نوی ممبئی کے ۸۲؍سالہ حسن شاہ پٹیل کی زندگی مختلف نشیب وفراز سے گزری ہے،۱۴؍سال کی عمر میں ممبئی آئے، ۲؍سال تک چھوٹے موٹے کام کرنے کے بعد بی ایم سی کے پیسٹ کنٹرول ڈپارٹمنٹ میں ملازمت مل گئی، جہاں ۳۱؍ سال تک وابستہ رہے۔
EPAPER
Updated: September 02, 2024, 5:11 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
نوی ممبئی کے ۸۲؍سالہ حسن شاہ پٹیل کی زندگی مختلف نشیب وفراز سے گزری ہے،۱۴؍سال کی عمر میں ممبئی آئے، ۲؍سال تک چھوٹے موٹے کام کرنے کے بعد بی ایم سی کے پیسٹ کنٹرول ڈپارٹمنٹ میں ملازمت مل گئی، جہاں ۳۱؍ سال تک وابستہ رہے۔
تلوجہ کےسماجی کارکن مصدر مُلاّ نے گزشتہ دنوں فون پر بتایا کہ نوی ممبئی کے ایک پروگرام میں وہاں کے ایک بزرگ کی تقریر سننے کے دوران خیال کہ گوشہ ٔ بزرگاں کالم میں انہیں بھی جگہ ملنی چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ پروگرام کے اختتام پر میں نے اُن سے ملاقات کرکے ان کا موبائل نمبر لے لیا ہے جو آپ کو بھیج رہا ہوں۔ نمبر ملنے کے بعد کالم نویس نے ان سے فون پر رابطہ کیا۔ پہلی گفتگو مختصر مگر بہت دلچسپ رہی۔ اتوار ۲۵؍ اگست کو سی ووڈ (نوی ممبئی )میں ملاقات کا وقت طےپایا۔ وقت مقررہ پر وہاں پہنچا اورتقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ان سےگفتگو ہوتی رہی۔ بات چیت کے دوران ۸۲؍ سالہ حسن شاہ ابرہیم شاہ پٹیل عرف مولانا نے بڑی حیرت انگیز یادوں سے واقف کرایا۔
ضلع سندھو درگ، تعلقہ کنکولی، ہرکل بدرُک میں ۱۹۴۳ء میں پیدا ہونے والے حسن شاہ پٹیل نے مقامی ضلع پریشد اُردو اسکول سے چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ گھر کے معاشی حالات اچھے نہیں تھے، اسلئے ۱۹۶۰ء میں ۱۴؍ سال کی عمر میں ذریعہ معاش کی تلاش میں ممبئی آگئے تھے۔ یہاں ان کی جان پہچان کا کوئی نہیں تھا۔ گھر سے ایک بنیان، کرتا اور پائجامہ پہن کر آئے تھے۔ بھنڈی بازار، نواب ایاز مسجد کے قریب واقع تمباکو کی دکان کے قریب پناہ لی تھی۔ چھوٹا اور معمولی کام کر کے گزر اوقات کا سامان کیا تھا۔ قیام اور طعام کا معقول انتظام نہ ہونے سے دقتوں کاسامنا رہا۔ دن بھر کام کی تلاش میں ادھر اُدھر بھٹکنے کے بعد رات کو بھنڈی بازار کی فٹ پاتھ پر سو جاتے تھے۔ اس دوران ۳۔ ۲؍ دنوں کے وقفے پر پائیدھونی کے پیائو، جہاں گھوڑوں کے پینے کےپانی کا انتظام تھا، وہاں جاکر نہالیا کرتے تھے۔ چونکہ ایک جوڑا ہی کرتاپاجامہ تھا، اسلئے بنیان کو لنگوٹ کی طرح استعمال کرکے کرتاپاجامہ دھوتے تھے۔ بعدازیں نہا کر گیلا کرتا پاجامہ پہن کر سو جاتے تھے۔ ۲؍ سال کا عرصہ کچھ اسی طرح کے حالات میں گزرا۔ اس کے بعد انہیں کسی طرح بی ایم سی کے پیسٹ کنٹرول ڈپارٹمنٹ میں ملازمت مل گئی جس کے بعد ان کی زندگی میں کچھ بہتری آئی۔ ۳۱؍ سال تک ملازمت سے منسلک رہے۔ یہاں سے سبکدوش ہونے کےبعد دینی اور فلاحی سرگرمیوں سے وابستہ ہوئے۔ ان سرگرمیوں میں اب بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:’’اوشیوارہ سے جوگیشوری اسٹیشن جانے کیلئےبیل گاڑی کا استعمال کیاجاتاتھا‘‘
گوونڈی میں قیام کے دوران ۱۹۸۴ء میں ہونےوالے فرقہ وارانہ فساد کو مولانا نے بڑے قریب سے دیکھا تھا۔ اس موقع پر ایک شرپسندلیڈر نے حضورؐکی شان میں گستاخی کی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں میں بڑی بے چینی تھی۔ مسلمانوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے مسلمانوں ہی پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے تھے۔ فساد کا زور بڑھا تو ریاست کی کانگریس حکومت نے فوج طلب کرلی تھی۔ گوونڈی کے متاثرہ علاقوں میں فوج کی گشت کو بھی مولانا نے دیکھا تھا اورفوج کے ساتھ متاثرہ علاقوں کی نشاندہی بھی کرانے کی ذمہ داری ادا کی تھی۔
مولانا کی عمر ۵؍سال رہی ہوگی۔ اسی دوران مہاتماگاندھی نے ہرکل بدرُک کا دورہ کیا تھا۔ پورے گائوں میں باپو کے آنے کی گہماگہمی تھی۔ سب بچے باپو آئے، باپوآئے کا نعرہ لگا رہےتھے۔ گاندھی نے یہاں کے دلتوں کی بستی میں جاکر ان کے ساتھ کافی وقت گزارا تھا۔ انہیں سمجھایا تھاکہ ذات پات کچھ نہیں ہے۔ آپس میں چھوت چھات نہیں ہونا چاہئے۔ ہم سب ایک ہیں، کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے۔ ہمیں متحد ہوکر ملک کی کامیابی اور ترقی کیلئے کام کرنا چاہئے۔ دلتوں سے بات چیت کرنے کے بعد ان کے گھر کا پانی بھی پیا تھا۔ اسی دور ے کےبعد مولانانے اپنے اسکول میں ہونے والے ایک ڈرامے میں گاندھی جی کا رول ادا کیا تھا جس کی بڑی ستائش کی گئی تھی۔
۷۰ء کی دہائی میں ممبئی میں چیچک کی بیماری پھیلی تھی۔ بیماری کے تعلق سے لوگوں میں کافی خوف اور ڈر پھیلا ہوا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کےقریب نہیں جاتے تھےحتیٰ کہ گھر کے افراد بھی ایک دوسرے سے ملنے میں پرہیز کررہے تھے۔ مولانا کی ایک چچی بھی چیچک سے متاثر تھیں۔ ان کے قریب گھر کا کوئی بندہ نہیں جاتا تھا، جس کی وجہ سے ان کے علاج میں دِقت پیش آ رہی تھی۔ ا ُس وقت مولانا نے چچی کے علاج میں اہم رول ادا کیا تھا۔ انہیں اپنے ہاتھوں سے بستر سے اُٹھانے، ان کےجسم پر دوا لگانےاور انہیں کھانا کھلانے کی ذمہ داری ادا کی تھی۔ ان کی تیمارداری میں کسی طرح کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ روبہ صحت ہونے پرچچی نے مولانا کو بڑی دعائوں سے نوازا تھا۔
شادی کے بعد مولانا ایک مرتبہ ممبئی سے ہرکل گئے تھے۔ صحن میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک گھر میں افراتفری مچ گئی۔ گھر والے ’سانپ آیا، سانپ آیا‘ کہہ کر چلانے لگے۔ مولانا نے نماز توڑ کر فوراً قریب میں پڑا ایک ڈنڈا اُٹھایا اورسیدھے زوردار حملہ سانپ کے منہ پر کیا۔ ڈنڈے کے ایک مضبوط حملے سے سانپ ادھ مرا ہوگیا تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی حملے کرکے سانپ کو جگہ پر ہی ہلاک کر دیا۔ سانپ کو مارنے کےبعد اسے اپنے ہاتھوں سے جنگل میں لے جاکر ٹھکانے لگانےکی بھی ذمہ داری بھی انہوں نے ادا کی تھی۔
ہرکل سے ممبئی آنے پر ابتدائی دنوں میں مولانانے متعدد قسم کے الگ الگ نوعیت کے کام کئے تھے۔ اس دوران انہیں ممبئی ہائی کورٹ کےجج رحمت اللہ کے گھر پر گھریلو کام کی ملازمت مل گئی تھی۔ وہ بھنڈی بازار سے چوپاٹی ان کی رہائش گاہ بس سے جایا کرتےتھے۔ بس سے اُترنے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک مرتبہ چلتی بس سے دیگر مسافروں کو اُترتا دیکھ کر خود بھی اُترنے کی کوشش میں گرپڑے تھے۔ سر پرشدید چوٹ لگی تھی لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائےگھریلو نسخہ اپنایاتھا۔ اپنے پاجامہ کے کپڑے کا ایک حصہ کاٹ کر اسے جلایا تھا اور اس کی راکھ کو سر کے زخم میں بھر کر اپنا علاج خود ہی کیا تھا۔ وہ دن انہیں آج بھی یاد ہے۔
مولانا نے فلم اداکار دلیپ کمار، راج کپور، راجندرکمار، محمود اور جانی واکر وغیرہ کو مہالکشمی ریس کورس میدان میں کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہاں کرکٹ میچ کسی خاص مقصد کےتحت منعقد کیا گیا تھا۔ فلمی ستاروں کو دیکھنے کیلئے بڑا مجمع اکٹھا تھا۔ اسی بھیڑ کاحصہ بن کر مولانا نے بھی ان تمام اداکاروں کو دیکھا تھا۔ علاوہ ازیں پاکستانی پہلوان اسلم، اکرم اور گوگا وغیرہ کو بھی مدنپورہ میں دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ یہ پہلوان مدنپورہ سے گزر رہے تھے۔ وہ آگے نکل گئے تھے، اسلئے انہوں نے ان کا پیچھا کر کے انہیں دیکھنے کا شرف حاصل کیا تھا۔ اس دوران اکرم پہلوان نے کنگ کانگ نامی معروف پہلوان کو شکست دی تھی جس کی وجہ سے ان کی شہرت بین الاقوامی سطح پر تھی۔
مولانا ۶۵؍ سال کی عمر میں حج بیت اللہ پر اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ گئےتھے۔ وہاں کے ۲؍ واقعات وہ نہیں بھولتے ہیں۔ حرم شریف کے قریب واقع ایک مسجد میں ایک عربی بڑی بےچارگی سے بھیک مانگ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر ان کے ساتھی نے کہا تھاکہ یہاں بھی دھوکے باز قسم کے فقیر، لوگوں کو بے وقوف بناکر پیسے اینٹھتے ہیں۔ فقیر کے وہاں سے چلے جانے پر ان دونوں نے اس کاپیچھا کیا، وہ ایک بڑی دکان پر جاکر ان پیسوں سے کچھ سامان خرید رہا تھا۔ اس کی حرکت دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی تھی۔ اس سال حج پر پوری دنیاسے کافی بڑی تعداد میں عازم اکٹھا ہوئے تھے۔ اسی دوران مولانا اپنے ساتھی سے بچھڑ گئے۔ وہاں پربھیڑ کایہ عالم تھاکہ تل دھرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ ایسے میں دیوانہ وار وہ اپنے ساتھی کو تلاش کر رہے تھے حالانکہ ان کےپاس پرانے قسم کا موبائل فون تھا لیکن ساتھی کا نمبر نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان سے رابطہ نہیں کرپارہے تھے۔ ایک گھنٹہ بعد انہیں ان کا ساتھی ملا تھا لیکن اس دوران اُن پر جو گزری، اسے بیان کرتے ہوئے وہ آج بھی روہانسے ہوجاتے ہیں۔