شادی کے بعد بھیونڈی منتقل ہوجانے والی۷۷؍ سالہ سبکدوش پروفیسر وحیدہ حفیظ الرحمان کہتی ہیں کہ اسی وجہ سے میرا بچپن ہی سے دلیپ کمار کے گھر آناجانا تھا۔عمر کے اس مرحلے پر بھی وہ پوری طرح سے فعال ہیں اور تعلیمی و ادبی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 12:05 PM IST | Mumbai
شادی کے بعد بھیونڈی منتقل ہوجانے والی۷۷؍ سالہ سبکدوش پروفیسر وحیدہ حفیظ الرحمان کہتی ہیں کہ اسی وجہ سے میرا بچپن ہی سے دلیپ کمار کے گھر آناجانا تھا۔عمر کے اس مرحلے پر بھی وہ پوری طرح سے فعال ہیں اور تعلیمی و ادبی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔
بھیونڈی کی وحیدہ حفیظ الرحمان مومن شہر کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ بھیونڈی کے نوجوان ہوں یا بچے ، حتیٰ کہ بزرگ افراد بھی انہیں ’وحیدہ آپا‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ ان کی پیدائش ملک کی آزاد ی کے سال ۱۹۴۷ء میں دیوری، حیدرآباد میں ہوئی تھی۔ ہندوستان کی آزادی کے وقت، حیدرآباد کے ناگفتہ بہ حالات کےسبب بچپن ہی میں والد کے ساتھ ممبئی منتقل ہوگئی تھیں ۔ پہلےسورتی محلہ کی حاتم منز ل میں قیام کیا، بعد ازیں جوگیشوری کے اسماعیل یوسف کالج کے قریب واقع نئی بستی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ وہیں پر میونسپل اسکول سے چوتھی جماعت پاس کر کے سانتاکروز میونسپل اُردو اسکول میں ۷؍ویں جماعت تک پڑھائی کی۔ اس کے بعد انجمن اسلام اسکول ماہم میں داخلہ لیا،جہاں سے میٹرک پاس کرنے کے بعداسماعیل یوسف کالج جوگیشوری سے بی اے اور ممبئی یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اُس وقت یونیورسٹی کی ایم اے کی کلاسیز انجمن اسلام ( سی ایس ایم ٹی) میں چلتی تھیں۔ اس دوران ڈی ایڈ کا امتحان بھی پاس کرلیا تھا۔ عملی زندگی کا آغاز جوگیشوری کی ایک اسکول میں بحیثیت معلمہ کیا۔ انجمن اسلام، گووندواڑی میونسپل اُردو اسکول، ملاڈ اور پھر مومن گرلز ہائی اسکول بھیونڈی میںتدریسی خدمات پیش کیں۔ اسی دوران کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت جاری جی ایم مومن ویمنس گرلز کالج میںپروفیسر کے طور پر بھی اپنی خدمات پیش کیں۔۲۰۰۷ء میں تدریسی خدمات سے سبکدوش ہوئیں۔ عمر کے اس مرحلے پر بھی پوری طرح سے فعال اور چاق و چوبند ہیں اور تعلیمی، سماجی و ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ۔
وحیدہ مومن طالب علمی کے زمانے میں جوگیشوری سے سانتاکروز کی حسنہ آباد میونسپل اُردو اسکول پڑھائی کیلئے لوکل ٹرین سے جاتی تھیں۔ ان کے والد ٹرین کے پاس کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے تھے،اسلئے انہوں نے اسکول کے ہیڈماسٹر صاحب کے سامنے اپنا یہ مسئلہ بیان کردیا تھا۔ ہیڈماسٹرصاحب نے وحیدہ مومن کے والد کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاس کے پیسے کاانتظام میں کردیاکر وں گا ۔ اُس وقت جوگیشوری سے سانتا کروز کیلئے۳؍مہینے کا پاس ۲؍روپے ۱۰؍پیسے میں بنتا تھا ۔ اس کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب ہر۳؍ماہ پر اپنی میزپر بچھے سبزرنگ کے کپڑے کے نیچے ۲؍روپے ۱۰؍پیسے رکھ کر اسکول کی خالہ ماں کے ذریعے وحیدہ کو بلواتے تھے اور اشارے سے ’پاس‘کی رقم لے جانے کیلئے کہا کرتے تھے ۔ یہ سلسلہ بلاناغہ۳؍سال تک جاری رہا۔
وحیدہ مومن جب ایم اےمیں زیر تعلیم تھیں ، اس وقت جوگیشوری میں بھیانک فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا ۔ یہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے ۔ جوگیشوری کی نئی بستی کے اُوپری حصےمیں مسلم آبادی اور نیچے برادران وطن کی آبادی تھی۔ فساد کے وقت دونوں طرف سے پتھر بازی ہوتی تھی۔ پتھروں کی کچھ اس قدر ’برسات‘ ہوئی تھی کہ وحیدہ مومن کے گھر کےقریب کھڑی ایک کالی پیلی ٹیکسی پوری طرح سے برباد ہوگئی تھی، اس کا رنگ تک اُڑ گیا تھا ۔ اسی دوران ایک نوجوان پر گولی چلائی گئی تھی جس کی وجہ سے وہ خون میں لت پت وحیدہ مومن کے گھر کےچبوترے کے سامنے پڑا تھا۔ ڈروخوف سے اسے کوئی اسپتال نہیں لے جا رہا تھا۔ ایسے میں وحیدہ مومن کے چھوٹے بھائی نے قریب ہی کھڑی ایک بند ٹیکسی کا شیشہ توڑ کر اس ٹیکسی سے نوجوان کو کوپر اسپتال پہنچایاتھا۔ زخمی نوجوان کی حالت دیکھ کر وحیدہ کے پورے گھر والوں کی طبیعت غیر ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ سے ان کے گھروالوںنے کئی دنوں تک کھانا نہیں کھایاتھا۔فساد پر قابوکیلئے فوج طلب کی گئی تھی۔ فوج کو گشت کرتےدیکھ کر وحیدہ مومن نے اپنی والدہ سے کہاتھا کہ’’ اماں، آئو،آئو دیکھو فوج آئی ہے‘‘ جس پر اُن کی والدہ نے کہا تھا کہ’’ بی بی، یہ فوج کیا دیکھیں، ہم نے ۴۷ء کے پولیس ایکشن میں حیدرآباد کے شرفاء کو ٹینکوں کے نیچے کچلتے دیکھاہے۔ ان مناظر کے مقابلےیہاںکےفساد اور فوج کا کیاموازنہ؟‘‘ فساد کی شدت ذرا کم ہو ئی تواندراگاندھی نےممبئی کا دورہ کیا تھا۔نئی بستی سےایک وفدان سے ملاقات کیلئے سانتاکروز ایئر پورٹ گیاتھا ۔ اُس وفد میں وحیدہ مومن بھی شامل تھیں ۔ اس موقع پر فساد کے د وران نئی بستی کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی داستان انہوں نے اندرا گاندھی کے گوش گزار کی تھیں۔ اندرا گاندھی نے خاموشی سے روداد سننے کے بعد وفد کو اس تعلق سے ضروری کارروائی کرنے کا یقین دلایا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: ’’اندرا گاندھی کی بھیونڈی آمد پر، ہماری طلبہ کی ٹیم نے ان کا خیرمقدم کیا تھا ‘‘
وحیدہ مومن گزشتہ ۴۶؍ سال سے بھیونڈی میں مقیم ہیں۔ اس طویل عرصے میں انہیں یہاں کی خواتین کی جن ۲؍ روایتوں نے بے حد متاثرکیا، وہ یہاں کی شادی اور میت ہے۔ یہاں کی خواتین ان دونوں موقعوں پر جھنڈکی صورت میں نکلتی ہیں۔ موقعے کی مناسبت سے ان کے طرز عمل کو دیکھ کر آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس طرح کی محفل میں جا رہی ہیں ۔ اگرچمپا چمیلی کی خوشبوئیں اُڑ یں ، چھوٹی بچیوں کے پائل کی آواز یں کھنکنائیں، خواتین نے خوبصورت برقعے پہن رکھےہوں،بچے اچھے کپڑے پہنیں ہوں اور راستے میں شور وغل کاماحول ہو توسمجھ لیں کہ خواتین کا قافلہ کسی شادی میں جا رہاہے۔ اس کے برعکس سادگی، خاموشی اور مغموم اندازمیں خواتین کا گروپ ایک سمت رواں دواں ہو تو سمجھ جائیں کہ کسی کی موت ہوئی ہے ،جہاں یہ خواتین جا رہی ہیں۔ وحیدہ مومن نے میت میں خواتین کو اتنی بڑی تعداد میںبھیونڈی کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں جاتے نہیں دیکھا ۔ بھیونڈی کی یہ دونوں روایتیں ۴۵؍سال سے دیکھ رہی ہیں ،ان میں کسی طر ح کی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
وحیدہ مومن کی عمرتقریباً ۳۔۴؍ سال تھی ۔ اُس وقت حیدرآباد میں ایک ایسی وباء پھیلی تھی جس سے پورے شہر میں ڈر وخوف کا ماحول تھا۔ لوگوں کے جسم بالخصوص گردن پر پھوڑے نکل آتے تھے۔ ایسے مریضوں کے علاج کیلئے شہر کے باہر ایک کیمپ لگایا گیا تھا ۔بیماری میں مبتلا ہو نےوالوںکو کیمپ میں رکھا جاتا تھا ۔ وحیدہ مومن کو بھی اسی کیمپ میں رکھا گیا تھا۔اس موقع پر اُن کی والدہ نے ان کی تیمارداری میں دن رات ایک کردیا تھا۔ ہفتوں وہاں رہنےکے بعد وحیدہ جب روبہ صحت ہوکر گھر لوٹی تھیں تو پورے گھر میں خوشی کا ماحول تھا ۔
وحیدہ مومن کے والد نے اپنی ۴؍بیٹیوں کی شادی پر ، ہلدی کی رسم کے دوران ان کے خوش حال مستقبل کیلئے ایک خاص نصیحت کی تھی جسے وہ آج بھی نہیں بھولی ہیں ۔ والد نے کہا تھا کہ ’’جس چولہے کی لکڑی اسی میں جلے، شوہر کے گھر سے لڑکر نہیں آنا ، جب بھی آنا خاوند کے ساتھ خوشی خوشی آنا، یہاں کی بات وہاں اور وہاں کی بات یہاں نہیں کرنا۔‘‘ والد کی دی ہوئی تربیت کا اثر اب بھی ان کی زندگی کا حصہ ہے ۔
نئی بستی ،جوگیشوری میں وحیدہ کے والد کا زردوزی کا کارخانہ تھا۔ یہاں فلم اداکار ہ سائرہ بانواور وحیدہ رحمان کی ساڑیاں زردوزی کیلئے آتی تھیں جس کی وجہ سے وحیدہ شیخ ، دلیپ کمار کی رہائش گاہ پر بھی جایا کرتی تھیں۔ اسی وجہ سے ان کے مراسم سائرہ بانو سے ہوگئے تھے ۔
وحیدہ مومن کو بچپن میں فلم بینی کا بھی شوق تھا لیکن محدود وسائل کی وجہ سے سنیماگھروں میں جاکر فلم نہیں دیکھ پاتی تھیں، اسلئے اتوار کے دن دور درشن پر دکھائی جانے والی ہندی فلم دیکھنے کی پوری کوشش ہوتی تھی ۔ ان کےمحلے میں کسی کے پاس ٹیلی ویژن نہیں تھا البتہ ایک صاحب تھے،جن کا گھر جوگیشوری اسٹیشن کے قریب تھا ، ان کی بیٹی منجوسے وحیدہ کے مراسم تھے ۔ ان کے گھر پر ٹیلی ویژن تھا ۔ ہر اتوار کو اپنی اماں اورچھوٹی بہن کے ہمراہ ان کے گھر جاکر فلم دیکھتی تھیں ۔ یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔n