بھیونڈی کی ۸۷؍ سالہ مبارک النساء شریف حسن مومن اپنی صحت کا خاص خیال رکھتی ہیں، وہ گزشتہ ۸۰؍برسوں سے کنویں کا پانی پی رہی ہیں اور آج بھی روزانہ کنویں سے ۲؍کین پانی منگواتی ہیں، افطار کے وقت مسجد میں گڑ کا شربت بھیجنا ان کا معمول رہا ہے۔
EPAPER
Updated: October 27, 2024, 2:20 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
بھیونڈی کی ۸۷؍ سالہ مبارک النساء شریف حسن مومن اپنی صحت کا خاص خیال رکھتی ہیں، وہ گزشتہ ۸۰؍برسوں سے کنویں کا پانی پی رہی ہیں اور آج بھی روزانہ کنویں سے ۲؍کین پانی منگواتی ہیں، افطار کے وقت مسجد میں گڑ کا شربت بھیجنا ان کا معمول رہا ہے۔
بھیونڈی کے ہفسان آلی محلے کی مبارک النساء شریف حسن مومن کی پیدائش ۱۹۳۷ءمیں اسی علاقےمیں ہوئی تھی۔ تھانے روڈ پرواقع قیصرباغ اسکول سے تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ معاشی تنگ حالی اور والدین کی بیماری کے ساتھ ہی بھائی بہنوں میں سب سے بڑی ہونے کی وجہ سےگھرکی ذمہ داری بھی چھوٹی سی عمرمیں ان کے کاندھوں پر آگئی تھی۔ اسلئے وہ آگے کی پڑھائی نہیں کرسکیں۔ پڑھنے کا شوق بہت تھا لیکن شوق کی تکمیل کی گنجائش نہیں تھی۔ اسکول جانےکی ضد کے سبب کئی بار والدین کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سننی پڑی تھی۔ بھائی بہنوں کی دیکھ بھال بڑی ذمہ داری سے کی۔ خود تونہیں پڑھ سکیں مگر اپنی چھوٹی بہن کو اس دورمیں ایس ایس سی کروانے میں کامیاب رہی تھیں۔ ان کی بہن بھیونڈی کی پہلی طالبہ تھیں جنہوں نے ایس ایس سی کا امتحان پاس کیاتھا۔ امورِ خانہ داری کےعلاوہ گھریلو اخراجات پورا کرنےکیلئے چرخہ بننے کاکام بھی کیاکرتی تھیں۔ کپڑوں کی بُنائی، رنگائی اور کڑھائی کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتی تھیں۔ شادی کے بعد ان ذمہ داریوں سے فراغت ملی تھی۔ امورِ خانہ داری کاخاصا تجربہ تھا جس کی وجہ سےسسرال میں اپنی صلاحیتوں اور محنت سے ایک الگ مقام بنالیاتھا۔ پیرانہ سالی میں بھی ہشاش بشاش ہیں۔ گھریلو کام کاج میں زیادہ حصہ نہیں لیتی ہیں لیکن وسیع تجربہ کی بنیادپر بیٹیوں اور بہوئوں کی رہنمائی اب بھی کرتی ہیں۔ بیشتر اوقات عبادت میں صرف کرتی ہیں۔ اپنی صحت کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ زندگی کی ۸۷؍ بہاریں دیکھنے کے بعد بھی روشن حافظہ کی مالک ہیں۔
مبارک النساء کے بچپن میں بھیونڈی میں بجلی نہیں تھی۔ شام ہوتے ہی گھروں، دکانوں، کارخانوں اور دیگر مقامات پرمٹی کے تیل کے چراغ روشن کرکے ضروریات پوری کی جاتی تھیں۔ الگ الگ قسم کے چراغ اور لالٹین ہواکرتےتھے۔ شام کو چراغ روشن کرنےکی ذمہ داری کسی ایک فرد کی ہواکرتی تھی۔ وہ شام ہونے سے قبل چراغ میں مٹی کا تیل بھرنے اورچراغ کی بتی ( سوت کی ڈوری نما) وغیرہ کو جانچ کر چراغ جلانےکی تیاری کرتا۔ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی گھر کے ہر کمرے کی کواڑ (دروازہ ) کے قریب چراغ روشن کردیاجاتا تھا۔ اسی روشنی میں کھانا پکاتے اور کھاتے تھے۔ اس دور میں عموماً جہاں چراغ روشن کیاجاتا، وہاں ’بھوئیلا‘ نامی ایک کیڑا ہوتا تھا جو دیوار سے چپکا رہتا تھا۔ چراغ روشن کرنے والے اکثر اس کے شکار ہوتے تھے۔ وہ وہاں جاتے تو وہ ان کے ہاتھ پر چپک جاتا تھا، جسے چھڑانا بہت مشکل ہوتا تھا۔ اس کےپورے جسم پر سفید بال ہواکرتے تھے۔ وہ بال انسان کے جسم سے چپک جاتےتھے، جس کی وجہ سےبڑی تکلیف ہوتی تھی۔ بال جہاں چپکتے تھے، وہاں جلن اور خارش بہت زیادہ ہوتی تھی۔ مبارک النساء خود دو مرتبہ اس پریشانی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ اس کےبال کو جسم سے الگ کرنےکیلئے مٹی کے تیل سے اس حصے کی صفائی کی جاتی تھی۔
۴۰ءکی دہائی کی با ت ہے۔ بھیونڈی میں کالرا کی وباء پھیلی تھی۔ ہر گھر میں دست اور قے کے مریض موجودتھے۔ کالرا کی وباء سے پورے شہر میں ڈروخوف کا ماحول پیداہوگیاتھا۔ بیماری کی دہشت سے لوگ ایک سے دوسرے محلے میں نہیں جارہےتھے۔ مائیں بچوں کو گھروں سے باہر نہیں نکلنے دیتی تھیں۔ اسکولوں میں چھٹیوں کااعلان کردیا گیا تھا۔ شہر سے باہر کالرا کےمریضوں کیلئے ایک کیمپ لگایاگیاتھا۔ ایمبولینس کی سہولت نہ ہونے سے مریضوں کو ٹرک میں بھر کر شہر سے کیمپ میں لے جایا جاتا۔ جس گھر سے کوئی مریض کیمپ منتقل کیا جاتا تھا، اس گھر میں ایک طرح سے رونا پٹنا مچ جاتاتھا۔ سماجی کارکن تانگے پرمائیک سے’جس کسی کے گھر میں کالرا کامریض ہو، وہ فوراً باہر آجائے، گھر میں نہ رہے ‘ اس طرح کا اعلان کرتے تھے تاکہ مریضوں کو کیمپ پہنچایا جاسکے۔ یہ سلسلہ بیسوں دن تک جاری رہا۔ اس کی وجہ سے پورے شہر میں خوف و ہراس کا تھا۔ بیمارہونے کے بعد بھی کوئی کیمپ جانا نہیں چاہتا تھا۔
مبارک النساء کے بچپن کےدور میں بھیونڈی میں نل کے پانی کی سہولت نہیں تھی۔ پورے بھیونڈی کا انحصار کنویں اور تالاب پرتھا۔ اسی وجہ سے بھیونڈی کے ہر محلےمیں کنواں اور تالاب ہواکرتاتھا۔ کنویں اور تالاب ہی سے لو گ پینے کے پانی، نہانے اورکپڑ ا وغیرہ دھونےکی ضروریات پور ی کرتےتھے۔ خواتین تالاب پر جاکر کپڑے وغیرہ دھویا کرتی تھیں۔ اس میں کوئی بیماری بھی نہیں تھی۔ اسی وجہ سے آج بھی مبارک النسا ءکنویں کا ہی پانی پیتی ہیں۔ وہ تقریباً ۸۰؍سال سے کنویں کا پانی پی رہی ہیں۔ آج بھی وہ روزانہ کنویں سے ۲؍کین پانی منگواتی ہیں ۔ ایک آدمی روزانہ ۲؍کین پانی کنویں سے لاکر دیتاہے، جسے وہ خود بھی پیتی اور گھر کےلوگو ں کو بھی وہی پانی پلاتی ہیں۔ یہ پانی ضائع نہ ہو، اس کا پورا خیال رکھتی ہیں۔ ان کا خیال ہےکہ کنویں کا پانی پینے سے نہ صرف ہاضمہ درست رہتا ہے بلکہ پیٹ کی بہت ساری بیماریاں نہیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے زندگی بھر کنویں کا پانی پینے کا تہیہ کررکھاہے۔
مبارک النساء امورِ خانہ داری میں بہت مشاق رہی ہیں۔ عمرکے اس مرحلے پر انہوں نے اب ان ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے لیکن ان کے ہاتھوں کا پکایاہواکھانا اور شربت اب بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے مساجد میں آنےوالی جماعتوں کی ضیافت کا ۲۰؍سال تک انتظام کیاہے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے جماعت کے لوگوں کاکھانا بناکر بھیجتی تھیں۔ سب سے زیادہ ۴۰؍افراد کا کھانا تنہابناکر بھیجاتھا۔ مساجد کے ذمہ داران سے کہہ رکھاتھاکہ جماعت کے لوگوں کے رات کا کھانا میری جانب سے ہوگا۔ ان کےہاتھوں کی بریانی، قورمہ اورکسٹرڈ لوگوں کو بہت پسند آتا تھا۔ گُڑ کاشربت بھی بہت ذائقہ دار بناتی ہیں ۔ رمضان المبارک میں ۵۰؍ سال تک افطاری کے وقت مساجد میں گُڑ کا شربت بھیجنا ان کا معمول رہاہے۔ روزانہ ۵؍کلوگُڑ کاشربت پورے رمضان بنایاکرتی تھیں۔ گزشتہ ۲؍سال سے انہوں نے یہ سلسلہ بندکردیاہے۔
مبارک النساء کو بچپن میں فلم بینی کا بھی شوق تھا۔ گھروالوں کی چوری سےسہیلیوں کے ساتھ فلمیں دیکھنے چلی جاتی تھیں۔ اگر گھریلو قسم کی کوئی فلم ہوتی تو بھیونڈی ٹاکیز میں ہفتے میں ایک دن ۳؍تا ۶؍بجے ’زنانہ شو‘ کاانتظام ہوتاتھا۔ اس میں صرف خواتین فلم دیکھنے آتی تھیں۔ ۲؍آناٹکٹ کی قیمت تھی۔ زمین پر بیٹھ کر فلم دیکھنے کا انتظام ہوتا تھا۔ گھر گرہستی، جگنواور عالم آراء جیسی فلمیں مبارک النساء نے ’زنانہ شو‘میں دیکھی تھیں۔
مبارک النساء نے رئیس ہائی اسکول میں ایک مرتبہ سابق وزیر اعظم اندراگاندھی کو بہت قریب سےدیکھاتھا۔ تقریب کےسلسلے میں اندرا گاندھی رئیس ہائی اسکول آئی تھیں۔ یہاں ان کا پُرجوش خیرمقدم کیا گیا تھا۔ وزیراعظم کا خیرمقدم کرنے کیلئے طلبہ کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس میں مبارک النساء بھی شامل تھیں۔ اندراگاندھی نے ان لڑکیوں کو ہاتھ دکھا کر اُن کاشکریہ اداکیا تھا۔ ا ن کی باڈی لینگویج اور پُروقار شخصیت سے مبارک النساء اور ان کے ساتھی طلبہ بے حد متاثرہوئے تھے۔ انہیں اب بھی اندراگاندھی کی خوداعتمادی پر رشک آتاہے۔