• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

پچاس سال پہلے شادی کے موقعوں پرمتعلقہ ذمہ داریاں اراکین میں تقسیم کردی جاتی تھیں

Updated: January 20, 2025, 7:14 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

آگری پاڑہ کے شیخ ریاض احمد عبدالقادر عرف ریاض منصف نے اپنی عملی زندگی کا بیشتر حصہ دُبئی میں گزارا، اسکول کے زمانے ہی سے شعروادب سے دلچسپی رہی، جو مصروفیت کے دنوں میں بھی رہی اور اب بھی برقرار ہے ،ان کی ۳؍تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں

Sheikh Riaz Ahmed Abdul Qadir. Photo: INN
شیخ ریاض احمد عبدالقادر۔ تصویر: آئی این این

آگری پاڑہ، بی آئی ٹی چال کے شیخ ریاض احمد عبدالقادر عرف ریاض منصف کی پیدائش ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مورلینڈروڈ پر واقع پتھروالی اسکول سے حاصل کی۔ صابوصدیق ٹیکنیکل اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ مہاراشٹر کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد ۳؍سال تک ذریعہ معاش کیلئے تگ ودو کی لیکن یہاں کوئی ڈھنگ کی ملازمت نہیں ملی تو دبئی چلے گئے۔ وہاں جانے کے بعدممبئی میں جن کمپنیوں میں ملازمت کیلئےدرخواستیں دی تھیں، ان میں سے ۳؍کمپنیوں کا اپائنٹمنٹ لیٹرموصول ہوا مگرتب تک کافی تاخیر ہوچکی تھی۔ ۳۰؍ سال تک دبئی میں ملازمت کی۔ ۲۰۱۰ء میں دبئی سے دوبارہ ممبئی منتقل ہوئے۔ دبئی کی آمدنی سے بچی رقم کی ممبئی میں سرمایہ کاری کی جس کی وجہ سےآج ان کا گزر بسر اچھے طریقے سے ہورہا ہے۔ اسکول کے زمانے ہی سے شعروادب سے دلچسپی رہی جو اَب بھی برقرار ہے۔ ان کی ۳؍تصانیف (دنیامرے آگے، دوہے منصف رنگ اور مٹھی بھر خواب)منظر عام پرآچکی ہیں۔ 
  ۲۵؍جون ۱۹۷۵ءکو ملک میں ایمرجنسی لگائی گئی تھی، جو ۲۱؍مارچ ۱۹۹۷ء تک جاری رہی۔ اس دوران عوام کو بڑی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا۔ خوردونوش کی اشیاء کی قلت سے لوگ پریشان ہوگئے تھے۔ کام کاج اور کاروبار کے متاثر ہونے سے روزی روٹی کامسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ بےروزگاری بڑھ گئی تھی۔ نئی ملازمت کےمواقع کم ہوگئے تھے۔ ایسے میں ضروریاتِ زندگی پوری کرنے سےمتعلق لوگ فکرمند تھے۔ سپلائی کم ہونے سے دودھ کیلئے طویل قطاریں لگائی جاتی تھیں۔ گوشت خریدنےکیلئے تگ ودو کرنی پڑتی تھی۔ لوگ دوردراز کے علاقوں سے گوشت خرید کر لاتےتھے۔ چونکہ شیخ ریاض احمد کےگھر میں ان کے علاوہ کوئی کمانے والا نہیں تھا، اسلئے گھر چلانے میں بڑی دشواری ہوتی تھی۔ اس دور میں ا نہیں ملازمت بھی نہیں ملی تھی۔ ایسے میں گھریلو ضروریات پوری کرنےکیلئے متعددمرتبہ قرض لینے کی نوبت آگئی تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: شیخ زیب النساء نے والدہ کی خدمت کرنے والے طالبعلم کا ذکر فخریہ انداز میں کیا

یہ ۶۵۔ ۱۹۶۴ء کی بات ہے۔ پتھروالی اسکول میں شیخ ریاض احمد چوتھی جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ اسکول کے ہیڈماسٹر مہدی سراور اساتذہ نے یوم جمہوریہ کے موقع پر طلبہ کامزاحیہ مشاعرہ منعقدکرنےکا اعلان کیا تھا۔ مشاعرے کیلئے ۶؍طلبا پر مشتمل ایک ٹیم تیار کی گئی تھی جن میں ریاض احمد بھی شامل تھے۔ مزاحیہ مشاعر ہ میں حصہ لینے والے طلباء کرتا، پائجامہ، شیروانی اور ٹوپی میں ملبوس تھے۔ شیخ ریاض احمد کا تخلص کھٹمل کھٹیابادی، دوسرے طالب علم کامچھر کمبلابادی اسی طرح دیگر طلباء کے مزاحیہ تخلص رکھے گئے تھے۔ تّخلص کے اعتبار سے اسکول کے اساتذہ نے ان کے کلام مرتب کئے تھے۔ مثلاً کھٹمل کھٹیابادی کا کلام کھٹمل کی صفات اور اوصاف پر مبنی تھا۔ اسی طرح مچھر کمبلابادی کا کلام مچھروں کی خصوصیات بیان کرنے والا تھا۔ مزاحیہ مشاعرہ سے سامعین خوب محظوظ ہوئےتھے۔ شہرکے تمام اُردو پرائمری اسکولوں میں اس مزاحیہ مشاعرہ کا چرچا رہا۔ شیخ ریاض احمد کے کھٹمل کے کلام کی بڑی ستائش کی گئی۔ 
 ۶۹۔ ۱۹۶۸ء میں ریاض احمد صابوصدیق ٹیکنیکل اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ اس موقع پر فلم اداکار قادر خان ان کے کلاس ٹیچر تھے۔ وہ بچوں کو پڑھانےکے معاملے میں بہت سخت اور پابند تھے۔ جو طالب علم پڑھائی میں تساہلی برتتا، اس کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے۔ ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ سے ایک دن قادر خان نے ریاض احمد کی بہت پٹائی کی تھی جس کی وجہ سے ریاض احمد کے جسم پر نیلے نشان پڑ گئے تھے۔ اسکول ختم ہونے پر قادر خان کلاس میں دوبارہ آئے، دیگر طلبہ کو گھر جانےکی ہدایت دی اور ریاض احمد کو رکنے کیلئے کہا۔ سب بچوں کے جانےکےبعد انہوں نے ریاض احمد سے ان کے والدین کے بارے میں دریافت کیا۔ بعدازیں بڑی محبت اور شفقت سے سمجھایا کہ اگر سنجیدگی سےپڑھائی نہیں کروگے تو آگے کیسے بڑھوگے، والدین بچوں کو بڑی اُمیدسے اسکول بھیجتےہیں۔ اسکول میں اساتذہ پڑھائی سے متعلق جو بھی ہدایتیں دیں ، ان پر ذمہ داری سے عمل کرناچاہئے۔ ریاض احمد کو سمجھانےکےبعد انہوں نے چپراسی کو بلاکر چائے اورکیک منگوایا۔ اپنے سامنے ریاض احمدکو چائے کیک کھلاکر گھر روانہ کیااور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنےکی تلقین کی۔ 
 ریاض احمد کو فلمیں دیکھنے کا شوق بچپن سے رہا۔ اسکولی دوستوں کے ساتھ جمعہ کو ریلیز ہونے والی فلم دیکھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ان کے پاس فلم کے ٹکٹ کیلئے پیسے نہیں ہوتے تھے، ایسے میں اُن کے دوست ان کا ٹکٹ نکالتےتھے۔ ان کے فلموں کے شوق کوفلم اداکاروں کی اِسٹل فوٹوگرافی کرنے والے ان کے انکل عبدالصمد سے فروغ ملا۔ ریاض احمد اپنے انکل کے ساتھ اکثر شوٹنگ پر جاتے تھے۔ اس سے انہیں اسٹل فوٹوگرافی کا موقع بھی ملا۔ اس دور میں فلموں کی ریلیز پر پریمئرشو کا اہتمام کیا جاتا تھا جس میں اداکاروں کےعلاوہ ڈائریکٹر، پر وڈیوسر اور دیگر عملہ بھی شریک ہوتا تھا۔ پریمئر شو ایک اہم اور بڑا ایونٹ ہوتا تھا۔ اس دور میں گرانٹ روڈ پر واقع ناولٹی سنیما میں فلم ڈائریکٹر بی آر چوپڑا کی فلم ’آدمی اور انسان‘ ریلیز ہونے والی تھی۔ پریمئرشو کاپاس عبدالصمد انکل کو بھی ملا تھا۔ ریاض احمد، ان کے ساتھ شو دیکھنے گئے تھے۔ اس موقع پر مذکورہ فلم کے اداکار دھرمیندر، سائرہ بانو اور فیروز خان کے علاوہ دیگر فلمی ہستیاں بھی موجود تھیں۔ عبدالصمد انکل کے تعلقات کی بنا پر ان اداکاروں کو قریب سے دیکھنے اور بات چیت کرنے کا موقع ریاض احمد کو ملا تھا۔ 
 ریاض احمد کے دبئی میں ۳۰؍سالہ قیام کے دوران ایک غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے منعقدہ ’ہفت لسانی‘ مشاعرہ وہ کبھی نہیں بھولتے۔ ۷؍ زبانوں کے شعراء کرام کیلئے ہر زبان کے ترجمہ کرنےوالے بھی اسٹیج پر ہوتےتھے۔ سامعین میں اُردواور ہندی سے واقفیت رکھنےوالوں کی اکثریت ہونے سے ترجمہ کرنےوالے، ان ۲؍زبان میں دیگر زبانوں کے شعراءکے کلام کاترجمہ کررہےتھے۔ 
  ۱۹۶۰ءکی بات ہے، مدنپورہ، شیخ حفیظ الدین مارگ پر واقع سالویشن آرمی ادارہ کی جانب سے عیسائیت کو فروغ دینےکی مہم چلائی جاتی تھی۔ ادارے کے ذمہ داران مدنپورہ اور اطراف میں گھروں پر جاکر عیسائیت کی تبلیغ کرتےتھے۔ اس دوران خوردونوش کی اشیاء مفت تقسیم کرتے تھے۔ ہر اتوار کو شام ۴؍بجے جلوس کی شکل میں سالویشن آرمی سے ایک قافلہ باجے گاجے کے ساتھ نکلتا تھا۔ بھونپو کی آواز سے لوگ قافلہ کے ساتھ ہو لیتےتھے۔ مدنپورہ سے جھولامیدان، کالاپانی اور آگری پاڑہ ہوتا ہوا یہ قافلہ وائی ایم سی اے میدان پر رُکتا تھا۔ یہاں ان کی تقریریں ہوتی تھیں ۔ 

یہ بھی پڑھئے: فرض شناس معلم سبھاش یادو جنہوں نے ۳۳؍سالہ کریئر کےدوران ایک بھی چھٹی نہیں لی

ریاض احمد کالج کی پڑھائی کے دوران عالمی ادارے’ یونی سیف‘ کے بائیکلہ کی ایک شاخ پر بچوں کو انگریزی پڑھاتے تھے جس کی وجہ سے ’یونی سیف‘ سے ان کے مراسم تھے۔ ایک مرتبہ یونی سیف کی جانب سے قومی سطح پر ایک سروے کیا گیا۔ اس کے تحت منتخب ہونےوالوں کو تربیت کیلئے یونی سیف کے ہیڈآفس کینیڈا بھیجنے کا منصوبہ تھا۔ ہندوستان سے ۷؍ اُمیدواروں کی تقرری ہوئی تھی جن میں ریاض احمدبھی شامل تھے لیکن بعد میں کسی ’سفارش‘ کی وجہ سے ان کی جگہ کسی اور آدمی کا نام شامل کرلیا گیا تھا۔ 
 ۶۰ءاور ۷۰ء کی دہائی میں شادیاں بڑی سادگی سے ہوتی تھیں۔ شادی ہونے پر ہفتوں جشن کا ماحو ل ہوتاتھا۔ جس کے گھر میں شادی ہوتی تھی، اس کی جانب سے ۱۵؍دن قبل ایک میٹنگ بلائی جاتی تھی جس میں محلےکے ذمہ داران کےعلاوہ نوجوانوں کو مدعوکیاجاتا تھا۔ میٹنگ میں شادی کی ساری ذمہ داریاں نوجوانوں میں تقسیم کی جاتی تھیں۔ کسی گروپ کو پکوان تو کسی کو کھاناکھلانے کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی۔ محلہ اورشادی والے گھر کو سجانے کی ذمہ داری بھی کسی گروپ کو دی جاتی تھی۔ نکاح اور ولیمہ والے دنوں کی تقریبات کے ختم ہونے کے بعد ورکنگ کمیٹی ذمہ داران اور اراکین کی خدمت میں اظہار تشکر پیش کرنےکیلئے مزید ایک میٹنگ کی جاتی تھی۔ اس دور میں شادی کے کھانے میں دال گوشت اور چاول عام تھا۔ اگر کسی کے پاس گنجائش ہوتی تو سوجی کا حلوہ بھی رکھتا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK