بھیونڈی کےسینئر ترین اورمعروف قانون داں ایڈوکیٹ یاسین مومن۷۸؍سال کی عمر میں بھی پوری طرح فعال ہیں اور وکالت کے ساتھ ہی سماجی، سیاسی اورتعلیمی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا طالب علم ہونے کی وجہ سے ادب نواز بھی ہیں۔
EPAPER
Updated: June 02, 2024, 4:51 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
بھیونڈی کےسینئر ترین اورمعروف قانون داں ایڈوکیٹ یاسین مومن۷۸؍سال کی عمر میں بھی پوری طرح فعال ہیں اور وکالت کے ساتھ ہی سماجی، سیاسی اورتعلیمی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا طالب علم ہونے کی وجہ سے ادب نواز بھی ہیں۔
بھیونڈی کےسینئر ترین اورمعروف قانون داں ایڈوکیٹ یاسین مومن نےگزشتہ دنوں اچانک فون کرکے خیر وخیریت معلوم کرنے کے بعد کہا کہ آپ کاگوشۂ بزرگاں کا کالم بڑی پابندی سے پڑھتاہوں مگر آپ کاموبائل نمبر نہ ہونے سے رابطہ نہیں کرپارہاتھا۔ انقلاب کے ایک دیرینہ ساتھی سے آپ کاموبائل نمبر حاصل کرکے فون کررہاہوں۔ رسمی گفتگوکےبعد انہوں نے کہاکہ میری عمربھی ۷۸؍سال ہوچکی ہے۔ میں بھی اپنے تجربات اس کالم کیلئے شیئر کرناچاہتاہوں۔
اتوار ۲۶؍مئی کوکالم نگار نے کلیان سے ایڈوکیٹ یاسین مومن کو فون کرکےایک گھنٹہ میں بھیونڈی پہنچنے کی اطلاع دی۔ اس کال کےبعد وہ لگاتا کالم نگارکےرابطےمیں رہے۔ راقم کے بھیونڈی بس ڈپوسے منڈئی رکشہ اسٹینڈپہنچنےسے قبل یاسین مومن اسٹینڈ پر موجودتھے۔ انہوں نے نہایت گرمجوشی سے کالم نگار کااستقبال کیااور اپنی اسکوٹر پربٹھاکرپہلے کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کیمپس لے گئے۔ کیمپس کی تاریخی عمارتیں، ان کی خصوصیات کاتعارف پیش کرنے کے بعدوہ راقم کو بھوسارمحلہ قبرستان کے قریب اپنے گھرکی طرف لے گئے، جہاں ۳؍منزلہ خوبصورت ’عبدالجلیل منزل‘ کے قریب اسکوٹر پارک کرکے بتایاکہ یہ ہماری آبائی رہائش گاہ ہے۔ گرائونڈفلور کے کشادہ ہال میں داخل ہوتےہی ایک خوش گواراحساس ہوا۔ ہال کی دیواروں پرلگے اسلامی اور خوبصورت مناظر کےبڑے بڑے طغرے ہال کی زینت میں اضافہ کر رہے تھے۔ خوبصورت ڈیزائن والے صوفے، کرسیاں اور میز کے علاوہ شفاف فرش سے ماحول کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہورہا تھا۔ ممبئی سے بھیونڈی کا سفر کیسارہا؟ کوئی تکلیف تونہیں ہوئی ؟ اطمینان سے بیٹھیں، جسے رسمی کلمات کےبعدہم نےکالم سےمتعلق تقریباً ایک گھنٹہ تک گفتگوکی جو انتہائی اہمیت کی حامل رہی۔
یہ بھی پڑھئے: ہم بچے کسی بھی دودھ والے کے برتن سے گلاس بھر کر دودھ نکال لیتے اورپی جاتے تھے
اُترپردیش، ضلع الہ آبادکے پھول پور قصبہ میں یاسین مومن کی یکم مارچ ۱۹۴۶ءکو پیدائش ہوئی تھی۔ یہ چند ہی ماہ کے رہے ہوں گے کہ ان کے والد اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھیونڈی آگئے۔ منڈئی پر واقع ہندوستانی مسجد اُردواسکول میں اوّل تا سُوم اور پتھروالی اسکول میں چہارم جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ ۵؍ویں جماعت سے رئیس ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ یہاں سے۱۹۵۷ء میں دسویں جماعت پاس کیا۔ آگے کی پڑھائی کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں سے بی ایس سی پاس کیا۔ بعدازیں ممبئی کےچرچ گیٹ پر واقع گورنمنٹ لاء کالج سے وکالت کی پڑھائی کی۔ ایل ایل بی کی پڑھائی مکمل کرکے ۱۹۷۲ء سے وکالت شروع کی جو اَب بھی جاری ہے۔ اسی سال بھیونڈی کی معروف تعلیمی تنظیم کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی سےوابستہ ہوئے۔ اب بھی وہ سوسائٹی کیلئے نائب صدرکی حیثیت سے خدمات پیش کررہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پڑھائی کرنےکی وجہ سے انہیں اُردو زبان و ادب سے خاص رغبت ہے۔ سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں سرگرم رہنے کی وجہ سے بھیونڈی کے علاوہ ممبئی اور اطراف میں بھی خاصے مقبول ہیں۔
ایڈوکیٹ یاسین مومن نے بچپن ہی سےبھیونڈی کوبہت قریب سے دیکھاہے۔ دراصل یہ ہینڈلوم کاشہر تھا۔ اس شہر کو صنعتی بنانےمیں حاجی عبدالصمد حاجی لال محمدمومن کا بڑاہاتھ رہا۔ انہوں نے اہل بھیونڈی کو لوم کے کاروبار سے وابستہ ہونے کی ترغیب دینے کیلئے ’’سونا بیچو، لوہاخریدو ‘‘ کا نعرہ دیاتھا۔ اس کے بعد یہاں جو صنعتی انقلاب آیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں ہینڈلوم کی صنعت کو فروغ ملا۔ یوپی کے متعدداضلاع کے لوگ یہاں آکر آبا د ہوئے۔ آبادی بڑھی، لوگوں کوروزگارملا، خوشحالی آئی تو لوگوں نے یہاں زمینیں خریدیں۔ مالی خوشحالی سے یہاں آباد ہونے والوں کی زندگی میں تبدیلی آئی اور بھیونڈی لوگوں کی توجہ کامرکز بنا، لیکن آج بھیونڈی کی پاور لوم صنعت بحرانی کیفیت کاشکار ہے۔ ٹورنٹ پاور سپلائی کی مہنگی بجلی سے کاروباری پریشان ہیں، لوگ پاور لوم کاکاروبار بند کرنے پرمجبورہیں۔ تقریباً ڈھائی لاکھ پاورلوم بند بھی ہوچکےہیں۔
اسی طرح کی صورتحال کی وجہ سے بھیونڈی کی بنکربرادری نے ۸۵۔ ۱۹۸۴ء میں چکری بھوک ہڑتال کی تھی۔ یہاں کے بنکروں کا برا حال ہونےسے اس وقت کے مرکزی وزیر ضیاءالرحمٰن انصاری کو بھیونڈی بلایاگیاتھا۔ وہ بھیونڈی آئے تھے اور یہاں کےبنکروں سےانہوں نے وعدہ کیاتھاکہ وہ اس ضمن میں اُس وقت کے وزیر اعظم راجیوگاندھی سے گفتگوکریں گے۔ دہلی جانےکےبعدانہوں نے بھیونڈی کے بنکروں کے ایک وفدکودہلی مدعو کیا تھا جس میں ایڈوکیٹ یاسین مومن بھی شامل تھے۔ ضیاءالرحمٰن انصاری نے وفدکی ملاقات راجیوگاندھی سے کرائی تھی۔ اس وقت این ڈی تیواری وزیر مالیات تھے۔ راجیوگاندھی نے وفد کے سامنے این ڈی تیواری سے کہا تھا کہ تیواری جی، اندراگاندھی کا بھیونڈی سے قریبی تعلق رہاہےاورہمارے لوگ (یعنی الٰہ آبادکےلوگ)بھی وہاں آباد ہیں، آپ بھیونڈی والوں کوکیادے سکتےہیں ؟ پائورلوم صنعت بحران کاشکارہے، اس کوبچانےکیلئے آپ کیا دے سکتےہیں ؟ وفدمیں شامل ایڈوکیٹ یاسین مومن کوراجیوگاندھی کی یہ باتیں اب بھی یاد ہیں۔
ایڈوکیٹ یاسین مومن کے فلم اداکار دلیپ کمار سے قریبی تعلقات تھے۔ ۱۹۹۲ءمیں بابری مسجد کی شہادت کےبعدپھوٹ پڑنے والے فساد سےممبئی جل رہی تھی۔ اسی دوران ایک دن یاسین مومن، دلیپ کمار سےملاقات کیلئےان کےبنگلے پر گئےتھے۔ فسادکےمتعلق بات چیت ہونےلگی۔ اسی ضمن میں اُس وقت کےوزیر اعظم کےنام ایک خط لکھنے کیلئے دلیپ کمار نے یاسین مومن سے کہا، جس کےجواب میں یاسین مومن نےکہاکہ میں خط لکھ نہیں سکتا البتہ ڈکٹیکٹ کراسکتاہوں۔ یہ سن کر دلیپ کمار نے ہلکی مسکراہٹ کےساتھ یاسین مومن کی جانب دیکھتے ہوئے اپنے سیکریٹری ’جان‘ کو آواز دےکرکہا کہ یاسین مومن جو ڈکٹیکٹ کرائیں، اسے لکھ کرلائو۔ جان نے خط تیار کر کے دلیپ صاحب کے حوالے کیا۔ خط پڑھنے کےبعد دلیپ صاحب نے ایک لفظ سےمتعلق یاسین مومن سے کہا کہ کیااس لفظ کوبدلاجاسکتاہے، جس پر یاسین مومن نے کہاکہ جس پس منظر میں لیٹرلکھاگیاہے، وہاں اس لفظ کےعلاوہ کوئی اور لفظ بہترنہیں ہوگا۔ دلیپ کماراور یاسین مومن کےمابین کچھ دیر تک اس معاملے پر بات ہوتی رہی لیکن بالآخر دلیپ کمار نےیاسین مومن کی دلیل مان لی اوراسی لفظ کےساتھ اس لیٹرکو وزیر اعظم کےدفتردہلی روانہ کیا گیا۔
بھیونڈی کے۱۹۷۰ءکےفسادکو یاسین مومن نے قریب سے دیکھا تھا۔ بڑا خوں ریزفساد تھا۔ ایسےمیں بھوسار محلہ سےمتصل برادران وطن کی ایک آبادی کو محفوظ رکھنے اور انہیں کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچنے دینے کی مقامی مسلمانوں کی کوششوں کو خوب سراہاگیاتھا۔ اسی دوران ایک سینئر پولیس آفیسرنے یاسین مومن کےوالد سے آکر کہا تھا کہ میں متواتر ڈیوٹی کر کےتھک گیاہوں، اگر آپ کےگھر میں کچھ کھانےکیلئے ہو تومجھے دیں اورکھانےکےبعد میں کچھ دیرآرام کرناچاہتاہوں۔ اس وقت یاسین مومن کےگھر میں دال چاول کےعلاوہ کچھ نہیں تھا۔ آفیسر نے دال چاول کھاکر ۲؍گھنٹے وہیں آرام بھی کیا اورجاتے وقت اہل خانہ کاشکریہ ادا کیا تھا۔
یہ ۶۷۔ ۱۹۶۶ءکی بات ہے، ایڈوکیٹ یاسین مومن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ ہندوستانی صدر ڈاکٹر رادھاکرشنن نے ایک کانوکیشن تقریب میں شرکت کی تھی۔ کیمپس میں ہزاروں طلبہ کامجمع تھا۔ ’’سائنس، مذہب اور اخلاقیات‘‘ پر انہوں نے ڈیڑ ھ گھنٹے تک انتہائی پُر مغز تقریر کی تھی۔ پورا مجمع انتہائی یکسوئی سے انہیں سن رہاتھا۔
ایڈوکیٹ یاسین مومن گزشتہ ۵۲؍سال سےوکالت کررہےہیں۔ اس دوران انہوں نے ایک ایسا کیس حل کیاہے جسے وہ اپنی زندگی کاغیر معمولی کیس قرار دیتےہیں۔ معاملہ مذہبی تھا۔ جس دن اس معاملے کی شنوائی تھی، وہ بڑی تیاری سے عدالت گئے تھے۔ عدالت میں برادران وطن اور مسلمانوں کا جم غفیر تھا۔ ہر کوئی فیصلے کامنتظر تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے تک انہوں نے بحث کی، جس اندازمیں انہوں نے اپنی دلیل پیش کی تھی۔ فیصلہ ان کے حق میں ہی آنا تھالیکن اس دن جج نے فیصلہ نہیں سنایا۔ ایک ہفتہ بعدکی تاریخ دی اور ان کے حق میں فیصلہ سنایا۔ جج کے سبکدوشی کے بعد ایک دن یاسین مومن نے انہیں گھر پر مدعوکیا۔ دوران ضیافت انہوں نے کہاکہ اس دن تمہاری دلیلیں انتہائی کارآمدتھیں، میں اسی وقت فیصلہ سنانے والاتھالیکن معاملے کی سنگینی اور حساسیت کا خیال رکھتے ہوئے میں نے دانستہ ایک ہفتے بعد فیصلہ سنایا تھا۔