بائیکلہ کے نورمحمد انصار ی کوبھارتیہ ودیا بھون کی جانب سے بہتر ین فوٹوگرافی کیلئے سلورمیڈل سے نوازا گیا تھا، دادادادی کے مخالفت کے باوجودان کے والدین نے انہیں انگریزی میڈیم سے پڑھایا تھاالبتہ اس کے ساتھ ہی گھر میں اُردو اور عربی کی بھی تعلیم دی تھی۔
EPAPER
Updated: October 27, 2024, 3:06 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
بائیکلہ کے نورمحمد انصار ی کوبھارتیہ ودیا بھون کی جانب سے بہتر ین فوٹوگرافی کیلئے سلورمیڈل سے نوازا گیا تھا، دادادادی کے مخالفت کے باوجودان کے والدین نے انہیں انگریزی میڈیم سے پڑھایا تھاالبتہ اس کے ساتھ ہی گھر میں اُردو اور عربی کی بھی تعلیم دی تھی۔
بائیکلہ، ہنس روڈ پر رہنے والے نورمحمد انصاری کی پیدائش ۲۳؍ اگست ۱۹۵۱ء کو دوٹانکی کے دائود باغ بلڈنگ میں ہوئی تھی۔ دادااور دادی کےمخالفت کے باوجود ان کے والدین نے گرانٹ روڈ کی بھیسانیہ انگلش ہائی اسکول میں ان کا نام لکھوایا تھا۔ وہاں سے ایس ایس سی پاس کرنے کے بعد مہاراشٹر کالج(بیلاسس روڈ) اور مہرشی دیانند کالج( پریل) سے بی ایس سی میں فرسٹ کلاس سے کامیابی حاصل کی۔ وہ ایم بی بی ایس کرنا چاہتے تھے لیکن تکنیکی دشواریوں سے ان کاداخلہ نہیں ہوسکا۔ گریجویشن کر کے فارماسیو ٹیکل کمپنیوں میں ملازمت کی تلاش کی۔ اس کے ساتھ ہی فوٹوگرافی کا کورس بھی کیا۔ فوٹوگرافی کا کورس کرنے سےاس شعبہ میں ان کی دلچسپی بڑھتی گئی اور پھر بعد میں فوٹوگرافی ہی ان کاکریئر بنا۔ بائیکلہ کےقریب واقع ’ون آور فوٹو کمپنی‘ سے بحیثیت شارٹر(چھانٹنےوالے ) عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ۳۰؍سال تک خدمات پیش کرکے پروڈکشن منیجر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ اس دوران فوٹوگرافی کے شعبے میں ہونے والی جدت اور جدیدٹیکنالوجی کو سمجھنے کیلئے کمپنی کی جانب سے سنگاپور اور دیگر ممالک کا دورہ بھی کیا۔ بھارتیہ ودیا بھون کے فوٹوگرافی مقابلے میں ان کی کھینچی ہوئی تصویر کو امتیازی پوزیشن حاصل ہوئی تھی۔ اس کیلئے انہیں سلور میڈل سے نوازا گیا تھا۔ ۲۰۱۹ءتک برسرروزگار رہے۔ اب عمر کے اس مرحلے پر عبادت گزاری اور گھریلو ذمہ داریوں میں مصروف ہیں ۔
نور محمد انصاری کا اسکول میں داخلہ کرانے کا مرحلہ کافی آزمائش بھرا رہا۔ والد اور والدہ دونوں ہی تعلیم یافتہ تھے، اسلئے وہ زمانےکے مطابق نور محمد کوانگریزی میڈیم سے پڑھانا چاہتے تھے لیکن نور محمد کے دادا دادی اُردو میڈیم کے قائل تھے۔ بہرحال اس کشمکش میں کئی دن گزرنے کے بعد نور محمد کے والدین اپنے والدین کو سمجھانے میں کامیاب رہے۔ اس طرح ان کا داخلہ انگریزی میڈیم میں ہوگیا۔
ان کے والدین نے ان کا نام انگریزی میڈیم اسکول میں ضرور لکھوایالیکن عربی اور اُردو کی تعلیم سے بے خبر نہیں رہے۔ اس کیلئے انہوں نے گھر میں معقول انتظام کیا تھا۔ بالخصوص ان کی والدہ نے دینی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نورمحمد انصاری انگریزی کے ساتھ ہی اُردو اور عربی کی بھی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
نور محمد انصاری کو پڑھائی کے ساتھ ہی کرکٹ کھیلنے کا بڑاشوق تھا۔ وہ بچپن ہی سے کرکٹ کھیلنے کے شوقین تھے۔ نوجوانی میں مقامی کرکٹ ٹورنامنٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس دور میں جنوبی ممبئی میں ناگپاڑہ کی ٹیم سب سے مضبوط اور مقبول تھی۔ ایک مرتبہ ان کی کپتانی میں ناگپاڑہ کی ٹیم کو شکست دینے پر، ان کے ساتھیوں نے والہانہ اندازمیں ان کا استقبال کیا تھا۔ اس وقت نور محمد بائیکلہ، ٹرانزٹ کیمپ کی بیٹھی چال میں رہتے تھے۔ ان کے ساتھی حنیف باوا نے انہیں شانوں پر بٹھا کر پوری چال میں گھمایا تھا۔ ڈھول باجے سے ان کا خیرمقدم کیاگیاتھا۔ ان کے شوق نے انہیں پاکستان کے سابق کپتان عمران خان سے بھی ملاقات کا موقع میسر کیا۔ ’ون آور فوٹوکمپنی‘ کی ایک دکان ڈی این روڈ، فورٹ پر واقع تھی۔ پاکستان کی ٹیم عمران خان کی قیادت میں ہندوستان آئی تھی۔ ایک روز اچانک عمران خان، نور محمد کی دکان پر آئے، انہیں دیکھ کر نور محمد کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ انہیں کچھ فوٹو ڈیولپ کروانی تھی۔ سلام دعا کےبعد عمران خان نے نور محمد سے ان کا نام دریافت کیا۔ کرکٹ کے تعلق سے کچھ بات چیت کرنے کے بعد نورمحمد نے عمران خان کی خدمت میں چائے پیش کرنے کی اجازت چاہی، جس پر عمران نے معذرت طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بُرا نہ مانیں، پروٹوکال اس کی اجازت نہیں دیتا، ورنہ میں آپ کی پیشکش ضرور قبول کرتا۔ اس کے بعد عمران خان اپنی کار میں جاکر بیٹھ گئے اور نورمحمد نے ان کا کام کرکے انہیں رخصت کیا۔
یہ بھی پڑھئے: ’’اندرا گاندھی کی بھیونڈی آمد پر، ہماری طلبہ کی ٹیم نے ان کا خیرمقدم کیا تھا ‘‘
نور محمد انصاری اپنے بڑے بیٹے عاصم انصاری کی دین سے رغبت اور کامل یقین و عقیدت کے زبردست شیدائی ہیں۔ دراصل عاصم جب صابوصدیق میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی پڑھائی کر رہا تھا۔ پڑھائی مکمل ہونے کے ایک سال قبل ہی ایک بڑی آئی ٹی کمپنی نے اس کا انتخاب کرلیا تھا جو اہل خانہ کیلئے بڑی خوشی کی بات تھی۔ اچھا پیکیج تھا۔ پڑھائی مکمل ہونےپر ڈیوٹی جوائن کرنے کا وقت قریب آیا تو عاصم نے نور محمد سے کہا کہ میرا دل ابھی ڈیوٹی جوائن کرنے کی جانب مائل نہیں ہے۔ یہ سن کر والدین تشویش میں مبتلا ہوگئے۔ اتنی اچھی ملازمت پڑھائی سے قبل ملنا اور بیٹے کی جانب سے ڈیوٹی نہ جوائن کرنے کی بات سن کر مایوسی ہوئی۔ نور محمد کی جانب سے اس بارے میں بیٹے سے استفسار کرنے پر عاصم نے بتایا کہ میں ابھی ۳؍مہینے کیلئے جماعت میں جانا چاہتا ہوں۔ وہاں سے آنےکےبعد ڈیوٹی جوائن کروں گا۔ والد نے کہا کہ اس وقت تک کمپنی کہاں انتظار کرے گی، جس پر عاصم نے کہاکوئی بات نہیں، ان شاءاللہ اس سے بہتر متبادل مل جائے گا۔ یہ کہہ کر عاصم ۳؍مہینے کی جماعت کے ساتھ چلاگیا۔ وہاں سےواپسی پر اس نے ملازمت کی کوشش کی، اللہ کے فضل سے ایک امریکی کمپنی میں ملازمت کا موقع ملا۔ یہاں بھی عاصم نے جانے سے منع کر دیا۔ وجہ پوچھنےپر کہاکہ وہاں کا ماحول میری طبیعت کے مطابق نہیں ہے، علاوہ ازیں مسجد اور نمازو غیرہ کیلئے بھی دشواریاں پیش آسکتی ہیں ۔ اس ملازمت کو بھی مسترد کر دیا۔ کچھ اچھا ہونے کا یقین تھا، ابھی یہ فیصلہ کیا ہی تھاکہ سعودی عرب، جدہ کی ایک کمپنی میں ملازمت کا موقع مل گیا۔ عاصم نے فوراً اس کمپنی کیلئے رضامندی ظاہر کی اور وہاں گزشتہ ۷؍سال سے ملازمت کر رہا ہے۔ کمپنی کی جانب سے نورمحمد انصاری کو فوٹوگرافی کی جدید ترین مشین کی تربیت کیلئے تقریباً۳۵؍سال قبل ایک مرتبہ سنگاپور بھیجا گیاتھا۔ وہاں وہ ۱۵۔ ۲۰؍ دن تک مقیم تھے۔ اس دوران وہاں کے نظم وضبط اور معمول کی پابندی سے بہت متاثرہوئے تھے۔ جس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ وہاں پرسرکاری بسوں کا وقت بس اسٹاپ پر درج ہوا کرتا تھا۔ بس کا وقت صبح ۱۱؍بجکر ۳۰؍منٹ کا ہوتا تو بس ایک منٹ قبل آتی دکھائی دیتی تھی۔ وہاں کا چڑیا گھر کافی وسیع اراضی پر پھیلا ہواہے۔ دنیا کےبیشتر ممالک کے جانوروں کاالگ الگ شعبہ بنا یا گیا ہے۔ ہندوستان کے جانوروں کے شعبے میں انہوں نے اس وقت شیر اور بھالو وغیرہ دیکھے تھے۔ چڑیا گھر گھومنے کیلئے ٹرالی کا انتظام کیاگیا ہے۔ ۲؍ دن ٹرالی سے گھومنے کے باوجود وہ پورا چڑیاگھر نہیں دیکھ پائے تھے۔
نورمحمد کو فلم بینی کا بڑا شوق تھا۔ فرسٹ ڈے فرسٹ شو کا ٹکٹ ہر ہفتے جمعہ کے دن ان کی جیب میں ہوتا تھا۔ مغل اعظم اور شعلے جیسی مقبول ترین فلمیں بھی انہوں نے پہلے دن اور پہلے شو میں ہی دیکھی تھی۔ اس دور میں جمعہ کو فلم ریلیز ہوا کرتی تھی۔ نماز پڑھنے کیلئے مسجد میں جاتے وقت فلم کاٹکٹ یاد سے جیب میں رکھ لیتے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے سیدھے سنیما گھر جاتے۔ فلم مغل اعظم کا پریمئر شو مراٹھامندر میں تھا، اس کا پاس نورمحمد کے والد کو ملاتھا۔ چونکہ والد کو نور محمد کے فلم دیکھنے کے شوق کاپتہ تھا، اسلئے وہ پاس انہوں نے نور محمد کو دے دیا تھا۔ پاس بہت بڑا تھا۔ اس پر فلم مغل اعظم کے ہیرو دلیپ کمار اور ہیروئن مالا سنہا کی تصویر چھپی تھی۔ نور محمد کی عمر اس وقت ۱۲؍سال تھی، اسلئے والد نے اپنے ملازم فقیہ چاچا کو نور محمدکے ساتھ بھیجا تھاتاکہ وہ نور محمد کو سنیما گھر تک چھوڑ آئے۔ یہاں نور محمد نے دلیپ کمار، کے آصف، نوشا د اور پرتھوی راج وغیرہ کو دیکھا تھا۔
نورمحمد کا ایک دوست دلاور تھا جس کا گائوں وردھن گڑھ، ستارا تھا۔ یہاں کی پہاڑی پر شیواجی کا قلعہ تھا۔ یہاں کے ہندو مسلمان قلعہ میں رکھے اسلحہ کودھار کرنے کا کام کرتے تھے۔ خوبصو ر ت قدرتی مناظر اور سرسبز علاقہ ہونے سے بہت اچھا لگتاتھا۔ نور محمد اور ان کےساتھی اکثر تفریح کیلئے وہاں جاتے تھے۔ دلاور کی والدہ ان سب کیلئے عمدہ قسم کے پکوا ن تیار کرتی تھیں۔ بہت لطف آتاتھا۔ وہ دن آج بھی یاد آتے ہیں۔