واجہ محلہ، بھیونڈی کی معروف شخصیت اعجاز احمد مومن جو ۳۷؍ سال کی تدریسی خدمات کے بعد ۲۰۰۳ء میں سبکدوش ہوئے، شہنشاہ جذبات سے ملاقات اور شکیل بدایونی اور ساحر لدھیانوی کے ہاتھوں توصیفی سند ملنے کا ذکر بڑے چاؤ سے کرتے ہیں۔
EPAPER
Updated: January 28, 2025, 4:02 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
واجہ محلہ، بھیونڈی کی معروف شخصیت اعجاز احمد مومن جو ۳۷؍ سال کی تدریسی خدمات کے بعد ۲۰۰۳ء میں سبکدوش ہوئے، شہنشاہ جذبات سے ملاقات اور شکیل بدایونی اور ساحر لدھیانوی کے ہاتھوں توصیفی سند ملنے کا ذکر بڑے چاؤ سے کرتے ہیں۔
واجہ محلہ، بھیونڈی کی معروف شخصیت، تعلیمی اور سماجی کارکن اعجاز احمد مومن ( اعجاز جناب) کی پیدائش ۱۲؍فروری ۱۹۴۵ء کو ہوئی۔ پہلی سے چوتھی جماعت کی تعلیم ہندوستانی مسجد کی بیرونی عمارت میں چلنے والے پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ پانچویں، چھٹی اور ساتویں جماعت منڈئی پر واقع پتھروالی اسکول میں پڑھی۔ آٹھویں تا گیارہویں (اس دور میں گیارہویں جماعت میں میٹرک ہواکرتی تھی)کی پڑھائی رئیس ہائی اسکول سے مکمل کی۔ سابق ریاستی وزیروقار غلام محمد مومن اورڈاکٹر ذاکر دھانگے کے علاوہ شہر کی کئی اہم شخصیات ان کی ہم جماعت رہیں ۔ مالی دشواری سے مزید پڑھائی نہ کرسکے اور تھانے روڈ پر جنتا سائزنگ میں وہ بطور سائزر ڈیڑھ سو روپیہ ماہانہ پر ملازمت اختیارکرلی۔ یہاں ۴۔ ۳؍ سال ملازمت کرنے کے بعد۱۹۶۶ء میں بھیونڈی کی معروف سماجی اور تعلیمی شخصیات، مرتضیٰ فقیہ اور غلام محمد مومن کی مساعی سے رئیس ہائی اسکول میں بحیثیت مدرس تقرری ہو ئی۔ یہاں تدریسی خدمات نبھاتے ہوئے انہوں نے سیکنڈری ٹیچر سرٹیفکیٹ کاکورس مکمل کیا اور ۳۷؍سالہ تدریسی خدمات کےبعد ۲۰۰۳ءمیں سبکدوش ہوئے۔
سبکدوشی کے بعد شعروادب کاشوق پیداہوا۔ ایک نعت سے اس کی ابتداء کی۔ انہوں نے اپنا تخلص اعجاز رکھا۔ طالب علمی کے زمانے سے انہیں فلمی گیت اور غزلیں گانےکا بھی شوق تھا۔ مختلف شعرا ءکے کلام انہیں مخصوص ترنم کے ساتھ یاد ہیں۔ دلکش اورخوبصورت آواز کی وجہ سے شہر و بیرون شہر جہاں بھی نظم خوانی کا مقابلہ ہوتا، اسکول کی نمائندگی کرتے اور اکثر اول انعام پاتے۔
بتاتے ہیں کہ۱۹۵۸ءمیں روزنامہ انقلاب نے بزم اطفال کی نگرانی میں رئیس ہائی اسکول میں نظم خوانی کا مقابلہ منعقد کیا تھا۔ اس تقریب میں معروف شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی اور ساحر لدھیانوی بھی شریک تھے۔ اس موقع پر اعجاز جناب نےبہادر شاہ ظفر کی مقبول غزل ’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں ‘پڑھی تھی۔ جس پر انہیں اول انعام کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔ شکیل بدایونی اور ساحر لدھیانوی نے انہیں توصیفی سند سے نوازا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:پچاس سال پہلے شادی کے موقعوں پرمتعلقہ ذمہ داریاں اراکین میں تقسیم کردی جاتی تھیں
اعجاز جناب کو فلموں بالخصوص گلوکاری سے خاص شغف تھا۔ فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگانے کی کوشش میں ایک دن ممبئی کے پالی ہل پہنچ گئے۔ یہاں ٹہلتے ہوئے شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کے بنگلے پر جا پہنچے۔ ان کے بنگلے کو بڑی حسرت اور شوق سے دیکھ ہی رہےتھے کہ دلیپ کمار کے بھائی احسن خان، چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان سے سلام کلام ہوا۔ احسن خان دل کےمرض میں مبتلا تھے۔ دوران گفتگو انہوں نے دل کے موضوع پر ایک شعر سنایا، اعجاز جناب نے اسی عنوان پر کئی اشعار سنادیئے۔ جس کی وجہ سے احسن خان بہت متاثرہوئے، کہا آئیں چائے پی کر جائیں۔ چائے کا دور ابھی چل ہی رہا تھا کہ دلیپ کمار بھی تشریف لے آئے۔ اعجاز جناب کیلئے یہ یادگار لمحہ تھا۔ ایسا معروف اداکار جس کی شہرت اور مقبولیت کا کوئی ثانی نہیں تھا، جس کے کروڑوں پرستار تھے۔ وہ بہ نفس نفیس ان کے روبرو تھا۔ احسن خان نے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ بھیونڈی سے آئے ہیں، رئیس ہائی اسکول کے معلم ہیں۔ بڑے تپاک سے دلیپ کمار نےاعجاز جناب سے مصافحہ کیا۔ یہ ۱۹۷۰ء کادور تھا۔ بھیونڈی فساد کو چند مہینے ہی گزرے تھے۔ دلیپ کمار نے بھیونڈی فساد کے تعلق سے گفتگو کی اور فکر مندی کا اظہار کیا۔ دوران فساد ملت کے جانی و مالی نقصانات، ریلیف اور راحت رسانی کی تفصیل دریافت کی۔ ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ دلیپ صاحب حالات حاضرہ سے نہ صرف پوری طرح باخبر رہتے تھے بلکہ ان کے دل میں قوم کا درد بھی تھا۔
بھیونڈی میں ۱۹۷۰ءمیں ہونےوالا فرقہ وارانہ فساد، ایوب مٹھائی والا کی دکان کےقریب سے شروع ہواتھا۔ اس وقت اعجاز جناب، وہیں کھڑے تھے۔ انہوں نےاپنے کانو ں سے مسلمانوں کے خلاف لگائے جانے والے دل آزار نعرے سنے تھے۔ فساد شروع ہونے کے دو تین روز بعد پولیس نے بھیونڈی نظام پور میونسپل کے صدر بلدیہ شبیر احمد راہی کو تھانے روڈ کے ان کے گھر سے گرفتار کرلیاتھا۔ اس وقت اعجازجناب اپنے گھر کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہا تھے۔ پولیس شبیر احمد راہی کو مارتے ہوئے لے جارہی تھی جبکہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں بلدیہ کا صدر ہوں۔ اس کے باوجود پولیس کا رویہ تبدیل نہیں ہوا۔ فسادپر قابو کےبعد گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کی وجہ سےبالخصوص نوجوان اپنا گھر چھوڑ کر محلہ تبدیل کرنے پر مجبورتھے۔ اعجازجناب بھی تھانے روڈکا اپنا مکان چھوڑ کر اسلام پورہ اپنی خالہ کے گھر رہنے لگے تھے۔ بیشتر نوجوانوں کا یہی حال تھا۔ عصبیت کی شکار پولیس نے بے شمار گرفتاریاں کیں۔ حکومت نے فساد کی انکوائری کیلئے جسٹس مدن کمیشن تشکیل دیا۔ اس وقت غلام محمدمومن اور عبدالرحیم قریشی(حیدر آباد) کےعلاوہ شہر کے سرکردہ افراد نے مل کر بے گناہوں کو آزاد کرانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں ۔
اعجازجناب جب میٹرک میں زیرتعلیم تھے۔ اس سال بھیونڈی کے کامرس کے اسٹوڈنٹ کاپہلابیچ امتحان دینے والاتھا۔ بھیونڈی میں سینٹر کا انتظام نہیں ہوسکاتھا۔ ان طلبہ کا سینٹر چرچ گیٹ کےسڈنہم کالج میں لگا تھا۔ غلام محمدمومن نےان طلبہ کے قیام کاانتظام بیلاسس روڈ، الیگزینڈرا سنیما کے سامنے واقع مسافرخانہ میں کرایاتھا۔ اعجاز جناب اور دیگر طلبہ نے یہاں ۸؍دنو ں تک مفت قیام کرکے امتحان دیاتھا۔
اس زمانے میں رئیس ہائی اسکول کے سالانہ مشاعرے کی دھوم دور دور تک تھی۔ ایڈوکیٹ یٰسین مومن اس کے کنوینرہوا کرتے تھے۔ وہ معروف شعراء کو بھیونڈی کی سرزمین پر مدعو کرتے تھے۔ اسی مشاعر ے میں ایک مرتبہ دلیپ کمار کے بھائی احسن خان اور کنور مہندر سنگھ بیدی آئےتھے۔ اس وقت احسن خان نے یہاں کے لوگوں سےدریافت کیاکہ اعجاز جناب کہاں رہتےہیں ؟مجھے ان سے ملنے ان کے گھر جانا ہے۔ آج واجہ محلہ تھانے روڈ پر جہاں توحید جویلرس اس کے سامنے ایک چال ہوا کرتی تھی اس کے ایک چھوٹے سے کمرے میں اعجاز جناب رہتے تھے۔ احسن خان ان کے چھوٹے سے گھر پہنچے تو پورے محلے میں ہلچل مچ گئی۔ احسن خان چونکہ دلیپ کمار سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے تھے اس لئے لوگوں نے انہیں دلیپ کمار سمجھ لیا۔ محلے کی خواتین اور مرداعجاز جناب کےگھر کے قریب جمع ہوگئے۔ ان کے کہنےپر احسن خان نے ان لوگوں سے ملاقات کی۔ کچھ دیر ا ن کے ساتھ رہے اور پھر مشاعرہ گاہ چلے گئے۔
اعجاز جناب نےتھانے روڈ پر واقع نشاط لائبریری میں بھی چند برس تک بلامعاوضہ لائبریرین کےفرائض انجام دیئے۔ اس وقت نشاط لائبریری میں کافی کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ ان کتابوں کا مطالعہ کرنے کیلئے اچھی خاصی تعداد وہاں پہنچا کرتی تھی۔ کتابوں کا کرایہ ایک آنا یا ۲؍آنا ہوا کرتا تھا۔ ابن صفی کی جاسوسی ناولوں کی خوب دھوم ہوا کرتی تھی۔ لوگوں کوان کے نئے ناولوں کا شدت سے انتظار ہوتا تھا۔ اس دور میں وقت گزاری اور تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ کتابیں ہی ہوا کرتی تھیں۔