• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’نواب گنج کے برادرانِ وطن نے کہاتھا، اس خاندان پر حملہ کرنےوالوں کو پہلے ہم سے نمٹنا ہوگا‘‘

Updated: September 15, 2024, 5:08 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

میراروڈ کی ثریاجہاں کی پیدائش ۱۹۴۲ء میں بنارس کے نواب گنج میں ہوئی تھی، شادی کے بعد ممبئی آگئیں، یہاں کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے ساتھ ہی وہ رضاکارانہ طور پر اللہ کی رضا کیلئے گزشتہ ۵۵؍برسوں میں ۵۰؍ سے زائد شادیاں طے کرا چکی ہیں۔

Suriya Jahan. Photo: INN
ثریا جہاں۔ تصویر : آئی این این

نیانگر، میراروڈ، نیانگر کی ۸۲؍سالہ ثریاجہاں ، نریندرپارک میں رہائش پزیر ہیں۔ یکم ستمبر اتوار کو ان سے ہونےوالی ملاقات انتہائی دلچسپ اور معلوماتی رہی۔ تقریباً ایک گھنٹہ ۱۰؍منٹ ہونےوالی گفتگو کےدوران انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار سے آگاہ کیا، جوعمدہ ہونےکےساتھ حیرت انگیز بھی ہے۔  
 ثریا جہاں کی پیدائش ۱۹۴۲ءمیں بنارس کے نواب گنج محلہ میں ہوئی۔ اس محلہ سےمتصل ہڑیاسرائے میں عالمی شہر ت یافتہ شہنائی نواز بسم اللہ خان رہاکرتےتھے۔ وہاں ایک اسکول ہواکرتی تھی، جہاں سے ثریا جہاں نے چوتھی جماعت تک اُردومیڈیم سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے نانا نے، لڑکی ہونےکی بنا پر چوتھی جماعت کےبعدان کی پڑھائی رکوا دی تھی۔ ۱۰؍سال کی عمر سے گھر یلوکام کاج سیکھنا شروع کیا، ۱۶۔ ۱۵ ؍ سال کی عمر میں تمام گھریلو ذمہ داریاں نبھانے لگی تھیں۔ اس عمر میں پورے گھر کیلئے انواع و اقسام کےپکوان بنانے کاہنر آگیاتھا، ساتھ ہی سلائی، کڑھائی، بنائی اور کروشیا کافن سیکھ کر گھر کےدروازےاورکھڑکیوں کے پردے، بستر، چادر، تکیے کے غلاف وغیرہ پر ریشم کے دھاگوں سے طرح طرح کی دلکش ڈیزائنوں پر مشتمل دستکاری بھی کرلیتی تھیں۔ ۱۹۶۸ء میں والدین نےشادی کردی، اس وقت سے ممبئی میں مقیم ہیں۔ 
  ثریاجہاں نے شادی کےبعد کارِخیر کےمقصد سے ازدواجی رشتے لگانےکی کوشش شروع کی تھی، جو پیرانہ سالی میں بھی پابندی سےجاری ہے۔ اپنے رشتےداروں اورمتعلقین کے علاوہ دیگر لوگوں کے تقریباً ۵۰؍رشتے کرواچکی ہیں۔ ثریا جہاں کےدادا منا خاں اور والد عیسیٰ خاں کا شمار نواب گنج کے متمول گھرانوں میں ہواکرتاتھا۔ ان کاآبائی پیشہ اونٹ کی خریدوفروخت کا تھا۔ 
  اس دورمیں ہر گھر میں کھانا پکانےکیلئے مٹی کا چولہا استعمال کیاجاتاتھا۔ ثریا جہاں کو اپنے ہاتھوں سے مٹی کاچولہا بنانے کا خاصا تجربہ رہاہے۔ باورچی خانے میں ضرورت کےمطابق لوگ مٹی کے ایک دو چولہے بنایاکرتے تھے۔ ان کے گھر میں مٹی کے چولہے کے ساتھ ایک ہوادان چولہا اور انگیٹھی بھی تھی۔ مٹی کاچولہا لکڑی اور ہواد ان چولہا کوئلہ سے جلایاجاتاتھا، جبکہ انگیٹھی پرانی لوہےکی بالٹی یا ٹین کے ڈبے وغیرہ سے مٹی کی مدد سے بنائی جاتی تھی۔ دستر خوان پر گرم کھانے کیلئے انگیٹھی کمروں میں رکھ دی جاتی تھی، اسی پر کھانا گرم کرکے دیا جاتاتھا۔ اس دورکی آب وہوا، مسالہ اور لکڑی کے چولہے پر بنائی جانےوالی ارہر ( تُور) کی دال بھی، اس قدر لذیذ اور خوشبودار ہوتی تھی کہ کسی گھر میں دال پکتی تو پورے محلےمیں اس کی خوشبو پھیل جاتی، لوگوں کو معلوم ہوجاتاکہ فلاں کے گھر میں ارہر کی دال بنائی گئی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:’’میں نے پانچ سال کی عمر میں گاندھی جی کو دیکھا تھا‘‘

لکڑی کے چولہےسے ثریاجہاں کی زندگی کا ایک افسوسناک واقعہ بھی وابستہ ہے۔ ان کےبڑے بھائی کی شادی تھی۔ مہمانوں سےگھر بھراتھا۔ ان پر گھرکے افرادکےعلاوہ مہمانوں کاکھانابنانےکی ذمہ داری تھی۔ اس دوران، ان کا پوراوقت، صبح سے رات تک باورچی خانے میں گزرتا۔ جہاں ایک روشن دان تھا۔ گیلی لکڑی ہونےسے چولہا جلانے میں بڑی دقت ہوتی تھی۔ لکڑی کو پھونکنی سے پھونک پھونک کر یا پنکھا جھلنے سے باورچی خانےمیں دھواں پھیل جاتا، دھوئیں سے آنکھوں میں جلن ہونے لگتی، ایک دن دھوئیں کی جلن سے پریشان ہوکر انہوں نے پانی سے آنکھیں دھو لی، پھر کیاتھا، ایک آنکھ کی روشنی دھندلاگئی، ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا، ڈاکٹر نے جانچ کرکے ضروری دوا دی لیکن اس وجہ سے ۱۶؍سال کی عمر میں جو چشمہ لگا وہ لگاہی رہا۔ 
 ثریاجہاں کی عمر ۱۲؍سال تھی۔ شدید ٹھنڈکا موسم تھا۔ ایسےمیں سورج گرہن ہونے کی اطلاع عام ہوئی۔ جس روز سورج گرہن تھا، پورا بنارس شہر گھنے سناٹےمیں ڈوباتھا۔ ہر طرف خاموشی اور ہوکاعالم تھا۔ گھر والوں کی تنبیہ کے باوجود مکان کی چھت پر جاکرپانی سے برتن میں گرہن دیکھنا انہیں بھاری پڑگیا۔ گرہن دیکھتے ہی ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ کسی طرح انہیں چھت سے اُتارا گیا، اس کااثر بھی ان کی آنکھوں پر ہواتھا۔ 
 ۱۹۷۲ءمیں ثریاجہاں اپنی نومولودبیٹی کے ساتھ ممبئی سے بنا رس گئی تھیں۔ گھر پہنچنے کے ۲۔ ۳؍ دن بعد یہاں فرقہ وارانہ فسادپھوٹ پڑا۔ لوٹ مار، آگ زنی، پتھرائو اور بوتل بازی شروع ہوگئی۔ پورے شہر میں افراتفری کا ماحول ہونے سے نئی سڑک اور گودولیہ محلے کےدرمیان واقع ایک سنیما گھر میں فلم دیکھنے والی کئی مسلم خواتین تھیٹر میں برقعہ اور چپل چھوڑکر ننگے پائوں، جان بچا کر اپنے گھروں کی جانب بھاگی تھیں ۔ نواب گنج میں چند گھروں کو چھوڑکر پورے محلےمیں ہندو آباد تھے۔ یہا ں کے مسلمانوں پر حملہ ہونے کا قوی امکان تھا۔ ثریاجہاں کے دادا منا خاں اور والدعیسٰی خاں کا نواب گنج نہیں پورے شہر میں اچھا اثرورسوخ تھا۔ علاوہ ازیں نواب گنج کےہمسایہ برادرانِ وطن بھی اس خانوادہ کا احترام کرتے تھے۔ فساد کےد وران نواب گنج کے ہندو ان کے تحفظ پر مامور ہوگئے، ان کا کہناتھاکہ اس خاندان پر حملہ کرنےوالوں کوپہلے ہم سے نمٹناہوگا۔ اس کےباوجود عیسیٰ خاں نے اپنے مکان کی نگرانی کیلئے ۴؍پولیس اہلکاروں کو ۲۴؍گھنٹے گھر کے تحفظ پر تعینات کروالیاتھا۔ پولیس کی نگرانی میں انہوں نے گھر کے سبھی افراد کو بحفاظت اپنے دوسرے گھرمیں جو چوک میں واقع تھا، منتقل کردیاتھا جبکہ اپنی اہلیہ کے ساتھ خود اسی گھر میں رہے۔ 
 جب ثریا جہاں کی عمر۱۰؍ سال تھی، اس دورمیں بنارس میں چیچک کی وباء پھیلی تھی۔ پوراشہر وباءکی لپیٹ میں تھا۔ ہر علاقے، محلے اورگلی میں چیچک سےمتاثر لوگ بڑی تعداد میں تھے۔ اس وبائی مرض کا کوئی پختہ علاج نہ تھا۔ لوگ چیچک سے محفوظ رہنے کیلئے دعا، عبادت اور تلاوت کر رہےتھے۔ وبا ء سے لوگوں کوبچائے رکھنے کیلئے اذانیں دی جا رہی تھیں۔ ثریاجہاں کی ڈیڑھ سالہ چھوٹی بہن بھی چیچک سےمتاثر تھی۔ ان کی والدہ اسے علاحدہ کمرےمیں لے کررہتی تھیں۔ ثریا جہاں اور دیگر بھائی بہنوں کو کمرے میں جانےکی اجازت نہیں تھی۔ بنیاباغ علاقہ کا ایک بنگالی ڈاکٹر چیچک کا علاج ہومیوپیتھی دواسے کررہاتھا۔ اسی سے اس کا علاج جاری تھالیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود اس کی موت ہوگئی۔ اس کی موت پر پورا محلہ سوگوار تھا۔ محلے کے اوربھی کئی افرادنے دم توڑ دیاتھا۔ 
 عالمی شہرت یافتہ معروف ڈرامانگار آغاز حشر کاشمیری کے خانوادہ سے ثریا جہاں کا قریبی رشتہ ہے۔ بنار س کےچوک محلہ میں آغاحشر اور ان کے چھوٹے بھائی آغامحمودکی رہائش گاہ پر ان کااکثر جانا ہوتاتھا۔ ان بھائیوں کاگھر انگریزکےدور کی قدیم لکڑیوں کے انتہائی خوبصورت اور دلکش فرنیچرسے سجاہواتھا۔ ثریاجہاں کے چھوٹے بھائی کا نکاح آغامحمودکی پوتی سے ہواہے۔ جہیز میں دی جانےوالی خوبصور ت نقش ونگاری سے مزین مسہری اب بھی ان کے گھرپر محفوظ ہے۔ ثریا جہاں کےاس بھائی کا ایک دوست امریکہ سے آیاتھا، اس نے مسہری دیکھ کر بھائی سے کہا تھا کہ اگر یہ مسہری فروخت کرنی ہوتومجھے کردیں ، امریکہ میں اس کی منہ مانگی قیمت ملے گی۔ بھائی نے یہ کہہ کر منع کر دیاکہ یہ میری شادی کی نشانی ہے۔ 
 بنارس کے ایک فساد کے تعلق سے ثریاجہاں کو اپنے ماموں کی ایک بات اب بھی یاد ہے۔ پورے شہر میں کرفیو لگا ہواتھا۔ ایسے میں محلہ کے ایک بزرگ جنہیں پان کا بڑا شوق تھا، کرفیوکےباوجود گھر سے نکلے اور محلےکی پان کی دکان پر پہنچےہی تھےکہ عقب سے ان پرجان لیوا حملہ ہوا، جس کی وجہ سے پورے شہر میں ہنگامہ بڑھ گیا۔ ایسےمیں ثریا جہاں کے ۲؍ماموں نے گھر سے باہر جاتےہوئے اپنی ماں سے کہاتھاکہ، ماں ہمارا دودھ معاف کردینا، ہم جارہے ہیں ۔ جس وقت وہ یہ کہہ کرجارہے تھے، پورے گھر میں ماتم کاسماں تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK