الحفیظ فی الحال شیل پھاٹا، کوسہ میں مقیم ہیں،۷؍سال کی عمرمیں وہ پولیو سے متاثر ہوگئے تھے، اس کےباوجود الیکٹرانک ڈپلومہ کاکورس کرکے انہوں نے ایک کامیاب زندگی گزاری۔

Abdul Rahman Sharif Abdul Hafeez. Photo: INN
عبدالرحمان شریف عبدالحفیظ۔ تصویر : آئی این این

وکھرولی پارک سائٹ کے عبدالرحمان شریف عبدالحفیظ جو فی الحالشیل پھاٹا،کوسہ میں مقیم ہیں ،سے ہمارے ایک دفتری ساتھی کے توسط سےمتعارف ہونےکا موقع ملا۔اتوار ۷؍ جنوری کو ظہر بعد ملاقات کاوقت طے پایا۔ ممبرا کوسہ کی سب سے بڑی ،خوبصورت اور معروف ’دوستی پلانیٹ سوسائٹی‘ کے ایمرالڈ، بی ونگ کی۱۰؍ویں منزل پر مقررہ وقت پر پہنچنے کیلئے لفٹ سے باہر نکلنے پر ایک فلیٹ کا دروازہ کھلا دکھائی دیاجس سے عبدالرحمان صاحب کا فلیٹ ہونے کابخوبی اندازہ ہورہاتھا۔ فلیٹ کےہال میں بیٹھے ایک سن رسیدہ شخص پر نظرپڑی۔وہ قدیم زمانےکی آرام دہ کرسی جو دری نما کپڑے سے بنائی ہوئی تھی،پر بیٹھے اخبار بینی کرتے دکھائی دیئے۔ اخبار کی وجہ سے ان کا چہرہ نہیں دکھائی دے رہاتھا۔ راقم کے سلام کرنےپر انہوں نے بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ ۲؍ بیڈ روم کے فلیٹ کے ہال میں ایک جانب فرش پر خوبصورت کارپیٹ اور دوسری طرف صوفہ نما بستر سجاتھا۔ چھوٹی میزخوبصورت گلدانوں سے مزین تھی۔ سلیقے سے رکھی ہوئی چند کرسیاں مہمان کو بیٹھنے کی دعوت دے رہی تھیں۔ 
 عبدالرحمان کے چھوٹے بیٹے فرحان شریف کےمطابق یہاں ۲۹؍ منزلے کی ۱۱؍عمارتیں ہیں جن میں ساری آرائشی سہولیات موجود ہیں ۔ یہ لودھا بلڈر کا ایک اہم پروجیکٹ تھا۔ یہ سوسائٹی صرف برادران ِ وطن کیلئے بنائی گئی تھی لیکن برادران وطن کی جانب سے متوقع رسپانس نہ ملنے سے مجبوراً مسلمانوں کے ہاتھوں فلیٹ فروخت کرناپڑا۔ سوسائٹی میں اکثریت مسلمانوں کی ہی ہے۔رسمی گفتگو کےبعدعبدالرحمان سے ایک گھنٹہ ۱۱؍ منٹ تک ہونےوالی طویل بات چیت کےد وران انہوں نے اپنی ۷۵؍ سالہ زندگی سےمتعلق جن اہم اور کارآمدواقعات کا ذکر کیاوہ دلچسپ ، حیرت انگیز اور کافی معلوماتی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: محمدعلی کلےنےانجمن اسلام اسکول کےدورہ کےموقع پر کہاتھاکہ دوبارہ طالب علم بننےکادل کررہاہے

 عبدالرحمان کےوالدین ۵۰ء کی دہائی میں ، جھولا میدان (مدنپورہ)  کے سامنے واقع عبدالرحمان لکڑا والا بلڈنگ میں رہائش پزیر تھے ۔ اس دور میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔بلڈنگ کی خستہ حالی کی وجہ سے شہری انتظامیہ نے ۲۷؍دسمبر۱۹۶۲ءمیں اس بلڈنگ کو خالی کراکر یہاں کےمکینوں کو پارک سائٹ منتقل کیاتھا۔ یہاں معیاری اُردو اسکول نہ ہونے سے ان کے والد نے انہیں اُردو کےبجائے گھاٹ کوپر کے ہندی ہائی اسکول میں داخل کرایاتھا۔ یہاں سے ایس ایس سی کرکے جھنجھن والا کالج گھاٹ کوپر سے ایچ ایس سی پاس کرنے کےبعد سینٹ جارج انسٹی ٹیوٹ سے الیکٹرانک ڈپلومہ کا کورس کیا۔ پڑھائی کےبعد معروف الیکٹرانک کمپنی ٹیلی ریڈ میں بطور کوالیٹی کنٹرول انسپکٹر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔ یہاں ۸؍سال تک اپنی خدمات پیش کیں ۔بعدازیں بُش انڈیا نامی کمپنی سے ۹؍سال تک جڑے رہے۔ ان کمپنیوں میں ملازمت کےدوران مزدوروں کی حق کی لڑائی کیلئے یونین میں بھی سرگرم رہے۔ایک ساتھی یونین لیڈر کےقتل کئے جانے سے دلبراشتہ ہوکر ملازمت اور یونین لیڈر شپ چھوڑ کر ایک خیر خواہ کی مدد سے گودریج کمپنی کے ٹائپ رائٹر کے ڈھانچے کا کام شروع کیا۔ ۲۰۰۵ء تک یہ کاروبارکیا۔ اس کےبعد پارک سائٹ کے مساجد،قبرستان اور مدارس کے علاوہ سماجی ،سیاسی اور ملی خدمات سے منسلک رہے۔ ۶؍سال قبل پارک سائٹ سے ممبرا منتقل ہوئے ۔اس کے بعد سے ان کی سرگرمیاں کافی کم ہوگئی ہیں۔ 
 یہ ۵۸۔۱۹۵۷ءکی بات ہے۔اس دور میں پولیوکی وباء پھیلی ہوئی تھی۔ ایک سے ۱۰؍سال کی عمر کےبچے اس کا شکار ہو رہے تھے۔ عبدالرحمان کی عمر۷۔۶؍ سال تھی۔ایک روز اچانک رات کو تیز بخار آنے پرگھر والے گھبرا گئے ۔ صبح ہوتے ہوتے عبدالرحمان کی طبیعت مزیدخرا ب ہوگئی ۔ وہ ٹھیک سے اپنے پیروں پر کھڑے بھی نہیں ہوپارہےتھے۔ گھر والے انہیں فوراً نائر اسپتال لے گئےجہاں ڈاکٹروں نے تشخیص کےبعد پولیو کا حملہ ہونے کی تصدیق کردی۔ اس کے بعد انہیں علاج کیلئے نائر اسپتال داخل کیاگیا جہاں وہ ۶۔۵؍ دن اسپتال میں زیر علاج رہے۔ ڈاکٹروں نے پیروں میں پلاسٹرباندھ کر۳؍ماہ تک اسے نہ کھولنےکی ہدایت دی تھی لیکن عبدالرحمان نے ۲۲۔۲۰؍ دنوں میں ہی متعدد تکالیف کاعذر پیش کرکے پلاسٹر کھلوادیا تھا۔ اس کا اثریہ ہوا کہ زندگی بھر کیلئے وہ اپنے پیروں سےمعذور ہوگئے۔جس دور میں وہ نائر اسپتال میں زیر علاج تھے، اُن دنوں نائر اسپتال ۲؍طویل چالیوں اور ایک بڑے کمرے پر مشتمل ہواکرتاتھا۔ ان چالیوں میں تقریباً ۳۲۔۳۰؍ کمرے تھے جن میں مریضوں کیلئے بیڈ لگے تھے۔ بڑے کمرے میں اوپی ڈی ہواکرتی تھی۔ انہی انفراسٹرکچر کےساتھ نائر اسپتال جاری تھا۔
 بھیونڈی کے۱۹۸۴ءکےبھیانک فرقہ وارانہ فساد کاکچھ اثر ممبئی اور اطراف کے علاقوں پر بھی پڑا تھا۔ بالخصوص چیتا کیمپ زیادہ متاثر ہوا تھا۔ یہاں کےمسلمانوں پر ظلم وزیادتی کی گئی تھی۔ اس دور میں مرکزی وزیرایچ این بہوگنا بھیونڈی کا دورہ کرنے آئے تھے۔چیتا کیمپ کی معروف سماجی اورسیاسی شخصیت سراج مرزاکے بہوگنا سے قریبی مراسم تھے۔ وہ بہوگنا کو چیتاکیمپ لائے تھے۔ اس دورے میں بہوگناکےوفدمیں عبدالرحمان بھی شامل تھے۔ وفد ،پوری رات چیتاکیمپ کا جائزہ لینےکے بعدبھیونڈی روانہ ہواتھا۔ بھیونڈی کے کھونی گائوں میں مسلمانوں کی جان ومال کا بڑے پیمانے پر نقصان ہواتھا۔ یہاں کا دورہ کرنےکےبعد وفد براہ راست منترالیہ پہنچاجہاں بہوگنا نے وزیر اعلیٰ وسنت دادا پاٹل سےان کی آفس میں بھیونڈی فساد سےمتعلق بات چیت کی تھی۔اسی دوران انہوں نے چپراسی سے کہاکہ باہر عبدالرحمان نامی ایک شخص بیٹھا ہوا ہے، اسے بلالائو، چپراسی نے عبدالرحمان کو بلایا۔ وہ جب آفس میں پہنچے تو بہوگنا نے ان سے مخاطب ہوتےہوئے کہا تھاکہ عبدالرحمان بھیونڈی میں وہ کون سا گائوں ہے جہاں پر مسلمانوں کا قتل عام کیاگیاہے۔عبدالرحمان نے بتایا کہ کھونی گائوں ۔ یہ سنتے ہی وسنت دادا پاٹل نے میز پر رکھی رپورٹ کو دیکھااور کہاکہ ہاں کلکٹر کی رپورٹ میں اس گائوں کا نام شامل ہے۔ یہاں سے نکلنے پربہوگنا نے عبدالرحمان سے کہاکہ مجھے گائوں کا نام معلوم تھا لیکن میں نے دانستہ طورپر وسنت دادا پاٹل کےسامنے گائوں کا نام پوچھا تاکہ وہ تمہیں دیکھ لیں اورتمہارے نام سے واقف ہوجائیں تاکہ جب کبھی تمہیں ان سے ملنا ہوتو اس معاملے کا تذکرہ کرکے تم ان سے مل سکو۔ عبدالرحمان کےمطابق بڑے لوگوں کی بڑی باتوں کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔
 یہ ۱۹۸۸ء کی بات ہے۔ ممبئی میں طوفانی بارش ہوئی تھی جس کی وجہ سے شہرومضافات کے متعدد علاقے زیر آب آگئے تھے۔ پارک سائٹ کا گھاٹ کوپرمسلم قبرستان اس سے بہت متاثرہواتھا۔ نالے کا پانی پورے قبرستان میں داخل ہوگیاتھاجس سے بیشتر قبروں کی لاشیں باہر آگئی تھیں ۔ اس دوران ۳؍لاشوں کے بہہ جانےکی بھی افواہ پھیل گئی تھی جس سے علاقےمیں بڑی بے چینی پائی جارہی تھی۔ سیلابی کیفیت کے ختم ہونےپر علاقے کی ملی اورسماجی شخصیات نے قبرستان کی مرمت اور تزئین کا فیصلہ کیا۔ اس دورمیں ۶۰۰؍ ٹرک مٹی کی بھرنی کرکے نالے سے ۶؍ فٹ کی اونچائی والی چہاردیواری بنائی گئی تھی۔سیلابی پانی سے لاشوں کی بےحرمتی کا واقعہ بیان کرتےوقت عبدالرحمان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔
 بابری مسجد کی شہادت اور ۱۹۹۳ءمیں ہونےوالے بم دھماکوں کے بعد مساجداور قبرستان پر چھاپے مارنے کی تعداد میں اضافہ ہوگیاتھا۔ اسی دوران ایک رات پولیس کی بھاری جمعیت گھاٹ کوپر قبرستان آپہنچی۔ یہاں کے گورکن سے قبرستان کے صدر اور سیکریٹری کےبارےمیں دریافت کرنےکےبعد کہاکہ ہمیں سیکریٹری عبدالرحمان کا گھر بتائو، پولیس عبدالرحمان کےگھر پہنچی۔ان کےپوچھنےپر پولیس نے بتایا کہ ہمیں شکایت ملی ہے کہ قبرستان میں آرڈی ایکس( دھماکہ خیز مادہ ) کا ذخیرہ آیاہے جس کی ہم تصدیق کرناچاہتےہیں ۔یہ بتاکر پولیس انہیں ڈیرھ بجے رات قبرستان لے آئی ۔ قبرستان میں موجود اعلیٰ پولیس افسران نے بھی اسی طرح کی بات بتائی جس پر عبدالرحمان نے تفتیش کرنے کی درخواست کی۔پولیس پوری تیاری کےساتھ آئی تھی۔ رات بھر قبروں کوکھود کر پولیس نے تلاشی لیکن پولیس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ بالآخر پولیس کے اعلیٰ افسران، عبدالرحمان سے معذرت طلب کرکے لوٹ گئے لیکن اس پوری کارروائی کےدوران جس طرح عبدالرحمان کو گھر سے پولیس کےسخت بندوبست میں قبرستان لایاگیاتھا۔ وہ پریشان کن منظر انہیں اب بھی یاد ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK