• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہم بچے کسی بھی دودھ والے کے برتن سے گلاس بھر کر دودھ نکال لیتے اورپی جاتے تھے

Updated: May 26, 2024, 1:02 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

’پائیدھونی کی معروف سماجی اور ملّی شخصیت ابراہیم طائی کی پیدائش ۱۹۴۹ء میں ہوئی تھی، مختصر سی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کاروبار سے لگ گئے،سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، اسی سلسلے میں وزیر اعظم وی پی سنگھ سےان کی رہائش گاہ پرملاقات بھی کی تھی۔

Ibrahim Abdul Ghani Tai. Photo: INN
ابراہیم عبدالغنی طائی۔ تصویر : آئی این این

ناگپاڑہ کی ایک فعال سماجی شخصیت نے گزشتہ دنوں فون کر کے گوشہ بزرگاں کالم کیلئے پائیدھونی کی معروف سماجی اور ملّی شخصیت ابراہیم عبدالغنی طائی کے تعلق سے گفتگو کی اور انہیں کالم میں جگہ دینےکی درخواست کی۔ ان کی خواہش کےمطابق ابراہیم طائی سے فون پر رابطہ کرنےپر انہوں نے۲۰ ؍مئی ۲۰۲۴ءکو ممبئی میں ہونےوالے پارلیمانی الیکشن کے بعد ۲۱؍ مئی منگل کوصبح ۱۱؍ بجے کا وقت دیا۔ 
 مقررہ وقت پر پائیدھونی، قاضی اسٹریٹ کی قدسی بلڈنگ کی دوسری منزل پر ابراہیم طائی سے ملاقات کیلئے پہنچنے پر انہوں نے کالم نگار کا گرمجوشی سے خیرمقدم کیا۔ گھرکے وسیع ترین ہال میں داخل ہونے پر مختلف قسم کے لو برڈس اور طوطے، پانی سے بھرے ٹینک میں رنگ برنگی مچھلیوں اور ایک انتہائی خوبصورت اور تندرست افریقی گرے طوطے کی دلکش چہچہاہٹ اور ہوا میں پھرپھراتے پروں کی آواز سے ایک خوشگوار سماں کا احساس ہوا۔ ان پرندوں کےکھانے پینےکی اشیاءکےعلاوہ گھر میں مختلف قسم کےچھوٹےبڑےخوبصورت اور جاذب نظر پنجرے، طوطوں کے بیٹھنے کیلئے آہنی اسٹینڈاور اسٹینڈپربیٹھ کران کیلئے کھانے پینے کا بہترین نظم دیکھ کریقین ہواکہ موصوف اوران کےاہل خانہ کا پرندوں سے خصوصی تعلق ہے۔ رسمی گفتگوکےبعد ابراہیم طائی سےایک گھنٹہ ہونے والی تفصیلی گفت وشنید کافی کارآمدرہی۔ 
 پائیدھونی، بنیان اسٹریٹ میں ۱۰؍فروری ۱۹۴۹ءکو پیدا ہونے والے ابراہیم طائی نے کولسہ اور گھوگھاری محلہ اُردومیونسپل اسکول سے چہارم جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اسی درمیان انگریزی میڈیم کی جانب رجحان پیدا ہوا تو انہوں نے گرانٹ روڈ کے بامبے انگلش ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ کچھ سال تک وہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اچانک پڑھائی سے دل اُچاٹ ہو گیا۔ اس طرح صرف۱۵؍ سال کی عمر میں انہوں نے والد کے آبائی کاروبار یعنی جوتے چپل کے کاروبار سے وابستگی اختیار کرلی.... لیکن پڑھائی کی طرح اس کاروبار میں بھی ان کا دل نہیں لگا۔ اس کے بعد ڈرائیونگ کا جنون چڑھا۔ ڈرائیونگ سیکھ کر پہلے ٹیکسی چلائی۔ اُس وقت۸۰؍ پیسہ میٹر چل رہا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیونگ سے دل بھرجانے کے بعد بینک آف بڑودہ میں ڈرائیورکے طور پر ملازمت اختیار کرلی۔

یہ بھی پڑھئے: ’اُن دنوں۴۰؍ پیسے میں کتا ب اور ۲۵؍ پیسے میں سلیٹ ملتے تھے،اس کے باوجود کچھ لوگ خرید نہیں پاتے تھے‘

ڈرائیونگ میں بھی زیادہ دنوں تک دل نہیں لگا۔ دوسرے کاروبار کی تلاش میں ان کی نظر اپنے پھوپھا کی فائونٹن پر واقع چشمے کی دکان پر پڑی۔ اس کے بعد انہوں نےچشمے کے کاروبار میں دلچسپی لی۔ پہلے ناگدیوی اور بعد میں مینارہ مسجد کے پاس چشمے کی دکان کھولی اور ایک طویل عرصے تک اسی کاروبار سے وابستہ رہے۔ ان کی پیرانہ سالی کی وجہ سے اب بچوں نےکاروباری ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ ان تمام مشغلوں کے ساتھ ہی ان میں سماجی اور ملّی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا شوق بھی ان میں رہا ہے۔ اس لئے مسلم کونسل ٹرسٹ نامی ایک تنظیم قائم کی۔ اس کے زیر اہتمام قوم وملت کی خدمت کی، جواَب بھی جاری ہے۔ 
   ابراہیم طائی اپنے بچپن میں کافی شریر تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں گھر سے بیگ لے کر اسکول جانےکیلئے نکلتے، لیکن اکثر اسکول نہ جاکر ادھر اُدھر گھوم پھر کر واپس گھر آجاتے تھے۔ اسکول کا وقت گزارنے کیلئے وہ اکثر میوزیم سے ماٹونگا جانے والی ٹرام میں سفرکرتے۔ ان مقامات کا ایک چکر لگانے پر ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا تھا۔ باقی وقت کسی تفریحی مقام پرگزار کر گھرلوٹ جاتے تھے۔ ہاتھ میں بیگ ہونے پر لوگوں کو اسکول سے غیر حاضر ہونے کا شبہ نہ ہو، اسلئے بیگ کسی دکان کی آڑ میں رکھ دیتے تھے۔ اسکول کا وقت ختم ہوجانے کے بعدبیگ کی جگہ واپس جاتے اور پھر وہاں سے بیگ لے کر گھر پہنچ جاتے تھے۔ بعض مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ وہ جہاں بیگ رکھتے تھے، وہاں سے وہ چوری ہو جاتا تھا۔ ایسی صورت میں بچ بچا کر وہ گھر جاتے۔ بیگ کے بارے میں اگر گھر والے دریافت کرتے تو کوئی خوبصو رت عذر پیش کر کے معاملہ رفع دفع کر دیتے تھے۔ 
 ۱۹۵۷ء میں کارپوریٹر کا الیکشن ہوا تھا۔ اس وقت ابراہیم طائی کی عمر صرف ۸؍ سال تھی۔ اس کے باوجود انتخابات میں وہ کافی فعال تھے۔ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ بنیان اسٹریٹ کی مغل بلڈنگ میں جہاں وہ رہتے تھے، اسی عمارت کے عبدالستار زری والا مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے۔ اس دور میں مسلم لیگ کا انتخابی نشان ہاتھ کا پنجہ او رکانگریس کا انتخابی نشان’ بیلوں کی جوڑی‘ تھی۔ بلڈنگ کے رائے دہندگا ن کو ووٹ ڈالنے کیلئے چور بازار کے چمنا بوچر اسٹریٹ کے پولنگ سینٹر پر جانا ہوتا تھا۔ رائےدہندگان کو بنیان اسٹریٹ سے چمنابوچر اسٹریٹ لے جانے کیلئے گھوڑا گاڑیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ گھوڑا گاڑی آمدورفت کا آسان ذریعہ تھا۔ موٹرگاڑیاں، ٹیکسیاں اور بائیک وغیرہ بہت کم تھیں۔ دن بھر علاقے کے رائےدہندگان کو گھوڑا گاڑی میں بٹھاکر چمنابوچر پولنگ سینٹر لے جانا اور انہیں واپس گھر لانے کی ذمہ داری انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ادا کی تھی۔ وہ گھوڑاگاڑی والےکےساتھ جاتے، ووٹروں کوپولنگ اسٹیشن بتاتےاور ووٹ ڈالنےکےبعدانہیں گھوڑاگاڑی والے کے ساتھ واپس لے کرآتے۔ اس دور میں ایک فارم نما کاغذ پر پارٹی کے نشان کے سامنے ۳؍ چوکڑی لگاکر ووٹ دیا جاتا تھا۔ 
 بنیان اسٹریٹ کو دودھ محلہ بھی کہا جاتا ہے۔ کسی دور میں یہاں دودھ کا کاروبار بڑے پیمانے پر ہوتاتھا۔ دودھ کا کاروبار کرنے والے دور دراز علاقوں سے دودھ لے کرعلی الصباح یہاں پہنچ جاتے تھے۔ ۱۰؍ لیٹر خالص دودھ کی قیمت ۹؍ روپے تھی جسے ۱۰؍ روپے میں فروخت کیا جاتا تھا۔ ابراہیم طائی وہیں رہائش پزیر تھے۔ وہ اکثر گھر سے گلاس لے کر اُترتے، کسی بھی دودھ والے کے برتن سے گلاس بھر کر دودھ نکال لیتے اور پی جاتے تھے لیکن کوئی بھی دودھ والا برا نہیں مانتا تھا۔ اس کے برعکس کچھ دودھ والے مزید دودھ پینے کی پیشکش کرتے تھے۔ ایسااکثر بچے کرتے تھے۔ پنڈت جواہرلال نہر و کاانتقال ہونے پر بھارت بند کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے دودھ بازار کے بیوپاریوں نے ۲۵؍ پیسے لیٹر دودھ فروخت کیاتھا تاکہ جلد ازجلد دودھ فروخت ہوجائے ورنہ بازار بند ہونے سے دودھ کےخراب ہونے کا خدشہ تھا۔ بعد میں ابراہیم طائی بھی کچھ دنوں تک دودھ کے کاروبا ر سے وابستہ رہے۔ اُن دنوں ایک لیٹر دودھ پر ۲۰؍ پیسے کی آمدنی تھی لیکن اس میں برکت ہوتی تھی۔ 
 ممبئی شہر کی متعدد خوبیاں جن سے شایدہم واقف نہ ہوں۔ ان میں ہر ایک یہ ہے کہ اُن دنوں ہرسگنل سےمتصل پینے کے پانی کا خاص انتظام بھی شامل تھا جس کیلئے سگنل کے پائپ کے قریب ایک چبوترہ بنایا جاتا تھا۔ اس میں ایک نل ہوتا تھا جس سے ۲۴؍گھنٹے پینے کا پانی ملتاتھا۔ بچپن میں ابراہیم طائی اور ان کے ساتھیوں نے مینارہ مسجد جنکشن کے سگنل پر لگے نل سے خوب پانی پیا ہے۔ پائیدھونی پولیس چوکی کے عقب میں بھی بے گھر اورعام لوگوں کیلئے متعدد پانی کے نل لگے ہوئے تھے۔ یہ انتظام کچھ ایسا تھا کہ لوگ یہاں آکر نہاتے اورکپڑے بھی دھوتے تھے۔ اسی طرح گھوڑوں کا پیائو بھی یہاں تھا۔ ممبادیوی مندر میں جانے سے قبل عقیدتمند یہاں آکر پہلے پائوں دھوتے تھے، بعدازیں مندر میں جاتے تھے۔ اسی وجہ سے اس علاقہ کا نام پائیدھونی ہے۔ 
 شہر ومضافات کی متعدد سماجی اور ملّی تنظیموں سے وابستہ ہونے سے ابراہیم طائی کے مراسم اس دورکے معروف سیاسی اور ملّی لیڈروں سے ہو گئے تھے۔ ۷۰ء کی دہائی میں وزیراعظم اندرا گاندھی ممبئی آئی تھیں۔ دھوبی تالاب پرواقع رنگ بھون ہال میں ان کاجلسہ تھا۔ اُس وقت انہوں نے اپنے خیرخواہوں کے ہمراہ اسٹیج پر جاکر ان سے ملاقات کی تھی۔ اسی طرح سماجی کاموں کے سلسلے میں وزیر اعظم و ی پی سنگھ سےدہلی میں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر جاکر ملاقات کی تھی۔ رضا اکیڈمی ممبئی کے صدر سعید نوری کے ہمراہ رات ۱۲؍ بجے وی پی سنگھ سےایک بجکر ۴۵؍ منٹ تک تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔ کانگریس کی سینئر لیڈر سونیاگاندھی سے بھی ابراہیم طائی مختلف موضوعات پر۲؍ مرتبہ ممبئی میں ملاقات کرچکےہیں۔ یہ ساری باتیں ناقابل فراموش ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK