ضلع ناسک ،ایولہ کے ۷۵؍سالہ جمیل احمد فاروقی نے کامرس سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی کا آغازآبائی کاروبار ’بھنگار‘ سے کیا۔ بعد ازاں ضلع پریشد اسکول سے بطور معلم وابستہ ہوئے اور ۳۳؍ سال تک خدمات پیش کرنے کے بعد سبکدوش ہوئے۔
EPAPER
Updated: May 19, 2024, 4:09 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
ضلع ناسک ،ایولہ کے ۷۵؍سالہ جمیل احمد فاروقی نے کامرس سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی کا آغازآبائی کاروبار ’بھنگار‘ سے کیا۔ بعد ازاں ضلع پریشد اسکول سے بطور معلم وابستہ ہوئے اور ۳۳؍ سال تک خدمات پیش کرنے کے بعد سبکدوش ہوئے۔
مدنپورہ کی معروف سماجی شخصیت شیخ پرویز عبدالرحمان نے سنیچر ۱۱؍مئی کی شب تقریباً ساڑھے ۹؍ بجے فون کرکےحال احوال دریافت کرنے کےبعد کہاکہ میرے چچاخسر ایولہ، ضلع ناسک سے آئےہیں۔ ان کی عمر تقریباً ۷۵؍سال ہے۔ وہ گوشہ ٔ بزرگاں کالم کیلئے اپنے تجربات اورمشاہدات پیش کرناچاہتےہیں۔ اتوار ۱۲؍مئی کی صبح ۱۱؍ بجے ملاقات کا وقت طےپایا۔ مقررہ وقت پر کالم نگار شیخ پرویز کی رہائش گاہ پہنچ گیا۔ انہوں نےاپنے چچا خسرجمیل احمد عارف اللہ فاروقی سے کالم نگار کا تعارف کرایا۔ رسمی گفتگو کے بعد جمیل فاروقی سے تقریباً ایک گھنٹے تک سیر حاصل گفتگو ہوئی جس میں انہوں نے انتہائی دلچسپ اور معلوماتی باتیں بتائیں۔
جمیل احمد فاروقی یکم جون ۱۹۴۹ءکوایولہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ایولہ کی ضلع پریشد اُردو اسکول سے انہوں نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ بعدازیں اُردومیڈیم اسکول نہ ہونے سے مراٹھی میڈیم ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ اُردو کے بعد اچانک مراٹھی میڈیم سے پڑھائی کرنے میں تقریباً ۸۔ ۹؍ مہینے بڑی پریشانی ہوئی لیکن ۸؍ویں سے نویں جماعت میں جاتے ہی سب کچھ معمول پر آگیا۔ ان کی مراٹھی کی رائٹنگ اتنی خوش خط تھی کہ ان کے استاد، کلاس میں ان کی بیاض ہاتھ میں اُٹھا کر دیگر طلبہ کو دکھاتےہوئے کہتے تھے کہ ’ہامسلما ن آہے، تیانچی بھاشا مراٹھی ناہی، تیانچی رائٹنگ پاہا‘۔
یہاں سے ایس ایس سی پاس کرنےکےبعد ایولہ سے ۱۸؍کلومیٹر کی دوری پر واقع کوپر گائوں کےسنجیونی کالج میں داخلہ لیا۔ یہاں کامرس فیکلٹی سے پڑھائی کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود عملی زندگی کا آغاز اپنے آبائی کارو بار ’بھنگار‘ سے کیا۔ ۱۹۷۲ءکے تباہ کن قحط سے بیشتر لوگوں کا کاروبار ختم ہوگیاتھا۔ مالی دشواریوں کی وجہ سے لوگ بھکمری کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ ان کاآبائی کاروباربھی قحط سالی کا شکارہوگیاتھا۔ شاید قدرت کو ان سے تعلیم ہی کا کچھ کام لینا تھا۔ بہرحال حالات معمول پر آئے تو تلاش روزگار میں کچھ دن مصروف رہے۔ اس کےبعد اُردوضلع پریشد اسکول میں بحیثیت معلم روزگار کاموقع ملا۔ ۳۳؍سال تک معلمی کے پیشہ سے وابستہ رہے۔ ۲۰۰۷ءمیں سبکدوش ہوئے۔ اس وقت سے سماجی اور دینی سرگرمیوں سے منسلک ہیں۔ عازمین حج کی رہنمائی اورانہیں ارکان حج سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری ادا کر رہےہیں۔
یہ بھی پڑھئے: کرلا قصائی واڑہ میں ایک آدمی تھا جو تین چار دنوں تک مسلسل سائیکل چلاتا تھا
جمیل فاروقی کا خانوادہ ۱۸۵۷ء کے غدر کے دور میں اُترپردیش، ضلع اعظم گڑھ کے مئو سے ایولہ منتقل ہوا تھا۔ غدر کی وجہ سے ملک بھر میں افراتفری تھی۔ قتل و غارت گری اور بے روزگاری کے سبب لوگ پریشان ہوکر ایک سے دوسری جگہ ہجرت کر رہے تھے۔ اُن دنوں دہلی اور اس سےمتصل کئی اضلاع اُجڑ گئے تھے۔ ایسے میں ان اضلاع کے لوگ ہجرت کرکے دیگر اضلاع میں منتقل ہورہےتھے۔ آمدورفت کے محدود ذرائع کی وجہ سے لوگ پیدل ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ کوچ کر رہے تھے۔ غدر کی افراتفری میں جمیل فاروقی کے پردادا، میاں جی دانیال، اپنے اکلوتے بیٹے اور جمیل فاروقی کے دادا، جن کی اُس وقت ۱۱؍سال عمر تھی، کو پیدل ہی لے کر ایولہ آگئے تھے۔ دادامیاں جی نے ایولہ کے مومن پورہ میں قیام کیاتھا۔ آج بھی ان کاخانوادہ اسی مقام پرآباد ہے۔
۱۸۵۷ء کے غدر متاثرین کی ایولہ منتقلی پر یہاں پہلے سےقیام پزیر مسلمانوں میں بے چینی پھیلنے لگی تھی۔ اس وجہ سے انہوں نےہجرت کر کے آنےوالے مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتنا شروع کیا۔ یہاں کے مقامی مسلمانوں کو دکنی اور بیرونی علاقوں سےہجرت کرکےآنےوالوں کو بنارسی کانام دیاگیاتھا۔ دکنی اور بنارسی کاتنازع اس قدر بڑھاکہ دکنی، بنارسیوں کو یہاں جگہ خریدنے ہی نہیں دیتے تھے، حتیٰ کہ اپنی مساجدمیں بھی بنارسیوں کو جانےسے روکتےتھے۔ بنارسیوں کے ساتھ کئے جانے والے سوتیلے سلوک سے دادامیاں دانیال اور دیگر بنارسیوں میں مایوسی آرہی تھی۔ ایسےمیں ان لوگوں نے فنڈاکٹھاکرکے گائوں کے باہر ایک جگہ خریدی اور وہاں پر ایک مسجد تعمیر کی تھی جسے ’باہر کی مسجد‘ کانام دیا گیا۔ آج بھی یہ مسجد ناگڑ دروازہ پر واقع ہے۔ اب اسے ہندوستانی مسجد کے نام سے بھی جاناجاتاہے۔ ایک طویل عرصے تک ایولہ میں آکر بسنے والے بنارسیوں کو دکنی لوگ اپنی جگہ فروخت نہیں کرتےتھے۔ ’اپنوں ‘ سے مایوس بنارسیوں نے اس کا دوسراحل نکالا۔ ایولہ میں آباد سادھوؤں اور سکھوں سے بنارسیوں نے مراسم استوار کئے۔ بعد میں ان لوگوں نے انہیں اپنی جگہیں دیں۔ حالات کچھ بہتر ہوئے تو دادامیاں نے بنارسیوں کیلئے یہاں ایک قبرستان بھی قائم کیاتھا۔
ایولہ میں پگڑی اور بیڑی کی بڑی صنعت تھی۔ گھروں میں عموماً عورتیں بیڑی بنایاکرتی تھیں۔ دن بھر بیڑی بناکر گھر کی کفالت میں ہاتھ بٹاتی تھیں۔ اسی طرح سے ایولہ کےمسلمان مرد حضرات پگڑی بنانے کے ماہرکاریگر سمجھے جاتے تھے۔ اصلی اوراعلیٰ قسم کے سوت، زر اور سونے کی پگڑی بنانےمیں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ یہ ۶۰ءاور ۷۰ءکی دہائی کی بات ہے، عام پگڑی ڈیڑھ سے پونے ۲؍ورپے میں تیار ہوتی تھی جسے تیار کرکے لوگ بازار میں شام کو فروخت کرنے جاتے تھے۔ اگر کوئی پگڑی ساز کسی دن پونے ۲؍روپے کی پگڑی ڈھائی روپے میں فروخت کر کے گھر لوٹتا تھا تو اس کی چال بدل جاتی تھی۔ وہ سینہ پھلا کر محلےمیں داخل ہوتا تھا۔ محلے کےگھاگھ قسم کے لوگ اس کی چال اور پھلے ہوئے سینےکو دیکھ کر ہی سمجھ جاتے تھےکہ اس بندے نے ایک پگڑی پر ۷۵؍پیسوں کی کمائی کی ہے۔ سونے کے تار کی پگڑی ۱۰؍ سے۱۲؍ روپےمیں تیار ہوتی تھی۔ اس دور میں سونا ۷۰؍ روپے تولہ تھا۔
جمیل فاروقی کے اسکولی زمانے کی بات ہے۔ مالی مشکلات اور غربت کی وجہ سے ایولہ کے بچے تعلیم سے محروم تھے۔ ان کے والدین کے پاس اسکولی سامان مثلاً کتاب، بیاض اوردیگر اشیاء کی خریداری کیلئے پیسے نہیں ہوتے تھے حالانکہ ان دنوں کتابیں ۴۰؍ پیسوں میں اور مٹی کے سلیٹ ۲۵؍پیسوں میں ملتے تھے لیکن کچھ لوگوں کے پاس اتنے بھی پیسوں کی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ اس کی وجہ سے ان کے بچے اسکول نہیں جاپاتے تھے۔ ایسےمیں ممبئی میں مقیم ایولہ کے مکینوں نے یہاں کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کیلئے انجمن امورِ تعلیم کی بنیاد ڈالی تھی۔ جس کے نگراں ایولہ کے ثناء اللہ فاروقی تھےجو ممبئی کے ایک اسکول میں بحیثیت معلم مامورتھے۔ تعلیمی لوازمات کو پورا کرنےکیلئے یہ حضرات اپنی جانب سے مالی مدد کرنےکےعلاوہ تفریحی پروگرام کے ذریعے فنڈ جمع کرکے بچوں کے تعلیمی سامان کا انتظام کرتے تھے۔ اس ادارے سے کم وبیش ۵۰؍سال تک ایولہ کےغریب بچوں کی پڑھائی کاانتظام کیاگیا۔
یہ۱۹۷۲ءکاواقعہ ہے۔ ایولہ کے معروف مرغی والا خانوادہ میں شادی تھی۔ شادی سے قبل ایک تقریب کے دوران ایک روز مہمانوں کیلئے کھوئے کی کھیر بنائی گئی تھی۔ سیکڑوں کا مجمع تھا۔ جمیل فاروقی بھی مدعو تھے۔ ان کے متعلقین نے انہیں زبردستی ۳۔ ۴؍پیالی کھیر کھلادی تھی۔ کھیر کھانے کےکچھ دیر بعد انہیں پیٹ میں تکلیف ہوئی۔ تکلیف بڑھتی گئی۔ بعد ازاں انہیں اسپتال لے جایاگیا۔ طبی تشخیص کے بعد غذائی سمیت کامعاملہ سامنے آیا۔ ان کے علاوہ ۶۰؍ سے ۷۰؍ لوگ کھیر کھانے سے بیمار پڑ گئے تھے۔ جمیل فاروقی کی طبیعت زیادہ خراب تھی۔ ایولہ کے ڈاکٹر بائوڈیکر نے بڑی جدوجہد کرکے ان کی جان بچائی تھی۔
ایولہ میں پینے کے پانی کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ آج بھی یہاں ۱۰؍ سے ۱۵؍دن میں ایک بار پانی آتاہے جس کی وجہ سے لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی بھی یہاں نہیں کرتےہیں۔ لوگ کہتےہیں کہ ہم اپنی بیٹی ایولہ میں نہیں بیاہیں گے کیونکہ یہاں پانی نہیں ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے یہاں کے لوگ جس پانی سے کپڑا دھوتےہیں، کپڑا دھونےسے بچ جانے والےپانی سے برتن بھی دھوتےہیں۔