ڈونگری کی ۸۴؍سالہ انیس فاطمہ صدیقی بچپن ہی سے پردے کا خصوصی اہتمام کرتی آئی ہیں،عمر کے اس مرحلے پر بھی وہ بغیرپردہ کئے کسی نامحرم سے گفتگو نہیں کرتی ہیں، گزشتہ ۴۵؍ سال سے بچوں کو بلامعاوضہ قرآن شریف کی تعلیم دینے کو انہوں نے اپنا مشغلہ بنارکھا ہے۔
EPAPER
Updated: November 17, 2024, 4:47 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
ڈونگری کی ۸۴؍سالہ انیس فاطمہ صدیقی بچپن ہی سے پردے کا خصوصی اہتمام کرتی آئی ہیں،عمر کے اس مرحلے پر بھی وہ بغیرپردہ کئے کسی نامحرم سے گفتگو نہیں کرتی ہیں، گزشتہ ۴۵؍ سال سے بچوں کو بلامعاوضہ قرآن شریف کی تعلیم دینے کو انہوں نے اپنا مشغلہ بنارکھا ہے۔
جنوبی ممبئی کے ڈونگری علاقے کی کھڈے کی باڑی میں گزشتہ ۴۵؍ سال سےمقیم۸۴؍سالہ انیس فاطمہ صدیقی کا بنیادی تعلق اُترپردیش کے ضلع پرتا پ گڑھ کے ڈیروا گائوں سے ہے۔ ذریعہ معاش کیلئے والد نے گجرات کے احمد آباد شہرمیں سکونت اختیار کی تھی۔ انیس فاطمہ کی پیدائش ۸؍اگست ۱۹۴۱ء کو گومتی پور، احمد آبا دمیں ہوئی تھی۔ گومتی پور میں اسکول نہ ہونے سے والد نے ان کی پڑھائی کیلئے نجی اُستاد کا انتظام کیا تھا، جوانہیں اور ان کی کچھ سہیلیوں کو ان کے گھرکےسامنے واقع نیم کے درخت کے نیچے پڑھاتےتھے۔ اس دوران ان کےوالدنے گومتی پور میں کافی کوششوں اور جدوجہد سے ایک اسکول قائم کیا جہاں سے انیس فاطمہ نے ساتویں جماعت تک پڑھائی کی۔ اس دور میں ساتویں کا امتحان بھی بورڈ کے ذریعے ہوا کرتا تھا۔ بورڈ امتحان پاس کرنے کی بنیاد پر انہوں نے ڈی ایڈ کا امتحان دیا اور اس میں بھی کامیابی حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ادیب اور ادیب ماہر کا امتحان بھی پاس کیا۔ درسی تعلیم کے ساتھ گھر میں والدہ نے سلائی، کڑھائی اور بنائی کا ہنر سکھایاتھا۔ احمد آباد ہی میں ان کی شادی بھی ہوئی۔ شادی کے بعد خاوند کے ساتھ ممبئی منتقل ہوئیں اور ۱۹۷۷ء سے کھڈے کی باڑی میں رہائش پزیر ہیں۔ ۱۵؍ سال قبل خاوند کا انتقال ہوگیا۔ عبادت گزاری کے ساتھ بچوں کو قرآن شریف کی تعلیم دیتی ہیں ۔ ۴۵؍ سال سے یہ مشغلہ جاری ہے۔ سیکڑوں بچے ان سے قرآن پاک پڑھنا سیکھ چکے ہیں ، کبھی کسی بچے سے ہدیہ کے نام پر ایک پیسہ نہیں لیا۔ ان کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ وہ بچپن ہی سے پردے کا خصوصی اہتمام کرتی آئی ہیں اورعمر کے اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد بھی اس پر قائم ہیں۔
انیس فاطمہ کے دادامظہرحسین، عرف بادل سردار، پرتاپ گڑھ کے ۱۱؍گائوں کے سردار اور والد محمد اسحاق صدیقی ڈیروا گائوں کے پہلے گریجویٹ تھے۔ انیس فاطمہ کی دادی حلیمہ خاتون نے محمد اسحاق کو ’بابو‘ بنانے کا عہد کیاتھا۔ اس دور میں انہیں پڑھائی کیلئے اجمیر بھیجا تھا۔ جہاں سے گریجویشن کر کے ڈیروا لوٹنے پر پورے گائوں میں جشن کا ماحول تھا کیونکہ وہ گائوں کے پہلے گریجویٹ تھے۔ پورا گائوں انہیں ’بابوجی‘ کہتا تھا۔ گریجویشن کرنے کی خوشی میں انہیں ہاتھی پر بٹھاکر پورے گائوں میں گھمایاگیاتھا۔ بابوجی کی صدا سے گائوں گونج رہاتھا۔ پورے گائوں میں جشن کا ماحول تھا۔
۱۹۶۹ءمیں احمد آباد میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑاتھا۔ جمعہ کا دن تھا، انیس فاطمہ اپنے گھر گومتی پور سے کالوپور اپنی سہیلی کے گھر ہونے والی شادی میں شرکت کرنے گئی تھیں ۔ وہاں پہنچنے کے بعد فساد بڑھ گیا۔ ایسے میں بھی ان کے بھائی ابراہیم صدیقی انہیں لینے آئے تھے لیکن کوئی رکشا والا برقعہ پوش خاتون کو گومتی پور لے جا نے کیلئے تیار نہیں تھا۔ چنانچہ ابراہیم بھائی تو کسی طرح گھر لوٹ گئے لیکن انیس فاطمہ کو سہیلی کے گھر ہی رکنا پڑا۔ فساد ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتا گیا۔ ۲۴؍گھنٹوں کا کرفیو لگا تھا۔ ۱۲؍دن یہ سلسلہ جاری رہا۔ ۱۳؍ویں دن کرفیو میں ایک گھنٹے کی چھوٹ دی گئی تھی۔ اس دور میں کچھ ہی لوگوں کے پاس ٹیلی فون کی سہولت تھی۔ انیس فاطمہ کی سہیلی کے گھر میں ٹیلی فون تھا۔ ابراہیم بھائی نے کرفیو کی چھوٹ کے دوران باہر سے ان کی سہیلی کے گھر فون کر کے انیس فاطمہ کی خیر خیریت لی اور کہا کہ ایک گھنٹے میں گومتی پور سے کالوپور آکر انیس فاطمہ کو گھر لانا ممکن نہیں ہے، اسلئے آئندہ جب کرفیو میں چھوٹ دی جائے گی، تب بہن کو لینے آئوں گا۔ ۲؍دنوں بعد پھر کرفیو میں چھوٹ دی گئی، تب انیس فاطمہ تقریباً ۱۵؍دنو ں بعد اپنے گھرلوٹی تھیں۔ وہ وقفہ بڑا آزمائش بھرا تھا۔ گھروالوں سے دور، ایک دوسر ے کی خبر نہ ملنے سے بے چینی کاعالم اور پورے شہر میں ہونے والے ہنگاموں سے ہیجانی کیفیت تھی۔
یہ بھی پڑھئے:’’سابق پاکستانی کپتان عمران خان فوٹو ڈیولپ کرانے کیلئے میری دکان پر آگئے تھے‘‘
انیس فاطمہ کے دادا نے گومتی پور کے گھر کے باہراہل خانہ کےعلاوہ ہمسایوں کی سہولت کیلئے نیم اور پیپل کے ۲؍ درخت لگائےتھے۔ انیس فاطمہ کے والد اسحاق صدیقی اپنی بیٹیوں کے علاوہ ان کی سہیلیوں کو بھی بیٹی سمجھتے تھے۔ بارش کے موسم کی چاندنی راتوں میں ان درختوں پر جھولا ڈال کر انیس فاطمہ اور ان کی سہیلیاں خوب جھولاکرتی تھیں ۔ چاندنی کی دھندلی روشنی میں ایک درخت سے دوسرے درخت تک جھولے کی مدد سے جانا اور درخت کی پتیاں توڑنا، گرما گرم پکوڑے کھانا اور دھینگا مستی کرنا، آنکھ مچولی کھیلنا، ایک دوسرے پر مٹی اُچھالنا انہیں اچھا لگتا تھا۔
انیس فاطمہ کے والد اسحاق صدیقی نے پرتاپ گڑھ کےتعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار سے منسلک کرنےمیں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ گائوں کے نوجوانوں کو ملازمت دلانے کیلئے احمد آباد بلالیا کرتے تھے۔ گومتی پور کے گھر کے ایک کمرے میں ان نوجوانوں کے قیام وطعام کا انتظام اس وقت تک کرتے تھے جب تک کہ ان کی ملازمت کا کوئی معقول انتظام نہیں ہوجاتا تھا۔ یہ سلسلہ کم و بیش۵۰؍برس تک جاری رہا۔ اس دوران انہوں نے سیکڑوں نوجوانوں کو برسرروزگار کیا۔ اس کی وجہ سے ڈیرواں میں آج بھی انہیں عزت او راحترام سے یاد کیا جاتاہے۔
انیس فاطمہ ا ور ان کے بھائی بہنوں کی تربیت میں والد کا کلیدی کردار رہا ہے۔ انیس فاطمہ کی والدہ ہر جمعرات کو گھر کے کپڑوں کی رنگائی اپنے ہاتھوں کیا کرتی تھیں ۔ رنگائی کیلئے درکار سارا سامان گھر میں موجود تھا۔ بدھ کی رات محلے کے گھروں میں پیغام پہنچا دیا جاتا تھا کہ انیس فاطمہ کی والدہ جمعرات کو رنگائی کریں گی جسے کپڑے وغیرہ پر رنگائی کرانا ہے وہ آجائے، انیس فاطمہ کی سہیلیاں اور ان کے گھر والے کپڑے لے کر ان کے گھر پہنچ جاتے تھے۔ سارا دن کپڑوں کی رنگائی اور سکھائی کا کام جاری رہتا۔ سب مل کر کام کرتے اوررنگائی کا کوئی پیسہ نہیں لیاجاتا تھا۔
انیس فاطمہ کے والد ’بابوجی‘ کو مطالعہ کا بڑا شوق تھا۔ اسی وجہ سے ان کے گھر میں اُردو، گجراتی اورانگریزی اخباروں کے علاوہ ادبی، دینی، تعلیمی، فلمی اور بچوں کے رسالے بھی پابندی سے آیا کرتے تھے۔ وہ خود بھی پڑھتے تھے اور بچوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کرتے تھے۔ اسی وجہ سے انیس فاطمہ کو بچپن ہی سے رسالے پڑھنے کا شوق لگ گیا تھا۔ شب خون، عکاس، آستانہ، دین دنیا، البلاغ، نور، الحسنات، کھلونا، پھلواری، شمع اور روبی وغیرہ کا مطالعہ کرنا ان کے معمول میں شامل تھا۔ ان کے والد وقتاً فوقتاً بچوں سے رسالے پڑھوا کر خود سنا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی انیس فاطمہ پابندی سے مطالعہ کرتی ہیں۔ ان رسالوں کے جو مضامین انہیں پسند آتے تھے، وہ انہیں کتاب سے نکال کر اکٹھا کرتی تھیں بعد ازیں ان اوراق کی بائنڈنگ کرا کرمحفوظ کرلیتی تھیں۔ روزنامہ انقلاب میں حفیظ جالندھری کا شائع ہونے والا کالم شاہ نامہ اسلام کے تراشے بھی ان کے پاس محفوظ ہیں۔
۵۳۔ ۱۹۵۲ء کی بات ہے۔ احمد آباد میں چیچک کی وباء پھیلی تھی۔ پورے شہر میں وحشت کا ماحول تھا۔ ہر گلی محلے میں لوگ چیچک کی بیماری سے متاثر تھے۔ بچے بڑی تعداد میں چیچک کی بیماری میں مبتلا تھے۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے ملنے سے بھی کتراتے تھے۔ گومتی پور کا بھی یہی حال تھا۔ انیس فاطمہ کی ایک سہیلی آمنہ تھیں۔ اس کی ایک بہن اور۲؍بھائی بھی چیچک سے متاثر تھے۔ ایک روز صبح آمنہ کے بھائی کی چیچک سے موت کی خبر سن کر دل بیٹھ گیا، ابھی دل سنبھلا بھی نہیں تھا کہ شام کو آمنہ کے فوت ہونےکی اطلاع مل گئی۔ اس سے شدید صدمہ پہنچا۔ دوسرے روز آمنہ کے دونوں بھائیوں کی ایک ساتھ ہونے والی اموات سے پورے محلے میں صف ماتم بچھ گیا تھا۔ ۲؍دنوں میں ایک ہی گھر کے ۴؍ بھائی بہنوں کی اموات کے بارے میں آج بھی سوچتی ہوں تو کلیجہ منہ کوآتاہے۔