• Wed, 29 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

دوران تعلیم ہند چین جنگ کےوقت۲۵؍ ہزار روپے چندہ جمع کرکے کالج انتظامیہ کودیا تھا

Updated: January 27, 2025, 8:32 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

بھیونڈی سے تعلق رکھنے والے اسلم غلام مرتضیٰ فقیہ کی پیدائش ۱۹۴۲ء میں ہوئی تھی،وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک صنعتکار کے طورپر عملی زندگی کا آغاز کیا لیکن قومی ذمہ داری کے تحت زندگی بھر تعلیم کے فروغ کیلئے کوشاں رہے اور آج بھی اسی شعبے میں سرگرم ہیں

Aslam Ghulam Murtaza Faqih. Photo: INN
اسلم غلام مرتضیٰ فقیہ۔ تصویر: آئی این این

بھیونڈی کا معروف سماجی اور تعلیمی فقیہ خانوادہ کسی تعارف کامحتاج نہیں ہے۔ ہندوستان کا مانچسٹر کہلانےوالے اس شہر کی عظیم شخصیات میں کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی( کے ایم ای ایس) کے سابق صدر اسلم غلام مرتضیٰ فقیہ کا شمار بھی ہوتا ہے۔ آپ کی پیدائش ۷؍مئی ۱۹۴۲ءکو اسی شہر میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم رئیس ہال اسکول سے حاصل کی۔ اس اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کی ایک اہم وجہ، ان کےوالدکی اسکول سے وابستگی رہی ہے۔ ممبئی کے سینٹ زیوئرس کالج سے بی اے اور گورنمنٹ لاء کالج چرچ گیٹ سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ آٹوموبائل پارٹس کے کاروبارمیں عملی زندگی گزاری۔ کاروبار کےساتھ وہ متعدد سماجی اور تعلیمی خدمات سے وابستہ رہے۔ عمر کے اس مرحلے پر بھی وہ پوری طرح سے فعال ہیں اور ان کی سماجی اور تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں۔ فی الحال قلابہ (ممبئی) میں مقیم ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: مہوش مولا اکائونٹنگ امتحان میں عالمی سطح پر سرفہرست

اسلم فقیہ وجیہہ شخصیت، اعلیٰ دماغ اوربہترین انتظامی صلاحیت کے مالک ہونےکے ساتھ ہی ان میں پائی جانے والی سادگی اور انکساری ان کی شخصیت کو چارچاندلگاتی ہے۔ کبھی ہار نہ ماننے والا حوصلہ ان کی شخصیت کا ایک اہم جز ہے، جوانہیں دوسروں سے منفر د اور ممتازبناتاہے۔ حالانکہ انہوں نے ایک صنعتکار کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، لیکن تعلیمی شعبےمیں ملنے والی شہرت و مقبولیت نے انہیں بھیونڈی کا تعلیمی ہیرو بنا دیا۔ والد محترم غلام مرتضیٰ فقیہ کی ایماء پر’ کے ایم ای ایس‘ کو انہوں نےاپنی تگ ودو سے جس بلندی پر پہنچایاہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اپنے ادارے کی کامیابی کیلئے وہ پوری زندگی کوشاں رہے۔ دنیا کے کم وبیش ۵۰؍ ممالک کا دورہ کیا۔ ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا راز یعنی تعلیم، نہ صرف جانا بلکہ قوم و ملت میں اس کی کمی کو شدت سے محسوس بھی کیا۔ اسی وجہ سےتعلیم کو انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔ اُردو زبان و ادب سے خاص شغف ہے۔ رئیس ہائی اسکول میں اُردو کتاب میلہ کاانعقاد ان کی اُردودوستی کابین ثبوت ہے۔ ۲۵؍سال تک کے ایم ای ایس کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے اپنی خدمات انجام دیں۔ 
اسلم فقیہ کےچاچا مصطفیٰ فقیہ کانگریس پارٹی سے وابستہ تھے۔ ان کا شمار صرف بھیونڈی نہیں بلکہ ریاست کےمعروف سیاسی لیڈر ان میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ریاستی وزیر کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ ان کا ایک فلیٹ چوپاٹی پر بھی تھا۔ ایک مرتبہ پنڈت جواہر لال نہر و کانگریس کے اجلاس میں شرکت کیلئے ممبئی آئے تھے۔ چوپاٹی پر ہونے والے جلسے میں چاچامصطفیٰ فقیہ کے ساتھ اسلم فقیہ بھی گئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر ۱۰؍سال تھی۔ اسٹیج کے قریب کی نشست سے نہروجی کو دیکھنے اور سننے کا اس سے بہتر موقع نہیں مل سکتاتھا۔ اس دو ر میں حفاظتی اموربھی پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ بڑے اطمینان سے نہروجی سے ہونےوالی ملاقات انہیں اچھی طرح یاد ہے۔ 
 اسلم فقیہ کا کہناہےکہ آج میں جوکچھ بھی ہوں، اپنے والدمرتضیٰ فقیہ اورچاچا مصطفیٰ فقیہ کی مرہون منت ہوں۔ وہ والد کی اس نصیحت کو نہیں بھولتے کہ ’’ اتنا کمائوکہ پیسوں میں تمہاری دلچسپی نہ رہے، جیب ہمیشہ بھری رہے‘‘ خدا کے فضل سے والد کی نصیحت کا نتیجہ رہاکہ ان کی جیب ہمیشہ بھری رہی جس کی وجہ سے تعمیری اور تخلیقی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 
 چاچامصطفیٰ فقیہ کی دلنوازی اور ہمدردی کے ایک واقعہ سے اسلم فقیہ بے حدمتاثرہوئےتھے۔ اس وقت ان کے چاچا وزارت کے منصب پر فائز تھے۔ ایک دن اسلم اور مصطفیٰ فقیہ بھیونڈی سے ممبئی جارہےتھے۔ دھامنکر ناکے پر اچانک چاچا نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کی ہدایت دی۔ اسلم فقیہ کے استفسار کرنےپر مصطفیٰ فقیہ نے سڑک پر کھڑے ایک اجنبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہاکہ یہ شخص سواری کا منتظر دکھائی دے رہا ہے، ہم اسے گاڑی میں بٹھا کر لفٹ دیں گے۔ گاڑی روک کرانہوں نے اس شخص کو آگے والی سیٹ جو خالی تھی، اس پر بٹھالیا۔ اسے کشیلی بریج تک جاناتھا۔ وہاں اس شخص کوڈراپ کرنے کے بعد یہ لوگ ممبئی پہنچے۔ وزیر ہوتے ہوئے چاچاجان کے اس طرزعمل نےاسلم فقیہ کو بہت متاثرکیاتھا۔ والداور چاچاجان کی سادگی اور خلوص کے وہ زبردست قائل رہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: پچاس سال پہلے شادی کے موقعوں پرمتعلقہ ذمہ داریاں اراکین میں تقسیم کردی جاتی تھیں

 چین اورہندوستان کےدرمیان ۱۹۶۲ءمیں ہونےوالی جنگ کے دوران اسلم فقیہ سینٹ زیوئرس کالج میں زیر تعلیم تھے۔ کالج کے فعال طلبہ میں ان کا شمار ہونے سے کالج انتظامیہ نے انہیں جنگ متاثرین کی امداد کیلئے فنڈ جمع کرنےکی ذمہ داری سونپی تھی۔ کالج میں ان کے ایسے بھی دوست تھے جن کےتعلقات فلم انڈسٹری کی اہم شخصیات سے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ ہم نے اپنے دوستو ں کی مدد سےاُس دور میں ۲۵؍ ہزار روپے جمع کرکے کالج انتظامیہ کے حوالے کیا تھا جس کی وجہ سے ہماری خوب پزیرائی ہوئی تھی۔ ‘‘
 ایک مرتبہ اسلم فقیہ کسی کام سے دبئی گئے تھے۔ ان کی ایک شناسابھی دوسرے جہاز سے دبئی گئی تھیں۔ دونوں کا جہازایک ساتھ ممبئی سے دبئی کیلئے روانہ ہواتھا لیکن اتفاق سے خاتون کے جہاز کو اغواء کرلیاگیاتھا۔ دبئی ایئر پورٹ پر دونوں جہاز کے ایک ساتھ لینڈ کرنے پر اسلم فقیہ تو جہاز سے بحفاظت اُتر گئے تھے لیکن اس خاتون سے متعلق فکر مندتھے۔ کچھ دیر بعد اغوا ہونے والے جہازکےمسافروں کو بھی جہاز سے اُترنےکی اجازت مل گئی تھی۔ جس طرح سے لوگ جہاز سے ڈرے اور سہمے اُتر رہے تھے، اس منظر کو اسلم فقیہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس خاتون نے اسلم فقیہ کو پورا واقعہ بیان کیاتھا۔ 
 اسلم فقیہ کو اپنے بچپن کی بھیونڈی اور آ ج کی بھیونڈی میں بہت فرق نظر آرہا ہے۔ ان کا خیال ہےکہ بھیونڈی آج بہت پیچھے ہے۔ بھیونڈی کو جہاں ہوناچاہئے، وہاں وہ نہیں پہنچ سکاہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ بھیونڈی کی مہمان نواز ی کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں محنت کش لوگ رہتےہیں لیکن انہیں ان کی محنت کاوہ نتیجہ نہیں ملا جس کے وہ مستحق ہیں۔ 
 معروف فلم اداکار دلیپ کمار کےفقیہ خانوادہ سے انتہائی قریبی مراسم تھے۔ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا، دلیپ کمار اسلم فقیہ کے چاچا مصطفیٰ فقیہ سے رابطہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دلیپ کمار کی رہائش گاہ پر انکم ٹیکس والوں نے چھاپہ ماراتھا۔ اس وقت دلیپ کمار نے مصطفیٰ فقیہ کوفون کرکے کہاتھاکہ ’یہ سب کیاہورہاہے، دیکھو‘ دلیپ کمار کی مصطفیٰ نے بحیثیت وزیر جو مدد کرنی تھی، وہ کی تھی۔ اسی تعلق کی بنیاد پر اسلم فقیہ کابھی دلیپ کمار سے بڑاقریبی رشتہ رہا۔ وہ اکثر دلیپ کمار کے گھر جایاکرتےتھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے میڈیکل کالج قائم کرنےکیلئے دلیپ کمار سے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے بات کرنےکی درخواست کی تھی۔ دلیپ کمارنے اس تعلق سے اٹل بہاری واجپئی سے ملاقات کا وقت متعین کیا۔ وہ مقررہ وقت پر ملاقات کیلئے ممبئی سے دہلی گئے بھی لیکن جب واجپئی کےروبرو بیٹھے تو انہیں یاد ہی نہیں رہاکہ وہ ان کے پاس کیو ں آئے ہیں ؟ اس موقع پر دلیپ کمار نے کہا کہ’’کمبخت یاد ہی نہیں آرہاہےکہ میں ان کے پاس کیوں آیاہوں ؟‘‘ایسےمیں کافی دیروہ اٹل جی سے ادھر اُدھر کی باتیں کرتےرہے، دریں اثناء اٹل جی کے سیکریٹری نے بتایاکہ دلیپ کمار میڈیکل کالج کے بارےمیں گفتگوکرنے آئے ہیں۔ سیکریٹری کے یاد دلانے پر دلیپ کمارنے اٹل جی سے اس موضوع پر گفتگو کی تھی۔ 
 اسکول کے زمانےمیں چھٹیو ں میں اسلم فقیہ اپنی والدہ کے ہمراہ کسارا کے قریب واقع کھرڈی گائوں جایا کرتے تھے جہاں ان کابنگلہ ہے۔ بچپن میں انہیں آئس کریم بہت پسند تھا لیکن اس دور میں کھرڈی میں آئس کریم کی کوئی دکان نہیں تھی۔ ایسےمیں کھرڈی سے کسارہ لوکل سے ۱۵؍کلومیٹر کا سفر طے کر وہ آئس کریم کھانے جایا کرتےتھے۔ انہیں بچپن کا ایک اور شوق یاد ہے۔ وہ کھرڈی اسٹیشن کی ریلوے پٹری پر ایک پیسے کا سکہ رکھتے تھے اور ٹرین کےگزرجانےکےبعد سکے کو اُٹھاکر اس کی ہیئت دیکھتے تھے۔ انہیں اس میں بہت مزہ آتا تھا۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK