مدنپورہ کی معروف سماجی ، علمی اور تعلیمی شخصیت انصاری محمود پرویز ۳۸؍ سال تک تدریسی خدمات سے وابستہ رہے ۔ ملازمت سے سبکدوش ہونےکے بعد بھی ان کی تعلیمی اورسماجی خدمات کا سلسلہ جاری ہے، عمر کے اس مرحلے پر بھی پوری طرح سے چاق و چوبند ہیں۔
EPAPER
Updated: September 29, 2024, 5:14 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
مدنپورہ کی معروف سماجی ، علمی اور تعلیمی شخصیت انصاری محمود پرویز ۳۸؍ سال تک تدریسی خدمات سے وابستہ رہے ۔ ملازمت سے سبکدوش ہونےکے بعد بھی ان کی تعلیمی اورسماجی خدمات کا سلسلہ جاری ہے، عمر کے اس مرحلے پر بھی پوری طرح سے چاق و چوبند ہیں۔
مدنپورہکی معروف سماجی، علمی اور تعلیمی شخصیت انصاری محمود پرویز نے اتوار۲۴؍ اگست کا گوشہ ٔ بزرگاں کالم پڑھ کر مجھے فون کیا۔ خیر خیریت دریافت کرکےکہا کہ جناب تقریباً ڈیڑھ سو عمر رسیدہ افراد کی طرز زندگی کا مشاہدہ کالم کے ذریعے کرچکا ہوں۔ جس اتوار کا کالم زیادہ پسند آتا ہے، اسے محفوظ بھی کر رکھا ہے۔ میرے ایک عزیز دوست ۸۲؍ سال کے ہیں ، اگر انہیں بھی کالم میں جگہ دی جائے تو خوشی ہوگی۔ جس پر مضمون نگار نے کہا کہ آپ بھی کالم میں شریک ہونے والے بزرگوں کے زمرے میں آچکے ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔ بہرحال کالم سے متعلق ان سے ہونےوالی بات چیت بڑی دلچسپ رہی۔
انصاری محمود پرویز کی پیدائش ۱۷؍ مارچ ۱۹۵۱ء کو عرب گلی، گرانٹ روڈکے لوکھنڈوالا بلڈنگ میں ہوئی تھی۔ مدنپورہ ہری مسجد کے سامنے واقع مولانا آزاد میونسپل اُردو اسکول سے چوتھی اور ناگپاڑہ کے انجمن اسلام احمد سیلر اُردو ہائی اسکول سے ایس ایس سی پاس کرکے مہاراشٹر کالج کے سائنس فیکلٹی میں داخلہ لیا۔ مہاراشٹر کالج کا افتتاح ۱۹۶۸ء میں ہوا تھا۔ یہاں کی سائنس فیکلٹی میں داخلہ لینے والے وہ پہلے طالب علم تھے۔ یہاں سے بی ای سی آنرس کی ڈگری حاصل کر کے ملازمت کی تلاش شروع کی۔ ان کا انتخاب بھا بھا اٹامک ریسرچ سینٹر میں ہوگیا تھا لیکن داڑھی کے بغیر ڈیوٹی جوائن کرنے کی انتظامیہ کی شرط، ان کے والد کو قطعی منظور نہیں تھی، اسلئے وہ ملازمت قبول نہیں کی۔ اس کے بعد جب تک ملازمت نہیں ملی، ٹیوشن وغیرہ دینے کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران ڈی ایڈ نہ ہونے کے باوجود محمد علی روڈ پر واقع محمدیہ اسکول میں انٹرویو دیا، اور ان کا انتخاب بھی ہوگیا۔ ۲۲؍ جنوی ۱۹۷۳ء کو ڈیوٹی جوائن کی اور ۳۸؍ سال تک تدریسی خدمات سے وابستہ رہے۔ ۲۰۰۹ء میں سبکدوش ہوئے۔ شروع ہی سے تدریسی خدمات کے ساتھ سماجی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اب بھی بڑی ذمہ داری سے سرکاری، نیم سرکاری، مہانگر اور نگرپالیکا کے فلاحی اسکیموں کا سرکیولر متعلقہ محکموں سے حاصل کر کے، انہیں مراٹھی سے اُردومیں ترجمہ کر تےہیں۔ پابندی سے تقریباً ۲؍ ہزار افراد تک وہاٹس ایپ گروپ کے ذریعےاسے بھیجتے ہیں۔ ان کی ان کوششوں سے ملازمت کےمتلاشیوں کو کافی مدد ملتی ہے۔
سعودی بادشاہ، شاہ سعود جب ممبئی آئے تھے، اُس وقت محمودپرویز کی عمر ۵؍ سال تھی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں کی زبانی سنا تھا کہ غربت اور پیسوں کی دقت سے مدنپورہ، پوسٹ آفس کے سامنے واقع گانجہ والی چال (جواب مدینہ منزل ہے) کے مکینوں نے پتنگ کے کاغذ کےکترن سے ۲؍ ٹوکریاں بھر کر ۲؍ عمارتوں سے باندھی تھیں اور شاہ سعود کے یہاں سے گزرنے پر ان ٹوکریوں سے کترن کی بارش کر کے ان کا استقبال کیا تھا۔ اس دورے میں انہوں نے مومن پورہ کی مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی تھی۔ مسجد کے صدر حاجی باب اللہ کو تحفہ و تحائف سے نوازا تھا اور مسجد کی تعمیر نو کیلئے عطیہ بھی دیا تھا۔
۶۰ء اور ۷۰ء کی دہائی میں مدنپورہ کے ہر گلی، محلے کے گھروں میں چرخہ بھرا جاتا تھا۔ غریبی اور مفلسی کی وجہ سےبیشتر خواتین چرخہ کاتنے کا کام کرتی تھیں ۔ پورے علاقےمیں ہینڈلوم کا جال بچھا تھا۔ ہینڈلوم میں کپڑا بننے کیلئے سود سے بھری کانڈی کی ضرورت ہوتی تھی۔ ان کانڈی کو بھرنے کا کام گھروں کی عورتیں کرتی تھیں۔ اسی کو چرخہ کاتنا کہتے تھے۔ چرخہ بھرنے والی خواتین کو رو زانہ کے اعتبار سے ایک آنا، دو آنا یا بہت ہوا تو چار آنا ملا کرتا تھا۔ گھریلو کام کاج کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے عورتیں چرخہ کاتتی تھیں ۔ پورے علاقے میں چرخہ بھرنے اور ہینڈلوم کے کام سے سود کا ریشہ یہاں کی آب وہوا کا حصہ بن گیا تھا۔ ناک اور منہ کے ذریعے ریشہ سینے اور پھیپھڑے میں جاکر رک جاتا، جس کی وجہ سے ٹی بی کا مرض بہت سے لوگوں کو لاحق ہوگیا تھا۔
۱۹۷۶ء میں تنخواہ میں اضافہ سے متعلق ممبئی کے سبھی سرکاری ملازمین نے بڑے پیمانے پر غیر معینہ ہڑتال کی تھی۔ یہ ہڑتال ۵۶؍ دنوں تک جاری رہی جس کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی کا بھی بہت زیادہ نقصان ہوا لیکن ملازمین کی یونین مضبوطی کے ساتھ ہڑتال پر اٹل رہی۔ محمود پرویز اور دیگر ٹیچر برادری کے لوگ رانی باغ کے قریب واقع میدان یا پھر ناگپاڑہ کے پی ٹی مانے میدان میں جمع ہوا کرتے تھے۔ ان میدانوں میں ہی ہڑتال سے متعلق میٹنگیں ہوا کرتی تھیں ۔ اس وقت ریاست کے وزیر اعلیٰ وسنت دادا پاٹل تھے۔ انہیں مخاطب کرتے ہوئے ملازمین ’دادا تیرے راج میں ستیہ گرہی جیل میں ‘ کا نعرہ بلند کرتے تھے۔ یونین کے ٹس سے مس نہ ہونے پر حکومت نے ملازمین کے سامنے گھٹنے ٹیک د یئے تھے جس کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا۔
۶۰ء کی دہائی میں انتخابی مہم بڑی عجیب ہوا کرتی تھی۔ الیکشن مہم کےدوران بھیڑ جمع کرنے کیلئے اسٹیج پر ناچ گانے کا پروگرام ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح ڈراموں کے ذریعے بھی لوگوں کو مہم سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کیلئے گلی محلے میں لگے بورڈوں پر حریف پارٹی کے لیڈروں کے کارٹون بھی بنایا کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے اکثر دو پارٹیوں اور دو گروپوں کے درمیان تصادم کی بھی نوبت آجایا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ ڈھول باجے کےساتھ سیاسی ریلیاں نکالی جاتی تھیں۔
اس دور میں ریلیز ہونے والی نئی فلموں کی تشہیر کابھی اپنا ایک الگ انداز تھا۔ شہر کے اہم علاقوں کی چنندہ دکانوں پر پوسٹر سائز کے ۶۔ ۷؍ بورڈ لگے ہوتے تھے۔ ان بورڈوں کے اُوپری حصے پر تھیٹر کا نام ہوتا تھا۔ ہر جمعرات کی رات بورڈ پرجمعہ کو ریلیز ہونے والی فلم کا پوسٹر چسپاں کیا جاتا تھا۔ جمعہ کی صبح ان دکانوں پر لگائے گئے نئے پوسٹر دیکھنے کیلئے بھیڑ اکٹھا ہوتی تھی۔ مدنپورہ میں جُونی مسجد کے سامنے واقع آزاد انڈیا ہوٹل جو کسی زمانے میں برٹش انڈیا ہوٹل ہوا کرتی تھی، اس کے علاوہ مدنپورہ کی متعدد دکانوں پر اس طرح کے بورڈ لگے ہوئے تھے۔ محمود پرویز جمعہ کی صبح آزاد انڈیا ہوٹل کے پاس جا کر ان پوسٹر وں کوپابندی سے دیکھتے تھے تاکہ معلوم ہو کہ کس تھیٹر میں کون سی فلم لگنے والی ہے۔ جن دکانوں پر بورڈ لگے ہوئےتھے، انہیں بورڈ لگانے کا کرایہ نہیں دیا جاتا تھا لیکن اس کے بدلے میں ریلیز ہونے والی فلم کے ٹکٹ دیئے جاتے تھے۔
۲۰۰۳ء میں محمود پرویز اپنے اہل خانہ کے ساتھ حج بیت اللہ پر گئے تھے۔ اسی سال شیطان کو کنکری مارنے کے ارکان کی ادائیگی کے دوران بھگدڑ مچنے سے ۱۴؍ عازم شہید ہوگئے تھے۔ محمود پرویز بھی بری طرح بھگدڑ میں پھنس گئے تھے۔ بھیڑپر قابو پانا ناممکن تھا۔ لوگ ایک دوسرے پر گرے جا رہے تھے۔ بھیڑ میں دھکا مکی کی وجہ سے برا حال تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ اگر کوئی زمین پر گرگیا تو اسے اُٹھنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بھیڑ کے پیروں تلے دب کر متعدد لوگوں نے دم توڑ دیا تھا۔ اپنی جان بچانے کیلئے لوگ لاشوں کے او پرسے گزرنے پرمجبور تھے کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس موقع پر محمود پرویز اپنے بیٹے کے ساتھ تھے۔ وہاں کے انتہائی خوفناک منظر کو دیکھ کر محمود پرویز نے ہمت چھوڑ دی تھی لیکن ان کےبیٹے نے جان پر کھیل کر انہیں بچایا تھا۔ وہ حادثہ اتنا کرب انگیز تھا کہ اُس واقعے کو چاہ کر بھی وہ فراموش نہیں کرپارہے ہیں۔