۷۸؍ سالہ ریٹائرڈ معلمہ دادر میں والدین کےساتھ اپنے قیام کے اس دور کو بھی نہیں بھول پاتیں جب آپس میں اتنی محبتیں تھیں کہ والد نے ملازمت کی مخالفت کی تو پڑوس کے پنڈت ماما نے ساتھ دیا اور ملازمت کے پہلے دن انہیں سیوڑی کے اسکول تک پہنچایا
EPAPER
Updated: January 19, 2025, 8:10 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
۷۸؍ سالہ ریٹائرڈ معلمہ دادر میں والدین کےساتھ اپنے قیام کے اس دور کو بھی نہیں بھول پاتیں جب آپس میں اتنی محبتیں تھیں کہ والد نے ملازمت کی مخالفت کی تو پڑوس کے پنڈت ماما نے ساتھ دیا اور ملازمت کے پہلے دن انہیں سیوڑی کے اسکول تک پہنچایا
ایل آئی جی کالونی، کرلا میں مقیم شیخ زیب النساء حمزہ کی پیدائش دادر اسٹیشن (مشرق )کےقریب واقع مِٹھ والی چال میں ۱۹۴۶ءمیں ہوئی۔ دادر میونسپل اُردو اسکول میں ساتویں جماعت تک تعلیم کےبعد آر سی ماہم نائٹ اسکول سے پرائمری ٹیچر سرٹیفکیٹ ( پی ٹی سی )کا کورس کیا اور معلم کی سند حاصل کی۔ انہیں ۱۲؍اگست ۱۹۶۲ءکو سیوڑی میونسپل اُردو اسکول میں معلمہ کی ملازمت مل گئی۔ یہاں ۴۔ ۵؍سال تدریسی خدمات پیش کرنے کے بعد کرلا منتقل ہوگئیں جہاں ۲۰؍سال تک سروس کی اور بحیثیت ڈپٹی ہیڈ مسٹریس چیتا کیمپ میونسپل اُردو اسکول نمبر ۲؍میں منتقل ہوئیں۔ یہاں سے ہیڈمسٹریس بن کر شیواجی نگرمیونسپل اسکول میں ۶؍ سال ملازمت کی اور ۲۰۰۰ء میں یہیں سے سبکدوش ہوئیں۔ ان کی تدریسی زندگی ۳۸؍ برسوں پر محیط رہی۔
یہ بھی پڑھئے: ’’کوئی بچہ اگر۱۰؍ روپے لیکر دکان چلا جاتا تو دکانداراُسے سامان نہیں دیتا تھا‘‘
ان کے خاوند شیخ حمزہ مہانگرٹیلی فون نگم لمیٹیڈ میں ملازم تھے۔ ۵؍بیٹیاں ہیں ۔ جو اپنے اپنےگھروں کی ہیں۔ چونکہ کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے اس لئے ۲۰۱۰ءمیں خاوند کے فوت ہوجانےکے بعد سے وہ گھر میں تنہا رہتی ہیں۔ ریٹائرڈ ہونےکےبعد امورِ خانہ داری سے وابستہ رہیں اورآج بھی ۷۸؍ سال کی عمر میں اپنے لئے کھانا خود پکاتی ہیں ۔ کڑھائی بُنائی کا شوق بھی برقرار ہے۔ ضروری گھریلو کام کاج، نماز اور تلاوت وغیرہ سے فارغ ہوکر روزانہ کڑھائی کرتی ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے کڑھائی والے رومال ان کےخاندان اورمتعلقین میں مقبو ل ہیں۔
۳۸؍سالہ تدریسی خدمات کے دوران پیش آنے والے ۲؍ واقعات زیب النساء کواب بھی یاد ہیں۔ جب وہ چیتاکیمپ میونسپل اُردو اسکول میں پڑھاتی تھیں تو وہاں ۷؍ ویں جماعت کے ایک طالب علم کی بدزبانی سے برہم ہوکر انہوں نے اس کی پیٹھ پر بڑی زور سے مارا تھا، جس کی وجہ سے وہ لڑکا بے ہوش ہوگیاتھا۔ اس کے بےہوش ہونےپر اسکول کی ہیڈمسٹریس اور دیگر ساتھی ٹیچروں نے زیب النساء سے کہاتھاکہ یہ تم نے کیاکردیا، اب اس کے گھر والے آئیں گے، لڑائی جھگڑا کریں گے، ہم اس معاملہ میں کچھ نہیں بولیں گے، تم ہی نمٹنا، جس پر زیب النسا ءنے کہاکہ آپ لوگ پریشان نہ ہوں ، کچھ نہیں ہوگا، جوہوگا میں حل کرلوں گی۔ کچھ دیرمیں طالب علم ہوش میں آگیا۔ اس نے والدین کو شاید اس بارےمیں کچھ نہیں بتایاتھا، اس لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔
اسی طرح چیتاکیمپ کے ہی اپنے ایک طالب علم قاسم کی فرمانبرداری، اطاعت شعاری اور تعلیم کے دوران سخت محنت کی وہ آج بھی مثال دیتی ہیں۔ وہ صبح ۷؍ بجےاسکول آتا، ۹؍بجکر ۴۰؍ منٹ پر وقفہ ہوتا تھا۔ اکثر وقفہ ختم ہونےکےبعدبھی وہ کلاس میں نہیں آتاتھا۔ تاخیر سے آنے کی وجہ پوچھنے پر قاسم نے ایک مرتبہ زیب النساء کو بتایاکہ گھر میں والدہ کےعلاوہ کوئی نہیں ہے، اس لئے گھریلو ضروریات پوری کرنےکیلئے وہ وقفہ کے دوران کچھ گھروں میں ہنڈے سے پانی بھرکر پہنچا تا ہے۔ علاوہ ازیں اسکول کے بعد شام کو کرلا، پائپ روڈ پر خوانچہ لگا کر بنیان وغیرہ فروخت کرتاہے۔ ان کامو ں سے کچھ پیسے مل جاتے ہیں، جس سے گھریلو ضروریات پوری کرنےمیں آسانی ہوتی ہے۔ ان کاموں کو کرنےکےعلاوہ وہ پڑھائی میں بہت ہشیارتھا۔ آج بھی قاسم جب کبھی زیب النساء کو ملتا ہے تو انہیں بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اب وہ ایک کامیاب کاروباری ہے۔ نریمن پوائنٹ پر اس کاآفس ہے۔ اس کی کامیابی اورترقی دیکھ کر زیب النساء فخر محسوس کرتی ہیں۔
زیب النساء جس زمانےمیں دادر میں رہائش پزیر تھیں، بر ادرانِ وطن ہمسایوں سے ان کے خاندان کے قریبی اور اچھے مراسم تھے۔ ان کے گھر کے سامنے پنڈت ماما رہتے تھے۔ جن کے گھرسے بڑے قریبی تعلقات تھے۔ زیب النساء کو جب ملازمت مل گئی تو ان کے والد اس سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا تھاکہ میں اس معاملہ میں کسی طرح کا تعاون نہیں کروں گا۔ اس لئے جس روز، زیب النساء کو سیوڑی میونسپل اُردو اسکول میں ڈیوٹی جوائن کرنی تھی، یعنی جو ان کی ملازمت کا پہلا دن تھا، ا س دن ان کے والدنے ان کے ساتھ سیوڑی تک جانے سے صاف منع کردیا۔ ایسے میں پنڈت مامانے زیب النساءکو سیوڑی اسکول تک پہنچایاتھا۔ اسی طرح پنڈت ماما کی ایک بیٹی کو زیب النساء کی والدہ نے بھاگ دوڑکرکے بی ایم سی میں ملازمت دلائی تھی۔ ان کے تعلقات اب بھی برقرار ہیں۔ زیب النساء یاد کرتی ہیں کہ جب والدہ بیمار پڑ جاتیں تو پنڈت ماماکی اہلیہ اپنے گھر کےعلاوہ اُن کے گھر کے کام بھی کردیا کرتی تھیں۔
زیب النساء نے خاوند شیخ حمزہ کےساتھ ۱۹۹۸ءمیں حج کیا۔ طواف کےبعد ان کےشوہرکو کہیں جاناتھا۔ وہ زیب النساء کو تاکیدکرکے گئے کہ اس جگہ سےکہیں نہیں جانا، یہ کہہ کروہ چلے گئے، کافی دیر گزر جانے کے بعدبھی نہیں آئے تو تشویش ہونے سے زیب النساءانہیں تلاش کرنے کیلئے نکل پڑیں۔ حرم شریف کے ۹۸؍ دروازوں سے گزر کر انہیں تلاش کرنےکی کوشش کی لیکن وہ نہیں ملے۔ اس تگ ودو میں ۴۔ ۵؍گھنٹے گزرگئے۔ وہ پریشان ہوگئیں، تھک ہار کر جہاں قیام تھا، وہاں پہنچیں، دیکھا وہ وہاں موجود تھے اور زیب النساءکیلئے بیٹھے رو رہے تھے۔ پتہ چلاکہ وہ خود راستہ بھٹک گئے تھے۔ زیب النساء یاد کرتی ہیں کہ وہ ۴؍گھنٹہ کا وقفہ بہت گراں گزرا تھا۔
شیخ زیب النساء جب آر سی ماہم اسکول سے پی ٹی سی کاکورس کررہی تھیں۔ اس دوران وہ اسکولی ساتھیوں کے ساتھ دادر سے ماہم لوکل ٹرین سے سفرکرتی تھیں۔ سفر کے دوران اسکول کے ایک ٹیچربھی اکثر مل جاتے۔ اس دورمیں اسٹیشن پر موجود ٹی سی کیلئےیونیفارم کےساتھ کیپ پہننا لازمی تھا۔ زیب النساء اپنے گروپ کی شرارتی لڑکی ہوا کرتی تھیں۔ راستےمیں بھی شرارت کرتیں۔ ایک دن ماہم اسٹیشن پر مذکورہ ٹیچر نے لڑکیوں کے اس گروپ سے کہاکہ جوٹی سی کی کیپ گرائے گا، اسے آئسکریم ملے گی۔ اس پر زیب النساء نےکہا، سر میں کیپ گرادوں گی لیکن آپ آئسکریم پورے گروپ کوکھلائیں۔ سر راضی ہوگئے۔ دوسرے دن زیب النساء ماہم اسٹیشن پر گروپ کے ساتھ چلتےہوئے بڑی مہارت سے ٹی سی کی کیپ گراکرآگے بڑھ گئیں۔ ٹی سی نے معاملہ کی شکایت آر سی ماہم اسکول کے پرنسپل امین کھنڈوانی سے کی۔ دوسرے دن اسکول کی چھٹی ہونے پر رات ۱۰؍ بجے امین کھنڈوانی معاملہ کی تحقیق کیلئےلڑکیوں کے اس گروپ کے پیچھے، ماہم اسٹیشن کیلئے نکل پڑے۔ زیب النساء نے انہیں پیچھاکرتے دیکھ کراپنی ساتھیوں سے کہا : بڑے سر آرہےہیں ، موم بتی کی طرح سیدھے چلو۔ امین کھنڈوانی اسٹیشن پہنچے، لڑکیوں کے گروپ کو ٹی سی کے سامنے پیش کیا، ٹی سی نے زیب النساء کی طرف اشارہ کیا، جس پر امین کھنڈوانی کہاکہ یہ لڑکی اس طرح کی حرکت نہیں کرسکتی ہے۔ بڑےقاعدہ سے اسکول آتی جاتی ہے۔ یہ کہہ کرانہوں نے بات ختم کروادی۔